سوار محمد حسین شہید آف ڈھوک پیر بخش
ساتواں جانباز
ــــ
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ تھا۔ فوج سےریٹائرمنٹ لےلینے کےفوری بعد والا ہنی مون چل رہا تھا اور میں قبل از ریٹائرمنٹ چُھٹی کےدنوں کی گنتی گریسی لائن چکلالہ کے آفیسرز میس میں پوری کررہاتھا۔
ایک ریٹائرمنٹ کی کسلمندی کو روزوں کی سُستی نے دو آتشہ کردیا تھا کہ ایک دوپہر لاڈلا بن بلایا مہمان بن آدھمکا۔ نیندیں پوری کر کر کے ہم ویسے ہی تھک چکے تھے اور وہی روزوں کا ٹریڈ مارک مسئلہ درپیش تھا کہ ظہر سے افطار تک پہاڑ جیسا دن کاٹنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔
لاڈلے نے گوجر خان تک کی ڈرائیو کا مشورہ دیا اور میرے دل کے نہاں خانے میں اچانک ایک پرانا بہت محبوب نام گونجا، سوار محمد حسین شہید نشانِ حیدر۔ میں نے ابھی تک شہید کا مدفن نہیں دیکھا تھا بس سُن رکھا تھا کہ گوجر خان کے نواح کے کسی گاؤں میں ہے۔
توصاحبو رمضان کی اس مبارک دوپہر ہم گوجرخان کےمسافرہوئے اورلاڈلےنےایک تیسراہم سفرتجویزکیا۔ راولپنڈی سےنکلنےسےپہلےہم نےچکلالہ گیریژن کےٹرانسپورٹ ونگ میس سے ایک فلائٹ لیفٹیننٹ کو صرف اس بناپر اُٹھایاکہ لاڈلےکی معلومات کے مطابق اس کے فون کےکیمرےکارزلٹ ہم دونوں کے فون سےبہت بہترتھا۔
اور صاحب اُٹھایا ہم نے کچھ یوں بھی لکھا کہ واقعتاً ایسا ہی ہوا تھا۔ ہم نے کہا گوجر خان چلنا ہے فون ساتھ رکھ لو۔ آگے سے نہ کوئی سوال نہ کوئی تفصیل اور گاڑی میں ہم دو سے تین ہوگئے۔ لاڈلے کی وساطت سے میری یہ کبوم سے پہلی ملاقات اور ایک دلدار اور پائیدار یارانے کی ابتدا تھی۔
ایک اچانک بن جانے والے پروگرام کی عملی تفسیر میں راولپنڈی سے ایک سالخوردہ ہنڈا سٹی گوجر خان کو رواں دواں تھی اور ہمارے پاس کوئی تفصیل، راستے کا کوئی نشان تک نہ تھا کہ ہمارا سپاہی کہاں کس گاؤں کے کس قبرستان میں سپردِ خاک ہے۔
یہاں سے ہم واپس ماضی میں اپنے اگوکی کو پلٹتے ہیں۔
اگوکی کی کہانی کے پچھلے حصےمیں ہماراپڑاؤ بڑی منہاساں میں تھاجہاں کےسرکاری سکول کےایک کمرے میں بنےعارضی انفارمیشن روم میں جنگی تیاریوں کی صعوبتوں سےاکتائےجوانوں کی تفریح طبع کےلیےایک پروپرائٹر بیٹری کمانڈر میجرنقوی کی کاوشوں سے وی سی آر پر مولا جٹ دکھانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
ہم نے سوچ رکھا تھا کہ اگوکی کی کہانی کی اگلی قسط کو بڑی منہاساں میں چلی سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی مولا جٹ کے سِر صدقے اور پاس ہی بڑا پنڈ لوہٹیاں کے جماندرو برہاں دے سلطان کی نسبت سے فنونِ لطیفہ کی نزاکتوں کے نام کریں گے۔ مگر کچھ ایسا ہوا کہ دسمبر آن پہنچا اور اس کے ساتھ اکہتر میں لڑی پاک بھارت جنگ بھی۔ 10 دسمبر ٹوئنٹی لانسرز حیدری کے سوار محمد حسین کا یومِ شہادت ہے۔ ہم ظفروال ۔ شکرگڑھ کی انہی زمینوں میں ہوں جہاں محمد حسین دادِ شجاعت دیتا ہوا شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا اور اپنے سپاہی کو یاد نہ کریں ایسا کیسے ممکن ہے۔
کسی مردِ دانا کا قول ہے کہ خود جان دینے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی دوسرے کو لڑمرنے پر آمادہ کرنا اصل مہارت ہے۔ ایک معمولی سپاہی اور جرنیل میں یہی فرق ہے۔ اس قول اور اس بحث سے قطعِ نظر کہ کہنے والا مردِ دانا تھا بھی یا نہیں، اس میں کوئی کلام نہیں کہ آج کے محاذِ جنگ میں جہاں لوگ عبداللہ حسین کے لفظوں میں چوہے کی موت مررہے ہوتے ہیں (لوگ لاکھ لڑائی کو رومانوی رنگ دیں مگر تلخ حقیقت یہی ہے) اور ہر دوسرا شخص اپنے حصے کی گولی آنے تک کی ساعت میں زندہ ہے ایک غیر معمولی بہادری دکھانے کی استعداد و استطاعت تفویض کی گئی ذمہ داری کےساتھ ایک راست تناسب میں جڑی ہے۔ محاذ پر لڑتے ایک افسر کے مقابلے میں ایک سپاہی کے لیے دفاع یا حملے میں جان پرکھیلتے سمے کوئی کارہائے نمایاں انجام دینے کا سکوپ بہت محدودہے۔ ایسے میں اگر ایک لانس نائیک یاسپاہی بہادری کاسب سےبڑا اعزاز اپنے نام کروالیں تو مان لیجیے کہ وقت پڑنے پرانہوں نے مافوق العقل شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں۔ پاک فوج میں آج تک نشانِ حیدر کا اعزاز اپنے نام کروانے کا اعزاز صرف ایک لانس نائیک اور ایک سپاہی کو حاصل ہوا ہے۔ لانس نائیک محفوظ شہید کی کہانی ایک اور دن کہیں گے، آج کا قصہ سپاہی محمد حسین شہید نشانِ حیدر کے نام کرتے ہیں۔
بڑی منہاساں سے مشرق کی سمت ایک روڈ ڈھیلرہ سے گزر کر آگے چک امرو تک جاتی ہے۔ چک امرو جو نارووال ۔ شکرگڑھ کی متروک ریلوے لائن پر بارڈر کے بالکل نزدیک آخری ریلوے سٹیشن ہے۔
بڑی منہاساں کی اس سڑک پر ڈھیلرہ سے کچھ آگے ہرڑ خورد گاؤں میں ایک اونچی ٹیکری ہے۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں ہرڑ خورد کے مسافر ہیں تو اس ٹیکری پر ایک یادگار آپ کو بتاتی ہے کہ یہ سوار محمد حسین کی جائے شہادت ہے۔ 2017 میں بنی یہ یادگار 1999 میں یہاں نہیں تھی۔
___
مکمل ویڈیو
اپنے ایم ٹی حوالدار ظفر کی شاگردی میں ڈرائیونگ سیکھتے پاپا بیٹری کے جی پی او کی جیپ بہت دفعہ بڑی منہاساں سے شکرگڑھ کے روٹ پر ہرڑ خورد کی ٹیکری کے پاس سے گزری ہوگی مگر تب ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں ہمارے ایک محبوب نشانِ حیدر نے شہادت کا رتبہ پایا تھا۔
محمد حسین 20 لانسرز میں ڈرائیورٹریڈ کا سپاہی تھا (رسالے کی یونٹ میں سپاہی کو سوار کہتےہیں)۔ ٹینک ڈرائیوربھی نہیں بلکہ ڈاج گاڑی کا ڈرائیور۔ ڈاج یوں سمجھ لیجیے کہ جیپ اور ٹرک کے درمیان کی گاڑی ہے، بلکہ گاڑی ہونے کا وہم سا ہے۔ زمانۂ امن میں یونٹوں میں انتظامی کارروائیوں کے لیے مختص ایسی ہی گاڑی ایڈم ڈاج ہوتی ہے جسے اہلِ نظر و دانش انتظامی دھوکہ کہتے ہیں۔
توصاحبومحمدحسین ڈاج کاڈرائیورتھا جس کےذمےدشمن سے برسرِ پیکار یونٹ کےانتظامی علاقےتک ایمونیشن (گولہ بارود) کی ترسیل کاکام تھا، اگلےمورچوں تک اس کی رسائی نہ تھی۔ محمد حسین کےدل میں بھی ایک گرجتےبرستےمحاذ کی گرما گرمی میں اپناحصہ ڈالنےکی خواہش کروٹیں بدلتی تھی اور ایک بےاختیار کردینےوالےلمحےمیں اس نےاپنےبنیادی فرض کی ادائیگی سےبچ جانےوالےوقت میں رضاکارانہ طور پراپنی خدمات اگلےمورچوں کےلیےپیش کردی تھیں۔
قدرت نےہمارےہرلحظہ ہنستےمسکراتےچاق و چوبندسپاہی کوایک خاص کام کےلیےچُن لیاتھا۔
پینسٹھ کی جنگ کی تجدید کرتے اکہتر میں بھی ہندوستانی ون کور نے شکرگڑھ بلج کے پھوڑے نما ابھار پر حملہ کردیا تھا۔ رسالے کے ایک ایک بریگیڈ کی ہمراہی میں دو انفنٹری ڈویژنوں نے شمال اور مشرق کی سمتوں سے دھاوا بول دیا۔ شمال کی سمت سے وہ ظفروال پہنچنے کے خواہش مند تھے جبکہ مشرقی سمت سے انکا ہدف شکر گڑھ تھا۔ ظفروال ۔ شکرگڑھ سے شمال کی سمت پاکستانی چنگیز فورس دفاع سے آگے کی جنگ لڑ رہی تھی۔ محمد حسین کی پلٹن 20 لانسرز اسی چنگیز فورس کا حصہ تھی۔
شرمن اور ایم 36 بی ٹو ٹینکوں سے لیس اس پلٹن کے ذمہ ڈیگھ ندی کےاِس پار ظفروال کی طرف پیش قدمی کرتےدشمن کوچیلنج کرتےہوئے ہر ممکن تاخیر ان پر مسلط کرنی تھی۔ پاکستانی 13 پنجاب کو مدد فراہم کرتے 20 لانسرز کےکمانڈنگ افسرلیفٹیننٹ کرنل طفیل محمد نےبڑی منہاساں ، ڈھیلرہ اور ہرڑ کےمقام پر تین تاخیری پوزیشنیں قائم کی تھیں۔
ہندوستانی 39 ڈویژن 5/6 دسمبر کی رات شکرگڑھ پرقبضےکی نیت سےبین الاقوامی سرحدپارکرگیا۔
سوار محمد حسین میجر اکرم کے سکواڈرن میں تھا۔ اس سکواڈرن کے اوپر 7/8 دسمبر کی رات 1 ڈوگرہ رجمنٹ حملہ آور ہوئی مگر ایک سخت مزاحمت کے سامنے پسپا ہو گئی۔ ہندوستانی 1مہر بٹالین اسی حملے کی تجدید کرتی 9/10 دسمبر کی رات ہرڑ پر حملہ آور ہوگی اور وہ دن محمد حسین کا آخری دن ہوگا، مگر ابھی 20 لانسرز کا یہ سوار زندہ تھا اور دونوں حملوں کے درمیانی وقفے میں محمد حسین نے دلیری کے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے۔
گجگال کے محاذ نے اسے بارودی سرنگیں لگانے، دشمن کے حملوں کے دوران بے خطر فائر درست کروانے اور لڑاکا گشت میں جانے والے ہراول دستوں میں دیکھا۔
سکواڈرن کمانڈر نے محمد حسین کی فرض کی ادائیگی سے کہیں بڑھ کر ان دلیر کارروائیوں کے عوض اس کے لیے بہادری کے اعزاز کی سفارش کردی تھی۔ مگر ابھی محمد حسین کا دن آنا تھا۔ ابھی تو مسکراتے محمد حسین کی رگوں میں زندگی لہو بن کے دوڑتی تھی۔
دس دسمبر کادن طلوع ہوا تو ہرڑ گاؤں پرایک تازہ دم ہندوستانی حملےکی خبرلایا۔ اس حملےمیں 20 لانسرز کےقدم ہرڑ گاؤں سے اُکھڑگئے۔ رجمنٹ کااُٹھایادوسرانقصان زیادہ بھاری تھا۔
حملےکےدوران ہرڑخوردکی ٹیکری سےٹینکوں کوہدف دکھاتامحمد حسین مشین گن کابرسٹ سینےمیں پرو شہادت کےمرتبےپرفائزہوگیا محاذ پر ایک جوش میں بھاگتے دوڑتے نعرے بلند کرتے اس کے چہرے پر سجی ایک کھلی کھلی مسکراہٹ محمدحسین کی شناخت بن گئی تھی۔
ہمارےسپاہی کاجسدخاکی اٹھانےوالےنائب رسالدارعلی نواب اورلانس دفعدارعبدالرحمٰن نےدیکھا کہ شہادت کےبعد محمد حسین کی شناختی علامت اس کے ہونٹوں پر امر ہوگئی تھی۔
وطن کی حفاظت میں فرض کی ادائیگی سےکہیں بڑھ کر زندگی کو خطرےمیں ڈالنےاور انجام کارجان کی بازی لگانےپرسوارمحمدحسین کونشانِ حیدر کا اعزاز دیا گیا۔ آپ بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والے پاک فوج کے واحد سپاہی ہیں۔
چنگیز فورس میں شامل یونٹوں بشمول 20 لانسرز کی تاخیری لڑائی نے ہندوستانی سپاہ کا شکرگڑھ پہنچنے کا سپنا سپنا ہی رہنے دیا۔ 20 لانسرز کو اس جنگ میں بیٹل آنر شکرگڑھ 71 عطا ہوا اور اپنےسپوت محمد حسین کے نشانِ حیدر کی نسبت سے یونٹ اب خود کو حیدری بٹالین بلاتی ہے۔
شکرگڑھ کے سب سے نزدیک پہنچنےوالی ہندوستانی 4 گرینیڈیئرز کی ایک کمپنی تھی جس کی قیادت میجرچوہدری کررہےتھے۔ 13/14 مارچ کی رات ایک برق رفتاری میں گاؤں دین پور پر قبضہ کرلینےوالی اس کمپنی کارابطہ باقی سپاہ سےکٹ گیا۔ نرغےمیں آنےکے باوجود 14 دسمبر کےدن تو یہ کمپنی ثابت قدم رہی مگرجانی نقصان کےسبب اسی شام باقی بچ جانے والےہندوستانی سپاہی میجرچوہدری سمیت قیدی بنالیے گئے
پاکستانی 19 فرنٹیئر فورس ’پِفَر ٹائیگرز‘ نے شکر گڑھ کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس جانباز یونٹ نے 4 گرینیڈیئرز اور 3/9 گورکھا رائفلز کے حملوں کو پسپا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور جنگی قیدی قابو کیے۔
تصاویر بشکریہ
@leftofthepincer