کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ کی دنیا پرایک مغلیہ ’مِیم‘ (فکاہی خاکے) کا بہت چرچا رہا جس میں شہزادہ سلیم انارکلی کو خوابِ شیریں سے بیدار ہونے اور کچھ غیرمتعلقہ امورکی انجام دہی کی ترغیب دیتے نظرآئے ہم نےجب جب شہزادےاورانارکلی کی یہ تصویردیکھی یادداشت کےسیلولائیڈپردےپرایک ہی منظرپلٹ پلٹ آیا
ریاست ہائےمتحدہ اگوکی میں عباسیہ کےمیس کاٹی وی روم، ماڈل ٹاؤن کےقلب میں بھیگتی رات کاپچھلاپہر، تالومیں ابھی تک تازہ اپنےذائقےکی گواہی دیتامیس ویٹرطارق کی بِیٹ کی ہوئی کافی کاآخری گھونٹ، ٹوٹوں(سگریٹ کے)سےلبالب اٹی ایش ٹرےسےاُٹھتےدھوئیں کانقرئی ہالہ، ڈن ہِل کےانگلیوں کوچھوتےگُل کی دھیمی تپش،ایک جان لیوا آخری کش سےمہکتےہونٹ اوروی سی آرپرریوائنڈ پرچلتا کےآصف کی مغل اعظم کاگیت
دیکھیےساراماحول ایک غیرمتعلق تفصیل کی منظرنگاری کی نظر ہوگیا
فوکس ہم گانےپرکرنا چاہ رہےتھے مغل اعظم میں شہزادہ سلیم اور انارکلی پر پائیں باغ کی خلوت میں فلمایا گیا راگ داری کا رس لیے یہ نغمہ فلم میں تو تان سین گارہے ہیں مگراس گانےکےاصلی پلےبیک سنگر استادبڑے غلام علی خاں ہیں
یہاں مزے کی بات یہ ہے استاد فلم کے لیے نہیں گاتے تھے اب اگرآپ موسیقارنوشاد کو سنیں تو وہ بتائیں گے کہ کیسے ایک پچیس گنا معاوضےپر (جواستاد نے پروڈیوسر کو بھگانے کے لیے بتایا تھا) کے آصف صاحب نے بغیرکسی ہچکچاہٹ یا بھاؤ تاؤ جھٹ سے حامی بھرلی۔
نوشادصاحب آنکھوں میں ایک چمک لیے اس گانے کی ریکارڈنگ کا ذکرکرتےہیں کہ خان صاحب نےگاتےہوئےفرمائش کرکےویڈیوریکارڈنگ کالوُپ اپنے سامنےپردےپرچلوایا
صاحبِ ذوق سننےوالےپہچان لیں گےکہ مختلف جگہوں پرسین کی مناسبت سےتان، مُرکی اور کھنک الگ ہے
ہم ٹھہرے موسیقی کی نزاکتوں سے کورے، تانوں اور مُرکیوں کا مزاج کیا جانیں مگر صاحب اُگوکی کی اپنے ہی خمارمیں بھیگتی اُس رات مغل اعظم کا’پریم جوگن‘سنتےجہاں ساجن سےنین ملنےپرمن کی پیاس بجھنےکاذکر ہےاورشہزادےاورکنیزکوباہم ملاتا اورجداکرتامورکاپنکھ ہےاور استاد کی آواز میں لفظ پیاس کے موسیقانہ ہِجّےہوتےہیں بس وہیں کہیں راگنی سلگ اٹھتی ہے
تم اپنی زبان مرےمنہ میں رکھےجیسےپاتال سےمیری جان کھینچتے ہو صاحب اگوکی کی بہت سی راتیںاسوقت کےکیپٹن آج کےبریگیڈیئر دانیال(اصلی نام نہیں لکھاکہ کچھ پردہ داری مقصودہے)کی سنگت میں استادکےاس گانےکی گنجلک تانوں کی نذرہوگئیں مگردلِ مضطر کوقرارنہ آناتھانہ آیا
یہ بعد کاقصہ ہےکہ ہم بڑےغلام علی خاں کی ’توری ترچھی نجریاکےبان‘ کےاسیر ہوئے کپتان صاحب کی سنگت میں اگوکی کی راتوں نےکچھ اور دھنوں کے پہناوےمیں ابھی مزید نکھرناتھا
اے آر رحمان کےسُروں پرالکا کی ’تال سے تال ملا‘ کی للک، سُشمیتا سین کی آنکھوں سےجھانکتا الکا ہی کی آواز کا کنگن پہنے ’تم سے ملنے کے بعد دلبر‘ کا لوچ، ساتھ کے کمرے کی دیوارِگریہ کے سائے تلے ملکہ پکھراج کا ’بےزبانی زباں نہ ہوجائے‘کا الاپ، اورایک ہنستی کھیلتی شادوآبادجمی بساط پرٹُو ہارٹس، تھری نوٹرم کی بلندہوتی صداؤں کےپس منظرمیں کھنکتا میجرچشتی رحمتہ اللہ علیہ کا فیورٹ اپنی میڈم کا
کی دم دا بھروسہ یار
دم آوے نہ آوے
مگر یہ قصہ پھرکبھی، فی الوقت استاد بڑے غلام علی خاں کی اورپلٹتے ہیں جنکاذکر دل بھٹکےگا کاجمال(احمد بشیر)کرتا ہےکہ وہ ’آہوُ‘ کی فرمائش پرگاناسنوانےاسےباتھ آئی لینڈ لے گیاجہاں استادایک بنگلےکے’سرونٹ کوارٹر‘میں رہتےتھے۔ استاد کاگھرآئے مہمانوں کادسترخوان پراستقبال اورپھر جمال اورآہو کی نظرتورے نیناکجربِن کارےتوایک اورہی دنیا کاقصہ ہے منظر بدلتاہے، وزیروں اورمشیروں کا ایک گروہ ہے جو ایک ثقافتی طائفے کی شکل میں ریل پرکراچی سے موہنجودڑو کا سفرکررہے ہیں
حیدرآباد میں جہاں وزیراعلیٰ کی طرف سے کھانے کا انتظام تھا وہاں طعام کے بعد ریسٹ ہاؤس کے باغیچے میں گانے کی محفل میں استاد بڑے غلام علی مدعوہیں جمال سےروایت ہے استاد کےراگ سارنگ کےالاپ کےدوران ممبران اسمبلی ایک ایک کرکےغائب ہوتے گئےجو بعد میں ایک گروپ کی شکل میں دوبارہ نمودارہوئے تو عقدہ کھلا کہ ریسٹ ہاؤس کے اندر حیدرآبادکی طوائفیں بلائی گئی تھیں
پارلیمنٹ کےممبروں کےذوق کا معیاردلداری کابھونڈاپن لیے ایک طوائفانہ مجراتھا بہت بعد میں جب بڑےغلام علی خاں ہندوستان چلےگئے تو احمد بشیرنے ٹی وی پر دیکھاکہ موسیقی کی ایک محفل میں استاد جب اسٹیج پر آئے تو ان کا تانپورہ اٹھائے مُرارجی ڈیسائی ان کو چھوڑنےآئے
مُرارجی ڈیسائی تب بمبئی کے وزیراعلیٰ تھے اور بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم بنے
اس حساب سے دیکھیں تو ہمیں ان اراکینِ اسمبلی کا مشکورہونا چاہئیےجنہوں نے حیدرآباد میں استاد کے فن پر رنڈی بازی اورمجرے کا انتخاب کیا
بڑے غلام علی خاں اگر بھارت نہ جاتے تو مغل اعظم کے اس لازوال گانے کو یہ کھنکتے بانکپن کی آواز کہاں سےملتی
شہزادہ سلیم اور انارکلی کیا راز و نیاز کرتے ساجن سنگ نین ملنے پر من کی پیاس کے الاپ کا کیا ہوتا اورصاحب اگوکی کی راتیں کسقدرپھیکی ہوتیں …
انارکلی اٹھو حیدرآباد آگیا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...