ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اس نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اسے پیغام تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جب مریض کے حلق نے دوا آگے گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ قاصد کو تلقین کی گئی تھی کہ اس نے راستے میں کہیں نہیں رکنا بس چلتے جانا ہے۔ ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بستی کی طرف اور اگر رکنا بھی پڑے تو صرف روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹ پینے کیلئے رکے اور ایم کیو ایم کو جا کر پیغام دے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور اگر کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو!
ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ قاصد چاشت کے وقت روانہ ہو گیا تھا پھر دوپہر ہو گئی اور مریض کی حالت زیادہ بگڑنے لگی۔ سب کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن جنوب سے کوئی نہ آیا‘ قاصد نہ کبوترنہ رقعہ! سہ پہر کو مریض کے حلق سے ڈرائونی آوازیں آنے لگ گئیں‘ جھاڑ پھونک کرنے والے آ گئے‘ عورتوں نے سروں پر پٹیاں باندھ لیں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے لگ گئیں۔ مردوں نے شملوں والی پگڑیاں اتار کر پھینک دیں اور چارپائیاں اور کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے جمع کرنے گلی گلی گھر گھر پھیل گئے۔ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا تھا‘ لیکن اب بھی امید تھی کہ کراچی والے پنجاب کو اس حال میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ امید اب بھی زندہ ہے‘ زندگی اور موت کے پیدا کرنے والے سے کچھ بعید نہیں کہ مردہ رگوں میں جان پڑ جائے۔ اس لئے ایم کیو ایم والے جب یہ سطور پڑھیں تو اگر بیٹھے ہوئے ہوں تو اٹھ کھڑے ہوں اور اگر کھڑے ہوں تو چل پڑیں۔
ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ جب پٹنہ کے مولوی عنایت علی اور ان کے بھائی مولوی ولایت علی نے تحریک مجاہدین کی خاطر اپنی حویلیوں پر ہل چلوانا منظور کر لیا اور سید احمد شہید کی خاطر جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں اور سرحد اور پھر بالاکوٹ کا رخ کیا تو اہل پنجاب ان کے ہم رکاب تھے۔
مولانا غلام رسول مہر نے ’’تحریک مجاہدین‘‘ میں بالاکوٹ کے شہیدوں کے جو نام تحریر کئے ہیں ان میں میانوالی کے اعوانوں اور پنجاب کے دوسرے علاقوں سے کئی نام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اعظم گڑھ کے سید سلیمان ندوی افغانستان کے نظام تعلیم کو جانچنے گئے تو سیالکوٹ کے علامہ اقبال ان کے ساتھ تھے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کو شاہ جہاں نے دہلی ہی میں تو سونے میں تلوایا تھا۔
میر تقی میر نے بہت پہلے ایم کیو ایم کو رقت بھرے لہجے میں بتایا تھا کہ …؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
عظیم آباد کے مرزا بیدل اور شہر سبز سے آئے ہوئے مرزا اسد اللہ غالب نے نائن زیرو کو سندیسوں پر سندیسے بھیجے 1857 میںدہلی میں اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو فرنگیوں نے پھانسی دی تو اس کا بیٹا مولانا محمد حسین آزاد‘ برسوں بعد‘ لاہور ہی میں علم کے موتی لٹانے آیا۔
حالت یہ تھی کہ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف جہاں وہ پروفیسر تھے روانہ ہوتے تو راستے میں ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے شاگرد کتابیں کھولے‘ چلتے چلتے ‘ سبق لیتے جاتے۔
پٹنہ میں پیدا ہونیوالے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے علی گڑھ میں تقریر کی تو پہلا فقرہ یوں آغاز کیا ’’برس دن ہوئے-‘‘ اور پھر پوری تقریر اسی طرح اردوئے معلی میں کی۔ میر تقی میر اور بیدل‘ پٹنہ کے مولوی برادران‘ سلیمان ندوی اور محمد حسین آزاد‘ شبلی نعمانی‘ اور حیدرآباد دکن کے بے مثال خطیب بہادر یار جنگ‘ سب ایم کیو ایم کو ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اگر بیٹھے ہو تو خدا کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جائو اور اٹھے ہوئے ہو تو ایک لخطہ تاخیر کئے بغیر چل پڑو!
ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ پنجاب کا متوسط طبقہ زبان فرنگ میں جسے مڈل کلاس کہتے ہیں‘ خون کے آنسو رو رہا ہے وہ ایک طرف پشتینی جاگیرداروں کے تنے ہوئے نیزوں کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف برادری پر مبنی اندھا نظام اس کے برہنہ سر پر کوڑے برسا رہا ہے۔
پنجاب کے پڑھے لکھے لوگ جنہیں زبان فرنگ میں INTELLIGENTIA
کہا جاتا ہے‘ ان دو مسلم لیگوں سے عاجز آ چکے ہیں جو ان پر باری باری حکومت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو برملا کہتی ہیں کہ کل تمہاری باری تھی تو آج ہماری باری ہے! ایک مسلم لیگ قبل از اسلام کی جاہلیت کو سینے پر یوں سجائے ہے کہ اس نے ناظموں کی اکثریت جاٹ برادری سے نامزد کی۔ پرویز مشرف جیسے آمر کی حمایت ایم کیو ایم نے بھی کی تھی لیکن ایم کیو ایم نے کم از کم بیس بار یہ نہیں کہا کہ ہم وردی والے کو دس بار یا بارہ بار ’’منتخب‘‘ کرائیں گے۔ رہی دوسری مسلم لیگ تو وہ ایک نسلی گروہ سے باہر جانے کو تیار ہی نہیں۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ جنرل مشرف نے شب خون مارا تھا تو کسی آنکھ نے آنسو نہیں بہایا تھا کیوں؟ اس لئے کہ اخبارات کے صفحات دہائی دے چکے تھے کہ اسلام آباد اور لاہور میں کلیدی مناصب پر فائز تین یا چار درجن نوکر شاہی کے فرعون صفت نمائندے ایک خاص نسلی گروہ اور لاہور کی ایک خاص آبادی سے تھے!اہل پنجاب‘ لاہور سے عاجز ہیں اور لاہور‘ محلات سے عاجز آ چکاہے‘ محلات‘ محلات ہر طرف بکھرے ہوئے محلات‘ بابل کے معلق باغات لاہور کے محلات کے سامنے غلاموں کے جھونپڑے لگتے ہیں! پورے پنجاب کا بجٹ لاہور پر صرف ہو رہا ہے اور میانوالی سے اٹک تک اور بہاولپور سے خانیوال تک ‘ لوگ‘ دانتوں میں انگلیاں دبائے زندہ دلان لاہور سے پوچھتے ہیں" الیس من کم رجل رشید؟ "کیا تم میں کوئی انصاف پسند نہیں جو تکبر کی اس لہر کے آگے کھڑا ہو سکے؟
اٹک کے ایک گائوں نے خادم پنجاب کی خدمت میں فریاد کی کہ 2005ء میں ضلعی حکومت کی منظور شدہ ڈسپنسری ابھی تک بننی شروع بھی نہیں ہوئی اور یہ کہ ازراہ کرم وہ اہل دہ کو ان کا حق دلوائیں (نوائے وقت پندرہ ستمبر 2009ئ) لیکن خادم پنجاب ‘ پنجاب کے دور افتادہ دیہات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ان کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹائون پر آ کر ختم ہو جاتا ہے
جگر مراد آبادی نے انہی کیلئے تو کہا تھا…ع
میری داستاں غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے
ترے سنگ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک
رہے عمران خان تو جو شخص چار سو کنال کا گھر تعمیر کرواتا ہے اور اس میں رہتا ہے‘ اس کا
MiND SET
کیسا ہوگا! وہ تو قبائلی خواتین کو تخت پر بٹھانے والے جرگہ سسٹم کو پورے پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے‘ وہ اسلام کا سبق ان اسلامی رہنمائوں لے رہا ہے جنہیں اسمبلیوں میں بھیجنے کیلئے اپنی صاحبزادیوں اور اپنی بیگمات کے سوا اور کوئی خاتون نظر ہی نہیں آئی! تو کیا ایم کیو ایم پنجاب کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کو ان ’’مخلص‘‘ اور ’’عوامی‘‘ رہنمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے آپ کو کراچی حیدرآباد اور سکھر کے گلی کوچوں میں بند کر لے گی؟ تو کیا ایم کیو ایم نے ابھی تک آواز نہیں سنی کہ بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور کھڑے ہو تو چل پڑو…؟؟
ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اہل پنجاب کا جسم زخم زخم ہے‘ خون رس رہا ہے اور مرہم رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ان زخموں پر زہر چھڑک رہے ہیں‘ کوہ مری کے کسی ایک گائوں کو بھی سوئی گیس نہیں مہیا کی گئی لیکن وہاں جس علاقے میں خادم پنجاب کے فرزند ارجمند نے ’’مکان‘‘ بنوایا ہے‘ وہاں گیس کی پائپ لے جانے پر ستر کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں‘ ڈونگا گلی تک درختوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ انگوری ‘ نامبل مسیاری اور دوسری بستیاں‘ جہاں سے پائپ گزر رہی ہے‘ گیس سے محروم ہیں لیکن شاہی خاندان کو اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا‘ ضابطہ پسندی اور میرٹ کی حرمت کا یہ عالم ہے کہ ایک جرنیل کو جو پنجاب سے نہیں ہے‘ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے‘ یہ وہی پنجاب پبلک سروس کمیشن ہے جس کا شاید ہی کوئی رکن لاہور سے باہر کا ہے
ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اگر وہ پنجاب کی طرف بڑھ رہی ہے تو پنجاب کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی برادریوں کے جان لیوا پھندے سے اپنے آپکو بچائے‘ کھرب پتی کالم نگاروں سے با عزت فاصلہ رکھے ورنہ عزت سادات سے محروم ہو جائے گی! جو زرعی اصلاحات بھارت نے 1951ء میں نافذ کر دی تھیں‘ ان سے ملتی جلتی اصلاحات پنجاب میں نافذ کرنے کا نصب العین اپنے سامنے رکھے اور جلدی کرے جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں پر کاری ضرب لگانے کا حوصلہ لے کر آئے توپھر دیر نہ کرے۔بیٹھی ہے تو اُٹھ کھڑی ہواور کھڑی ہے تو چل پڑے
(پس تحریر۔ اٹک‘ کیمبل پور کے علاقے میں مریض کی خطرناک حالت کے بارے میں اطلاع ان الفاظ کے ساتھ بھیجی جاتی ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو
http://columns.izharulhaq.net/2009_11_01_archive.html
“