دبستانِ عظیم آباد کو اپنے جن فن کاروں پر بجا طور پر ناز ہے، ان میں جوشش، فقیہہ، دردمند، راسخ، شاد ، عشرتی اور کلیم عاجز کے نام شامل ہیں۔ یہ ایسے نام ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب کو مالامال کرنے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسی سلسلۃ الذہب میں ایک اور نام کا اضافہ کروں تو شاید غلط نہ ہوگا، وہ نام ہے صفدر امام قادری کا۔ صفدر امام قادری کو جدید اردو نقادوں کے درمیان امام کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت فن کار ہیں۔ بلند آہنگ شاعر اور صاحبِ طرز نثر نگار کے ساتھ ہی ان کی پہچان دور اندیش دانش ور کے طو ر پر بھی سامنے آ رہی ہے۔ سہ ماہی بین الاقوامی رسالہ’ صدف‘ کے مدیر اعلی، بزمِ صدف انٹرنیشنل کے ڈائرکٹر اور مکتبہ ٔ صدف کے منیجر کی حیثیت سے وہ اردو کی ہمہ جہتی خدمات میں مصروف ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ساری شناخت صفدر امام قادری جیسے فن کار کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ میدانِ نقد کے ماہر کھلاڑی ہیں اور ان کی اسی پہچان نے ان کو چاردانگِ عالم میں متعارف کرایا ہے۔
ابھی حال ہی میں راقم کو صفدر امام قادری کی نئی کتاب ’عہد سر سید کے ادبی و علمی نقوش(انیسویں اور بیسویں صدی کے چند نثرنگاروں کا مطالعہ)‘ کے بالاستیعاب مطالعے کا موقع ملا۔درج بالا سطور میں ظاہر کی گئی رائے کی بنیاد یہی کتاب ہے۔ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس علمی کتاب سے بھی صفدر امام قادری کی تنقیدی بصیرت واضح ہوتی ہے۔ اس کتاب میں شامل ۱۹ مضامین دراصل انھوں نے مختلف اوقات میں تحریر کیے تھے۔ یہاں پر مرتب ِ کتاب محمد فیروز عالم کی ادارتی امورمیں مہارت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ انھوں نے مختلف اوقات میں لکھے ان کے مضامین کو عہد سرسید کے علمی و ادبی نقوش کے ڈائنامک نام سے چار ذیلی عناوین (پیش روانِ سرسید، سرسید کی فکری اساس، معاصرین سرسید اور نقوشِ سرسید) کی مدد سے ایک دھاگے میں اس طرح پرو دیا کہ یہ مضامین مستقل کتاب کے لیے لکھے گئے باب کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔اس کامیابی کے لیے محمد فیروز عالم صاحب یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ان کی ترتیب کردہ اس کتاب کو دیکھنے کے بعد لا محالہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں ’تنقیحات‘، تفہیمات‘ وغیرہ کی یاد آجاتی ہے۔ ان کتابوں میں بھی مودودی صاحب کے منتشر مضامین کو ایک خاص عنوان کے تحت خوب صورتی کے ساتھ فنی مہارت کاثبوت پیش کرتے ہوئے جمع کردیا گیا تھا۔ آج جب کہ مستقل کتاب کی جگہ مضامین لکھ کر ان کو مضامینِ فلاں یا مقالاتِ فلاں کے غیر پر کشش ناموں سے چھپوا نے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ ایسے میں موضوعاتی ربط تلاش کر اس طرح سے کتابوں کو ترتیب دے کر شایع کرنے سے یقیناً اردو کا قاری اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچنے میںآسانی کا احساس کرے گا۔
کتاب میں شامل مضامین پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں جہاں روایتی موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے وہیں اردو دنیا کے لیے نامانوس سمجھے جانے والے موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، جو ظاہر ہے صفدر امام قادری جیسے اخاذ ذہن کے مالک نقادوں کو منفرد مقام عطا کرتاہے۔ جسے اردو کے مستقبل کے لیے فالِ نیک سمجھنا یقینا غلط نہ ہوگا۔ روایتی موضوعات پر لکھے گئے مضامین بھی اپنے اندر جدت لیے ہوئے ہیں جو خود کے لکھے جانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔
مثال کے طور پر کتاب میں شامل پہلا مضمون میر امن اور ’باغ و بہار‘ ہے۔ اس میں مصنف نے میر امن کی انفرادیت اور ’باغ و بہار‘ کی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اس مضمون کو پیش روانِ سرسید کے ذیلی عنوان کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ میر امن اور ’باغ و بہار‘پر اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس مضمون کی انفرادیت دوسرے ہی پیراگراف میں نظر آجاتی ہے جب مصنف کہتے ہیں کہ ’’باغ و بہار ترجمہ تو ہے لیکن اصل کتاب کے انکار کے ساتھ‘‘ تو کتاب قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’میر امن نے اگر Reproductionکا کام کیا ہوتا تو ’نوطرزِ مرصع‘ کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ اصل کتاب بہ ہر حال اصل ہوتی ہے اور نقل یا ترجمہ کا ذکر یقینی طور پر بعد میں آئے گا۔ آج ہمارے پاس ’نوطرزِ مرصع‘ اور ’باغ و بہار‘ دونوں کتابیں موجود ہیں۔ ان کے متون کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ میر امن نے اپنی کتاب پر ’نوطرزِ مرصع‘ کی ایک ذرا پرچھائیں بھی نہیں پڑنے دی ۔ اس طرح’باغ و بہار‘ ترجمہ تو ہے لیکن اصل کتاب کے انکار کے ساتھ۔‘‘
اپنی بات کو مدلل بناتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں:
’’محققین نے فارسی قصے کی تلاش میں کافی مشقت کی ہے اس کے باوجود پورے طور پر ’باغ و بہار‘ سے ملتی جلتی ایک بھی کتاب نہیں۔ قصہ چہار درویش کے الگ الگ نسخوں سے دو چند واقعات اور عبارتیں موجود ہیں۔ اس لیے ’باغ و بہار‘ کو زبان اور قصے کی ترتیب ِ نو کی وجہ سے میر امن کی طبع زاد کتاب مان لینے کو بے جا عقیدت نہیں کہنا چاہیے۔‘‘(ص۔ ۱۰)
اسی طرح ’’مکتوب نگار غالب ‘‘ بھی اسی ذیلی عنوان کے تحت شامل ِ کتاب ہے۔ میر امن کی طرح غالب کی نثر اور ان کے خطوط پر معتبر نقادوں اور دانش وروں نے خامہ فرسائی کی ہے اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن جب صفدر امام قادری کہتے ہیں کہ غالب کے اردو خطوط پر سنجیدگی کی وجہ دراصل غالب کا عظیم المرتبت شاعر ہونا بھی ہے تو لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں بات صحیح کہی جا رہی ہے، ورنہ اس زمانے میں اور بعد کے زمانوں میں اَوروں نے بھی خطوط تحریر کیے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خطوط اب حالات کے آہنی پنجوں کا شکار ہو کر کہیں کھو گئے ہیں؟ چناں چہ مصنف رقم طراز ہیں:
’’ان کے اردو خطوط پر جس سنجیدگی سے فوری توجہ دی گئی، اس کی وجہ بھی ایک عظیم المرتبت شاعر کے ہاتھوں رقم شدہ ہونے کی بات شاملِ حال تھی۔ خطوط غالب کی روز افزوں اہمیت اور مقبولیت بڑھی، اس میں بھی یہ نکتہ غیر متنازعہ طو ر پر سب سے اہم ہے کہ غالب کی شخصیت کے پیچ و خم کو خطوط میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ دیکھ لینے کے بعد ان کی شاعری اور بھی اثر انگیزی کے ساتھ ہمارے روبہ رو ہوتی ہے۔‘‘
اس بات سے نتیجہ نکالتے ہوئے وہ بجا طو ر پر کہتے ہیں :
’’اس لیے اس ادبی سرماے کی لا زوال اہمیت کے باوجود اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ غالب کی شاعرانہ عظمت اوّلیت کی حامل ہے اور ان کی نثرنگاری ہی اس کا تتمہ۔‘‘(صفحہ۔۱۹)
ظاہر ہے مصنف کا یہ خیال اردو میں ایک نئی بحث کے آغاز کا سبب بن سکتاہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس خیال کے پیچھے ایک ٹھوس بنیاد موجود ہے۔
اس کے بعد ’سرسید کی فکری اساس‘ کے ذیلی عنوان کے تحت چار مضامین شامل ہیں۔ علی گڑھ تحریک اور سرسید کا علمی کارنامہ، سرسید کے تعلیمی تحفظات(عورتوں کی تعلیم کے خصوصی حوالے سے)، سر سید کی تاویلیں اور ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل(انقلابِ ستاون کے حوالے سے)، سر سید شناسی کا ایک نیا باب(شافع قدوائی کی انگریزی کتاب کا تنقیدی جائزہ)۔ اول الذکر مضمون ’علی گڑھ تحریک اور سرسید کا علمی کارنامہ‘ ایک مختصر تحریر ہے اور تعارفی نوعیت کا ہے۔ جب کہ دوسرا مضمون ناقدانہ آہنگ لیے ہوئے ہے۔ سرسید کے تعلیمی تحفظات پر مصنف نے کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے تعلق سے سرسید کافی تحفظات کے شکار تھے۔ اگر اس حوالے سے ان کو پست ذہنیت کا حامل کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس ذہنیت کے سبب ایک عرصے تک علی گڑھ اوینٹل کالج میں عورتوں کی تعلیم کا انتظام نہ تھا۔ سرسید کی وفات ۱۸۹۸ء کے سالوں بعدیعنی ۱۹۰۶ء میں ڈاکٹر شیخ عبداللہ کی کوششوں سے علی گڑھ میں گرلس اسکول کا قیام ممکن ہو پاتاہے۔ ایک ایسی ملت جہاں حضرت عائشہ ، حفصہ ، رابعہ بصری، رضیہ سلطان اور دیگر علوم و فنون کی ماہر خواتین کی موجودگی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں سرسید جیسے دانش ور کو کیوں عورتوں کی تعلیم کی طرف سے آنکھیں بند کرنی پڑیں۔ اس پر مصنف نے کھل کر لکھا ہے اور بڑے سے بڑے کو بھی اپنی تنقید کی زد میں لانے سے ہچکچایا نہیں ہے۔ ولیم ایڈن، راجا رام موہن رائے اور جیوتی راو پھولے کی اس سلسلے میں کی گئی کوششوں کا ذکر کرکے مضمون میں تقابلی انداز اختیار کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے، ایسا محسوس ہوتاہے۔
’سر سید کی تاویلیں اور ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل‘ (انقلابِ ستاون کے حوالے سے) اس کتاب کا انتہائی اہم اور جاندار مضمون ہے۔ دس صفحات پر مشتمل یہ مضمون ۲۰۰۷ء میں تحریر کی گیا تھا۔ انگریزوں اور ان کی حکومت کے تعلق سے سر سید کے جس طرح کے خیالات تھے، اس کی وجہ سے وہ دارالعلوم دیو بند اور اس کے متعلق حلقوں میں کافی مطعون بھی ہوئے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ جائزہ لیا جائے کہ سر سید نے کن وجوہات اور دلائل کی بنا پر ملک اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے انگریزوں کی حکومت کو تسلیم کرلینے میں ہی عافیت کاسبب بتلایا تھا۔ اس پر مصنف نے حالات و واقعات کی گرہ کشائی میں بہت بہت داد ِ تحقیق دیا ہے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ امید ہے اس مضمون کے مطالعے کے بعد دونوں گروہوں کو مزید قریب لانے اور اس سلسلے میں راستے کی ہم واری میں مدد ملے گی۔
اس حصے کا آخری مضمون ’سر سید شناسی کا ایک نیا باب‘ ہے۔ اس مضمون میں مشہور مورخ اور صاحبِ قلم شافع قدوائی کی انگریزی کتاب ’’Cementing Ethics with Modernism: An Appraisal of Sir Syed Ahmad Khan's Writing (Gyan, 2010, Pages 320‘‘ کا تفصیلی تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔ عنوان سے ظاہرہے کہ اس بات کو مصنف سرسید شناسی کے ایک نئے باب کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
معاصرین سرسید کے ذیلی عنوان کے تحت محمد حسین آزاد ، نذیر احمد ، الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی کے مختلف جہات پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’آب حیات‘ اور محمد حسین آزاد پر لکھی گئی بے شمار تحریروں کے باوجود یہاں شامل دو مضامین کو جواز اس لیے فراہم ہوتاہے کہ ’آبِ حیات‘ اور اس کے مصنف محمد حسین آزاد کی شخصیت اور خدمات کو لے کر اردو دنیا کافی افراط وتفریط کا شکار ہے۔ یہاں مصنف نے ’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے محمد حسین آزاد کے خیالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور کافی معتدل رائے اختیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
’’آبِ حیات اردو کی ادبی تاریخ میں ایک ناگزیر وقوعہ ہے اور اسی ناگزیر یت (Inevitability) میں اس کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘(صفحہ۸۰)
یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون ہے جو ۴۰ ؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس مضمون میں کتنی بسیط گفتگو کی گئی ہے۔ اسے یقینا محمد حسین آزاد پر لکھی گئی اب تک کی تحریروں میں نمایاں مقام حاصل ہوگا کیوں کہ ان کی جملہ خوبیوں اور خامیوں پر مدلل گفتگو اس مضمون کا امتیاز ہے۔ یہ ذاکر حسین کالج کے سیمینار کے لیے لکھا گیا تھا اور کافی پسند بھی کیا گیا تھا۔
نذیر احمد سر سید کے قریبی رفقا میں شامل تھے۔ ان کو اردو دنیا کا پہلا ناول نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مصنف نے ان کے ان خطوط کی مدد سے جو انھوں نے اپنے بیٹے کے نام لکھے تھے، ان کے تعلیمی تصورات کو یکجا کرنے کا کام کیا ہے اور ان کے تعلیمی تصورات سے متاثر ہو کر اسے تعلیم ِ جدید کے مثالی منشور کا نام دیا ہے۔ اردو دنیا میں تعلیم کے موضوع پر عموماً کم ہی لکھا جاتاہے پھر کسی فن کار کے خطوط کی مدد سے ان کے تعلیمی تصورات کی نشان دہی یقینا اسے ایک جدت طراز عمل ہی کہا جائے گا۔ اس حوالے سے صفدر امام قادری جیسے جدید فکر کے حامل صاحبِ قلم کو اردو دنیا میں یاد کیا جائے گا کہ انھوں نے ایک ناول نگار کے خطوط میں تعلیمی دانش ور ی کا انکشاف کیا ہے۔ اپنے اس مطالعے کے نچوڑ کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
’’نذیر احمد کو صرف ایک ناول نگار یا عالمِ دین سمجھ کر تعلیمی دائرے سے باہر کا فرد سمجھنا ہماری بڑی بھول ہوگی۔‘‘(صفحہ۱۳۸)
حالی کو ہمارے ادب میں کئی حیثیتوں سے پیش رو کا مقام حاصل ہے۔ وہ سرسید کے نہ صرف سفرو حضر کے ساتھی تھی بلکہ ان کے سوانح نگار بھی ہیں۔ لیکن ان کا ایک اور تعارف جو شاید اردو دنیا کی نظروںسے اوجھل تھا، اس کی طرف ہماری توجہ مبذول کرنے کے لیے مصنف نے ایک مستقل مضمون قلم بند کیا ہے۔ ’’حالی کی نثر: غیر افسانوی ادب کا مثالی اسلوب‘‘ ۔ اسالیب کے بیان میں کہا جاتا ہے کہ ہر فن کار کا اپنا اسلوب ہوتاہے اور ہر فن کے لیے بھی ایک مخصوص اسلوب۔ کیوں کہ اس سے کہی گئی باتوں کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔ حالی کا شمار صاحبِ طرز ادیبوں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اسلوبِ بیان پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ان کے اسلوب کو کس بنیاد پر غیر افسانوی نثر کے لیے مثالی اسلوب کہا جا سکتاہے، اس کی نشان دہی اس مضمون سے ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’اردو میں صاحبِ طرز اور ہنرور تو بہت آئے لیکن کسی کے پاس حالی جیسی متوازن شخصیت نہ تھی۔ حالی کی سوانح عمریاں ہوں یا تنقید، مکاتیب یا مقالات؛ ہر جگہ لہجے میں قرار اور ہمواری کی ایسی صفات حاصل ہوتی ہیں جن کے بغیر غیر افسانوی اور خاص طور پر کاروباری نثر نہیں لکھی جا سکتی۔ حالی عہد ساز شاعر اور تنقید کے بنیاد گزار یا سوانح نگاری کا معمارِ اول تو ہیں لیکن ان کا شاید سب سے بڑا کارنامہ یہی تسلیم کیا جائے گاکہ اپنے بعد کی نثر نگاری بالخصوص غیر افسانوی نثر کے وہ ایک ایسے بانی ہیں جس پر سو برس گزرنے کے باوجود وقت کی نہ گرد پڑی اور نہ ہی کسی کو ایسی ضرورت درپیش ہوئی کہ حالی سے وہ الگ راستہ اختیار کرکے زندگی اور ادب کا کوئی نیا پیمانہ مرتب کرے۔‘‘(صفحہ۔۱۵۰)
حالی کے تعلق سے لکھے گئے ان جملوں کو پڑھ کر قاری کو احساس ہو رہا ہوگا کہ صفدر امام قادری حالی کے پرستاروں میں سے ہیں اور ان پر تنقید کرنے کو گوارہ نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ خیال کتاب میں شامل اگلے ہی مضمون ’مقدمہ شعرو شاعری : کیا مشرقی روایت نقد کا ترجمان ہے؟‘ سے بالکل غلط ثابت ہو جاتاہے۔ اس میںمصنف نے انتہائی چابک دستی کے ساتھ مقدمہ میں بیان کیے گئے دلائل کا جائزہ لیا ہے اور اس کے ایک ایک جز و پر کھل کر گفتگو کی ہے یہاں تک کہ حالی کے خیالات کا بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ مثلاً وہ حالی کی مغربی شاعری کی تعریف بھری باتوںکے پیچھے دلائل کی تلاش کرتے ہیں تو ان کے نہ ملنے پر مایوسی کے ساتھ کہتے ہیں:
’’حالی نے مغرب کے نظریۂ شعر کی وضاحت میں مشرقی شاعری اور مشرقی افکار کو زیر بحث رکھا اور اطلاقی پہلوئوں میں ہی عربی ، فارسی اور کبھی کبھی اردو کے کلاسیکی شعرا کا تذکرہ کیا ۔ یہاں بھی ان کے عہد کے اجتماعی نظریات کا رنگ چڑھا ہوا معلوم ہوتاہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حالی کی ان باتوں سے اگر فیضان مشرق کو حذف کر لیں تو حالی کے اکثروبیش تر اصولِ شعر معروضے کی شکل میں بدل جائیںگے اور ان معروضات کی اہمیت ایک اوسط درجے کی ذاتی ڈائری سے زیادہ نہیں ہوگا۔‘‘(صفحہ۱۴۰)
آگے مقدمہ میں بیان کیے گئے جملہ معروضات پر اپنی رائے اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
’’طوفانِ مغرب نے بے وجہ یہ غلط فہمی پھیلا دی تھی کہ ہمارا اپنا علم معمولی اور ازکارِ رفتہ ہے اور مغرب کے برقی قمقموں سے خود کو روشن کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دریا کا پانی اتنا بہہ چکا ہے ، اب تو ہمارے لیے یہ لازم ہی ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کے بعد کے ادبی کارناموں کا ایک جائزۂ نو لیا جائے اور انگریزی اثرات اور سازشوں کا سچ، جھوٹ طشت از بام کیا جائے۔ یہ بھی سب سے بہتر بات ہوگی کہ یہ جائزہ مغرب پرستی کے سب سے بڑے وکیل سرسید کی پسندیدہ کتاب مقدمۂ شعروشاعری سے شروع کی جائے۔(صفحہ ۱۶۰)
حالی سے متعلق ایک اور مضمون اس کتاب میں شامل ہے ـ’’یادگارِ حالی:حالی کی ایک مثالی سوانح کا نقطۂ آغاز ‘‘۔ نام سے ظاہر ہے کہ صالحہ عابد حسین کی کتاب یادگارِ حالی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کو حالی کی سوانح نگاری میں ایک عمدہ مثال کے بہ طور پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد شبلی سے متعلق تین مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون ’’خطباتِ شبلی کی دانش ورانہ جہت ‘‘ کے نام سے ہے۔ اس مضمون میں شبلی کی سیرت نگاری، تاریخ نگاری، تنقید نگاری اور شاعری کے روایتی موضوعات سے ہٹ کر شبلی کی ایک اور جداگانہ حیثیت کا بالتفصیل تعارف کرایا گیا ہے۔ شبلی کی اس حیثیت پر اردو میں کم لکھا گیا ہے۔ مصنف نے شبلی کے اس پہلو میںبھی ان کی بنیادی صفت یعنی دانش وری کے عناصر کی تلاش کی ہے۔ ندوۃ العلما کے اجلاس اور علی گڑھ و حیدرآباد میں دیے گئے خطبات پر نظر ڈالنے کے بعد مصنف کا کہنا ہے کہ شبلی تقلید کے بجائے تحقیق کے قائل تھے۔ اس لیے انھوںنے اپنی وراثتوں پر بے جا فخر کرنے کے بجائے کمیوں کی نشان دہی کو اپنا وطیرہ بنایا تاکہ یوروپی اقوام کے مقابلے کھڑے ہونے میں ہمیں شر م کا احساس نہ ہو۔
اس سلسلے کا دوسرا مضمون ’’شبلی: سرسید سے کتنے مختلف؟‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوںنے بتایا کہ شبلی سرسید کی زندگی ہی میں ان کے بہت سے خیالات سے متفق نہیں تھے۔ سر سید سے ’الفاروق ‘ کے معاملے کو لے کر اختلافات ابھر کر سامنے آئے جو بعد میں مختلف ملکی و قومی امور میں دونوں کی آرا کے اختلافات نے دونوں ہی بزرگوں کے میدانِ کار کو الگ الگ بنا دیا۔
’’شبلی ، مکاتیب ِ شبلی اور ندوۃ العلما‘‘ ڈاکٹر عمیر منظر کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ اس میں شبلی کے ان ہی خطوط کو جمع کیا گیا ہے جس میں ندوۃ العلما کا ذکر تھا تاکہ شبلی کا تعلق ندوۃ العلما سے واضح ہو سکے اور ذمہ دارانِ ندوہ احتساب کرکے ندوۃ العلما کو مزید بلندیوں تک پہنچا کر ملت کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اس وقیع کتاب پر ڈاکٹر صفدر امام قادری نے ایک طویل تبصرہ تحریر کیا تھا۔ پندرہ صفحات پر مشتمل اس تبصراتی مضمون نے اپنے دلائل و براہین کے سبب مستقل مضمون کی حیثیت حاـصل کر لی ۔ بنیادی نکات کی وضاحت اور اپنے علم و تجربے کی روشنی میں مصنف نے شبلی کے موقف کو ثابت کرنے کے لیے بنیادی مآخذ تک کھنگال ڈالا ہے۔ عام طور سے تبصراتی مضمون میں اس طرح کی گہرائی نہیں پائی جاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر عمیر منظر کے خیالات کی نفی میں اپنے دلائل پیش کیے ہوں بلکہ انھوں نے ان کی تائید و تحسین کی ہے اور حسنِ ترتیب کی کھل کر داد دی ہے۔ اس کی وجہ بھی انھوں نے بیان کی ہے:
’’ڈاکٹر عمیر منظر کی کتاب اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ شبلی کے ان خطوط سے بیسویں صدی کے ابتدائی چودہ پندہ برسوں کی انجانے طور پر ایک ایسی تاریخ رقم ہو گئی ہے جس میں ملک کے عالی دماغ اصحاب الرّائے کا کسی ایک موضوع کے تعلق سے غور و فکر اور اس کے نتائج سامنے آجاتے ہیں۔‘‘(صفحہ۔ ۲۰۴)
کتاب کا آخری حصہ نقوشِ سر سید کے ذیلی عنوان پر مشتمل ہے۔ اس میں چار مضامین شامل ہیں۔ جس میں دو مضامین مولانا آزاد سے متعلق ہیں۔ ’’مولانا آزاد کا تصورِ تعلیم‘‘ اور مولانا آزاد : جدید ہندستان میں اعلا تعلیم کے معمارِ اول‘‘، جب کہ دو مضامین’’اردو کا سوانحٰ ادب اور دارالمصنّفین‘‘ اور’’سید حامد کی علمی وراثت‘‘ ہیں۔
مولانا آزاد اور ان کے تعلیمی تصورات پر کچھ حدتک ضرور لکھا گیا ہے لیکن اس بات پر توجہ کم رہی کہ وہ اپنے تعلیمی تصورات کے ذریعے کس طرح کے ہندستان کی تعمیر چاہتے تھے۔ اس پر مصنف نے بھرپور انداز میں لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا آزاد ہیومنسٹ(Humanist) یعنی بشردوست روایت کے امین تھے۔ اور ’’ وہ اس طرح کی تعلیم ہندستان میں عام کرنا چاہتے تھے جس سے انسان کو اس کے ماحول کے ساتھ اور ماحول کو انسان کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔‘‘(صفحہ۔۲۳۱) ۔ یہ بات انھوں نے خواجہ غلام السیّدین کی کتاب علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کے حوالے سے کہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ عالمی قیادت ماحولیاتی مسئلوںکو دنیا کے دو بنیادی مسئلوں (گلوبل وارمنگ اور دہشت گردی) میں شمار کرتی ہے اور اس کا تدارک چاہتی ہے تو ایسے ماحول میں مولانا آزادکے اس تصور کو عام کرنا یقینا عالمی قیادت کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتاہے۔
دارالمصنّفین نے اردو میں سوانحی ادب کا جو قابلِ ذکر ذخیرہ تیار کیا ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کئی بار ہمارے دانش وروں کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ایسے میں صفدر امام قادری نے کھل کر دارالمصنّفین کی ان خدمات کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے :
’’سوانحی ادب کی ترقی میں دارالمصنّفین کے لکھنے والے اور وہاں کی تصنیف شدہ کتابیں ایک رہنما خطوط کی طرح سے ہیں جن کی بنیاد پر آنے والے وقت میں اعلا پایے کی سوانح عمریاں لکھی جا سکتی ہیں۔‘‘(صفحہ ۔ ۲۵۶)
کتاب میں شامل آخری مضمون ’سید حامد کی علمی وراثت ‘ کے عنوان سے ہے۔ سید حامد کے تعارف کی کئی جہات ہیں۔ انھیں سر سید ِ ثانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ ملک کی اعلا انتظامی کمیٹیوں میں وہ سرخیل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیںلیکن ان کی علمی وراثتوں تک نگاہ کم ہی پہنچی ہے۔ حالاں کہ تعلیم آباد جیسی بستی ان کی یادگاروں میں شامل ہے۔ جہاں سے سینکڑوں طلبہ نے تیاری مکمل کرکے ملک کی اعلا انتظامیہ میں جگہ بنائی ہے۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ سید حامد کی علمی وراثتوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ چناں چہ مصنف نے سید حامد کے ذریعے ’تہذیب الاخلاق‘ کی از سرِ نو اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شاعری اور نثر کی بنیادی خوبیوںکا بھی اعتراف کیا ہے۔ سید حامد کے ایک مضمون ’’ ہری پتلیوں والا عفریت‘‘ کی تمثیلی شان پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سید احمد خاں اور محمد حسین آزاد کی روح سید حامد میں حلول کر گئی ہے۔ ا س مضمون کے تمثیلی حصوں پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہو جاتاہے کہ سید حامد فکشن کی روایت کے گہرے واقف کار ہیں اور مقدور بھر ڈرامے کو بھی گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ورنہ ان کے قلم سے ایسے اجزا کیوں برآمد ہوتے!!‘‘(صفحہ۔۲۶۴)
صفدر امام قادری نے 272 صفحے کی اس کتاب کے ۱۹ مضامین کے توسط سے اردو کے ایسے گوشوں کو چھونے کی کامیاب کوشش کی ہے جہاں عام طور سے نظر یں کم پہنچتی ہیں۔ سر سید کے نام کی طرف کتاب کی نسبت اس لیے بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ’تعلیم جدید کا منشور‘، ’شبلی:سرسیدسے کتنے مختلف‘، ’مولانا آزاد کا تصورِ تعلیم‘،’مولانا آزاد: جدید ہندستان میں اعلا تعلیم کے معمارِ اوّل‘ اور ’سید حامد کی علمی وراثت‘ جیسے مضامین سرسید کے مشن کی تکمیل و تفہیم کے راستے کو ہم وار بناتے ہیں۔ کتاب کا دل نشین پیرایۂ بیان قاری کو اپنی جانب مائل کر ہی لیتا ہے۔ علمی تہہ داری کی کیفیت سے لبریز مضامین کو اگر قاری نے پڑھنا شروع کر دیا تو مضمون کے اختتام کے بعد ہی وہ اپنی جگہ سے حرکت کر پائے گا، مضامین کی چاشنی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔امید ہے صفدر صاحب کی دیگر مقبولِ عام کتابوں کی طرح ہی اس کتاب کا بھی اردو دنیا میں خیرمقدم کیا جائے گا۔
نامِ کتاب: عہدِ سرسید کے ادبی و علمی نقوش
مصنف: صفدر امام قادری
مرتب: محمد فیروز عالم
ناشر : مکتبہ ٔ صدف، پٹنہ
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۷
قیمت: ۳۰۰؍ روپے، صفحات: ۲۷۲