کچھ روز قبل درِ دل پر دستک ہوئی دروازہ کھولا تو سامنے ایک کتاب سراپا محبت بنی کھڑی تھی!
کہتے ہیں کہ سچا شاعر ذات اور کائنات سے کبھی بے خبر نہیں رہتا اس کے اندر تخیلات کا سمندر موجزن رہتا ہے جس کی تہوں سے وہ شعروں اور نظموں کی صورت گوھر نایاب نکال کر گاہے گاہے دنیا کو حیران کرتا رہتاہے یہ سچ ہے کہ شاعری خونِ جگر مانگتی ہے اور فنِ شاعری کے طلسم کدے میں بہت کم شعراء ہی ٹہر پاتے ہیں ایسے شعراٗ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں جنکے اشعار پڑھ کر بے اختیار جی پکار اٹھتا ہے کہ واہ صاحب واہ۔۔۔کمال است ۔۔شعر ملاحظہ کیجئے
تری محفل سے اٹھ آنے پہ محفل
بڑی مغموم ہوتی جا رہی ہے
شاعری کا آسمان ستاروں سے بھرا ہوا ہے ایسے میں ایک نیا ستارہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے ٹمٹما نے لگا تونگاہیں خود بخود اس جانب اٹھ گئیں ’’اگر تم لوٹنا چاہو۔۔‘‘ ستارے سے صدا آئی اور ساری رُت ہی بدل گئی ہوا نے اوس کے قطروں کو چوم کر غزلوں کی پنکھڑیوں پر سجایا بادِ صبا نظموں کی بانہوں میں جھول کر گنگنانے لگی
کبھی یہ سوچا ہے تم نے جانم
کہ کتنی روحوں کی آس ہو تم
ہے کون جیتا تمھارے دم سے
ہو کتنے زخموں پہ مثلِ مرہم
۔۔۔۔۔
مجھے یوں بے نوا مت چھوڑ ساتھی تھا کبھی تیرا
میں سمجھا تھا کہ تُو اتنی وفا تو کر ہی جائے گا
اسے تُو جانتا ہے دیکھ کر تجھ کو جیتا ہے
سو دیکھے گا تجھے دکھ میں تو شاید مر ہی جائے گا
محترم جاوید انور صاحب نے گلستانِ سخن کو نئے موسموں کی بشارت دی ہے گویا کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی۔۔۔۔۔جاوید صاحب آج کل پاکستان ریلویز میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر/سینیئر جنرل منیجر ہیں انھیں بہت سے لوگ بطورِ افسانہ نگار جانتے ہیں اور ادبی دنیا میں انکے فن کا سکہ، رائج الوقت ہے اردو ادب کے زرخیز کھیتوں اور کھلیانوں سے خوب واقف ہیں اور انہی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے وہ شعر کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انکی غزلوں اور نظموں میں دلکشی اور جاذبیت جھلکتی ہے مخمور لب و لہجہ جمالیاتی حس کو چھو کر شعروں میں شگفتگی کا احساس دلاتا ہے جیسے خوشبو نغمہ سرا ہو:
کسے اب کون کہتا ہے
کہ دیکھو چاند نکلا ہے
جواباً کون کہتا ہے
کہ اس میں داغ بھی تو ہے
۔۔۔۔۔۔
تُو نے گرچہ نہیں کہا کچھ بھی
پھر بھی باقی نہیں بچا کچھ بھی
۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے وعدے پہ پورے اترے ،تُو کیسے رستے سے لوٹ آیا
حیا ہی رکھی وفا نبھائی نہ ترس کھایا نہ خوف کھایا
ہمیں پہ وارد تھیں ساری قسمیں ہمیں پہ لاگو تھے عہد سارے
تمھیں تو کچھ یاد ہی نہیں تھا جہاں سے چاہا پلٹ دکھایا
کتاب میں عہدِ شباب سے عہدِ پیری تک کی تمام وارداتیں قلم بند ہیں سارا کلام باطنی کرب و اضطراب کا آئینہ دار ہے شاعر پیش لفظ میں اس بارے کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’زیر نظر کتاب میں شاعری میں نے کی نہیں بلکہ مجھ سے مختلف اوقات میں سرزد ہوئی ہے۔سو جیسی ہے آپ احباب کی نذر ہے‘‘
جہاں بہت سی نظمیں اور اشعار اعلٰی ادبی معیار کو چھوتی دکھائی دیتی ہیں وہیں کچھ ایسی نظمیں بھی ہیں جو شاعر کی نوجوان معصوم جذبات کا اظہاریہ ہیں جو کسی زمانے میں شاید رقعے یا خط میں کانپتے ہاتھوں سے لکھی ہوں جب تمھیں دکھ ہوتا ہے
تو مجھے بھی دکھ ہوتا ہے
لیکن دکھی رہنے کا فیصلہ
تمھارا ہی تو تھا
اور تمھارا فیصلہ
ہمارا مقدر ٹہرا
شاعری جہاں گل و بلبل کی بات کرتی ہے وہاں کچھ عصری مسائل کا بھی احاطہ کرتی دکھائی دیتی ہے ترقی یافتہ چین کے دورے سے واپس لوٹتے ہوئے اپنے ترقی پذیر مُلک کو دیکھ کر ’اپنے نام‘ ایک نظم لکھی اور یہ نظم کیا ہے بس دل کا آبلہ سا ہے
منزل تو تھی آفاقی، پاتال میں جا بیٹھے
کس سمت کوجانا تھا ، کس سمت میں آ بیٹھے
دنیا کو اگر دیکھیں، اک شرم سی آتی ہے
کیا لوگ تھے ہم یارو، کیا خود کو بنا بیٹھے
سوال،کیوں، بزمِ فہمائش، خدا کے لیئے یہ تمام نظمیں بہت سے سوالات اٹھاتیں اور سوچ کو چارہ ڈالتی ہیں
مار ڈالو مجھے اس جرم میں کہ سوچتا ہوں
بحث و تمحیص کرو،سوچ مٹا کر مارو
جاوید صاحب کی شاعری کے بارے میں اسلم کولسری صاحب اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
’جناب جاوید انور صاحب شاعری کا شوق تو رکھتے ہیں مگر پورے احترام کیساتھ۔اوائل عمر میں شعر کہے، مگر یوں چھپائے جیسے کسی شریف گھرانے کا لڑکا محبوبہ کے خط کو چھپائے پھرتا ہے۔انہوں نے شعر کہے اور خوب کہے اور ناممکن ہے کہ وہ شعر کی صحت اور تاثیر سے بے خبر ہوں وہ اپنے شعر کے اوصاف سے بھی آگاہ تھے مگر بعض دفعہ احترام کا جذبہ ، جذبات کے طوفان پر غالب آجاتا ہے آدمی جان سے پیاری ہستی کے لیئے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے محروم رہتا ہے جاوید انور صاحب نے بھی اپنی شاعری کیساتھ کچھ اسی قسم کا سولک روا رکھا اور احباب انکی شاعری سے بے خبر رہے‘
غزل معدوم ہوتی جا رہی ہے
فضا مسموم ہوتی جا رہی ہے
کتاب میں چار پنجابی کی نظمیں ہیں چونکہ شاعر کی ماں بولی پنجابی ہے اس لیئے اس میں چنداں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ماں بولی انسان کے لہو میں گردش کرتی ہے
تیرے حسن دے سدا دریا وگن
ساڈی پیاس دا مندڑا حال تاں ویکھ
باسٹھ غزلیات سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کسی غزل میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال نہیں کیا(اب ایسا کیوں ہے اسکا جواب شاعر خود ہی دے سکتا ہے) لیکن اس سے قطع نظر غزلیات کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاوید صاحب کے ہاں کلاسیکی رکھ رکھاؤ بدرجہ اتم موجود ہے دلی جذبات اور محسوسات کو اشعار میں خوش آہنگی سے ڈھالا گیا ہے جو بے حد خوبصورت اور متاثر کن ہے۔ ادب کی تمام اصناف میں زندگی سانس لیتی ہے اور شاعری میں زندگی کے جتنے رنگ سما سکتے ہیں شاید ہی کسی اور صنفِ ادب میں اتنی وسعت ہو جونہی قاری ’اگر تم لوٹنا چاہو‘ کا دروازہ وا کرتا ہے گہرے ، ہلکے، پھیکے، شوخ رنگوں کی بہار نگاہوں کے سامنے ناچ اٹھتی ہے
اظہار
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کون ہے اس شعر کے پیچھے
اگر کہہ دوں تو مشکل ہے نہ کہہ پاؤں تو مشکل تر
وہ میری بے زبانی کو نہ مرضی کی زباں دے دیں
یہی خدشہ مرا اظہار بن جائے گا بالآخر
جاوید انور صاحب کی مذکورہ کتاب کو جناب عطاء الحق قاسمی، اسلم کولسری صاحب اور خالد شریف صاحب کی تائید حاصل ہے ان تینوں معروف شخصیات کے تبصرے کتاب کی زینت ہیں کتاب کا سرورق دیدہ زیب اور اور رومانوی ہے
کتاب کو دو افراد کے نام منسوب کیا گیا ہے
’’عفت کے نام
جو میری زندگی میں نہ آتیں تو میری زندگی اتنی اچھی کبھی نہ ہو پاتی‘‘
’’ڈاکٹر صاحب کے نام‘‘
یہ کتاب محبت کرنے والوں ،محبت میں زخم کھانے والوں کے دل کی آواز ہے اس میں ہجرکا درد،وصل کی آرزو، تنہائی کا کرب، انتظار کے لمحات، یادوں کا میلہ، آنسوؤں کا نمک، پچھتاوؤں کی آہیں کیا کچھ نہیں ہے۔۔۔صفحہ در صفحہ پیار کا موسم اور یار کا غم ہم آغوش ہیں ۔۔۔کہیں نظموں کے آنگن میں بارش کی آواز،کہیں مصرعوں کے رُخ پہ دھوپ کا نکھار،غزلوں کے لبوں پہ بہار کا بوسہ،استعاروں کے،پہلو میں خزاں کی فسردگی،خیالوں کے بستر پہ راتوں کی بیقراری،جذبات کی چھت پر چاندسے گفتگو کرتا شاعر قاری کی انگلی تھام کر ورق در ورق بے منزل آوارہ چلتا چلا جاتا ہے اور ہوش ہی نہیں رہتا کہ کب کتاب ختم ہوئی اور کب شاعر دھند میں کھو گیا ۔۔بس ایک صدا کی بازگشت فضا میں
برگِ آوارہ کی مانند اڑتی پھرتی ہے
اگر میں بوجھ بن جاؤں
اگر تم لوٹنا چاہو
اشارے سے بتا دینا
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا
۔۔۔۔۔
یہ میں نے ہی کہا تھا
اور گھڑی وہ آن پہنچی ہے
مگر اب یہ کھلا ہے
لوٹنا آسان نہیں اتنا
اگرچہ لوٹنا تو ہے
مگر یہ جان لیوا ہے
اگرچہ بھولنا ہوگا
مگر یہ روح فرسا ہے
ہر ایک شاعر کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ جب اسکا فن کتابی صورت میں ڈھل کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے تو اسکے چاہنے والے اسے اپنی روح کی آواز گردانتے ہوئے سینے سے لگا کر رکھیں میری رائے میں جاوید انور صاحب نے اس کتاب میں اپنا دل نکال کے رکھ چھوڑا ہے میرا دعوٰی ہے کہ جسے اس کتاب نے چھو لیا وہ دوبارہ محبت میں مبتلا ہونا چاہے گا!
میں دل کی گہرائیوں سے جناب جاوید انور صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ شاعری کا حسین سفر کبھی ختم نہ ہو آمین
“