احمد علی برقیؔ اعظمی اسم با مسمیٰ ہیں۔ وہ برق رفتاری سے شعر بھی کہتے ہیں اور نئی برق تجلی سے قاری کو روشناس بھی کرتے ہیں۔ اردو میں برقی کی طرح ارتجالا شعر کہنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ان کی بدیہہ گوئی یقیناً قابل رشک ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زود گوئی کے باوجود ان کا موضوعاتی دائرہ محدود اور مختصر نہیں بلکہ متنوع اور مختلف ہے۔ان کے موضوعاتی مطاف میں آج کے مسائل، معاملات اورمتعلقات بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر ان کی شاعری میں معاصر عہد کے وہ مسائل بھی ہیں جن کا تعلق انسانی حیات ماحولیات سائنس اورجدید ٹیکنالوجی سے ہے۔ ان کے یہاں شاعری اور سائنس کی مارفولوجی کا اشتراک قابل داد ہے۔ انھوں نے بہت سے خوبصورت استعارے اور تشبیہات آج کی سائنس ٹیکنالوجی خاص طور پر نباتات سے لیے ہیں اور انھیں شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے احمد علی برقیؔ کا جہانِ شعر بہت ہی وسیع اور بسیط ہے۔ کوئی بھی موضوع ہو احمد علی برقیؔ اس میں اپنی قدرت کلامی اور حسن بیان کا جوہر ضرور دکھاتے ہیں۔انھیں محال کو کمال میں بدلنے کا ہنر آتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پڑھ کرمرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے
میں حضرت سودا کو سنا بولتے یارو
کیا قدرت ِ الفاظ ہے کیازورِ بیاں ہے
گو کہ یہ شاعرانہ تعلی ہے مگر برقی ؔکے باب میں یہ حقیقت ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری میں قدرتِ الفاظ بھی ہے اور زورِ بیاں بھی انھوں نے تخلیق اور تشکیلِ شعر میں فارسی لفظیات، تلمیحات اور ترکیبات سے بھی خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شاعری کی کیفیت دو آتشہ ہوگئی ہے۔ اپنی بے پناہ تخلیقی قوت اور لسانی ندرت کے باجود معاصر شعری منظر نامے میں برقی کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہے یقیناً یہ ایک طرح سے ادبی بددیانتی ہے کسی بھی جینوئن فنکار کو اس طرح نظر انداز کرنا صحت مند تنقیدی روایت نہیں ہے۔اس لیے ہمارے ناقدین کا فرض بنتاہے کہ برقی ؔکو تنقیدی حوالوں میں ضرورشامل کریں کیونکہ برقیؔ کا جہانِ شعر نہ صرف ہمیں بہت سارے شیڈ سے روشناس کراتا ہے بلکہ اردو اور فارسی زبان کی خوبصورت آمیزش سے ہمارے مشامِ جاں کو معطر بھی کرتا ہے۔ اور زبان کے نئے ذائقے سے ہمیں لطف اندوزبھی کرتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...