اگر عاصمہ جہانگیر کے دور میں اوشو زندہ ہوتا
اگر عاصمہ جہانگیر اوشو کے دور میں دفن ہوتی
اگر اوشو کا کوئی ترقی پسند چیلااس سے یہ کہتا
’’بھگوان!
آج عاصمہ جہانگیر کی تدفین تھی
بھگوان!
کرپا کریں اور بتائیں وہ کیا تھیں اور
اب وہ کہاں ہیں؟‘‘
تب برگد کے درخت جیسا درویش
کچھ دیر اپنی ساخاؤں کے ساتھ
سمٹ جاتا
ایک پل میں بہت دور نکل جاتا
اور پھر دھیرے دھیرے واپس آتا
اور اپنے ہونٹ کسی پھول کی طرح کھول کر
خوشبو بھرے لہجے میں
بہت ہولے سے کہتا
’’عاصمہ ایک خواب تھی
عاصمہ ایک خوشبو تھی
عاصمہ ایک خیال تھی
عاصمہ ایک جمال تھی
وہ جمال جو دل کے آئینے پر نہیں بکھرتا
وہ جمال جو دماغ کے تصوراتی اسکرین پر
بہت آہستہ اور بہت ہولے سے اترتا ہے
وہ جمال جو کنول کے پتے پر چاند کی کرن بن کر نہیں گرتا
وہ جمال جو سورج کی کرن بن کرنیند میں ڈوبی ہوئی
پلکوں پر پہلے ہولے سے
اور پھر زور سے
دستک دیتا ہے
جو کہتا ہے
’’جاگو‘‘
چاند اور سورج میں بہت فرق ہے
چاند کہتا ہے ’’سو جاؤ!
اب بہت دیر ہوگئی ہے‘‘
اور سورج کہتا ہے’’جاگ جاؤ!
اب بہت دیر ہوگئی ہے‘‘
عاصمہ ایک چاند نہیں
عاصمہ ایک سورج تھی
سلانے والا چاند نہیں
جگانے والا سورج
یہ بتانے والا سورج
کہ اب اٹھو!
اب صبح ہوگئی ہے!
وہ سورج جو آج
اس مٹی میں مدفون ہوگیا
مگر غم کرنا
پریشان مت ہونا
یہ مت سوچنا
یہ سورج ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا
یہ سورج اب بیج بن گیا ہے
یہ سورج اب پھر سے پھوٹے گا
اور اس کی شاخوں پر
بہت سارے سورج کے پھول
لہراتے نظر آئیں گے
عاصمہ منوں مٹی تلے سونے والی نہیں
فرشتوں کے آگے رونے والی نہیں
عاصمہ ہر باشعور باپ کے بانہوں میں
ایک سرکش بیٹی کی طرح مسکرائے گی
انصاف اور آزادی کا گیت گائے گی!
تم پوچھتے ہو
اب عاصمہ کہاں ہے؟
عاصمہ وہاں ہے
’’جہاں سرما کا سورج
پربتوں کے اوٹ سے
چھپ کر بلاتا ہے‘‘
جہاں ماں کی محبت
بیٹیوں کے سر پہ
تاروں کا چمکتا تاج رکھتی ہیں
جہاں ایک چھوٹی سی بچی
اپنے پاپا کے جوتوں کو
اپنے بہت ننھے سے
پیروں میں پہنتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
(نامکمل )
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔