اگنی آگ کا دیوتا اسے سوختہ قربانی (ہوم) کو اہم مقام حاصل ہے تھا اور آج بھی ایک طرح کا مثبت جادو قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد پراسرار اور طاقت ور الوہی قوتوں کو انسانی افادیت سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ بھینٹ کو مع خوشبو اوپر بھیجنے کے لیے آگ کے شعلوں سے موزوں اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اگنی دیوتا انسانی پیغام لے جانے کے کے لیے موزوں ترین پیغام بر خیال کیا جاتا تھا۔
اگنی دیوتا کو ساتواں آدیتا یعنی آدیتا کا ساتواں بیٹا کہا گیا ہے۔ جب کہ اوستامیں جی آتر (آتش) کو آٹھواں امیشا سپیسنتا بیان کہا گیا ہے۔ گو یہ بھی امشاسپینتا کی طرح غیر فانی تھا تھا۔ اگنی (آگ) کو حسب ذیل دعائے آشر میں مخاطب کیا گیا ہے۔ آپ پاک کرنے والی اور انسان کی محافظ اور دوست ہیں۔ جس کے ساتھ ہندی آریوں کو بھی وہی نسبت تھی جو ایرانیوں کو تھی اور اس کی آسر کے نام سے پرستش کرتے تھے۔
اے اگنی اس لکڑی کے کندے کو قبول کرلے جو میں تجھے پیش کرتا ہوں۔ خوب دبک جا اور اپنا پاک دھواں اٹھنے دے۔ بلند ترین آسمانوں کو اپنے ایال سے ہم دور کر آسمان سے پانی برسا اور اکل و شرب کی چیزیں بے انتہا عطا کر۔ اے دیوتاؤں میں سب سے کم عمر اور ان کا پیام بر تو انسان اور دیوتاؤں کے بیچ میں ہے اور دونوں کا بہی خواہ ہے۔
اگنی کی تعریف میں رگ وید میں سیکڑوں بھجن ہیں۔ مگر ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ایسا اشارہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر میور نے انہیں یک جا کیا کہ آگ کی دونوں خصوصیتوں (نفع و نقصان) کا مکمل تخیل پیدا ہوجائے گا اور اس نے انہیں کچھ یوں تریتب دیا ہے
لکڑی اس کی غذا ہے، اس کی ایال درخشان ہے۔ اس کا دھواں مینار یا پھریرے کی طرح آسمان تک چلا گیا ہے۔ گو اس کا سر ہے نہ پاؤں، مگر وہ جنگلوں اس طرح ڈورتا ہے جسیے کوئی سانڈ گایوں کے لیے ہو اور شیر کی طرح ڈکارتا ہے اور اس میں سے زور سے بہنے والے پانی کی گھرگھراہٹ ہے۔ وہ جنگلوں کو چھپا لیتا ہے اور اپنی زبان سے ان کو خاکستر دیتا ہے۔ اپنے چلتے ہوئے آہنی ڈاڑھوں سے اور تیز اور ہر چیز کو نگلنے والے جبڑوں کو وہ زمین کو اس طرح صاف کر دیتا ہے جس طرح حجام ڈاڑھی کو جب وہ اپنے گھوڑوں کو اپنی گاڑی میں لگالیتا ہے۔ جو ادھر ادھر ہوا سے بھاگتے ہیں اور جو خوبصورت تیز اور سرخ ہیں اور ہر ایک شکل اختیار کرسکتے ہیں تو وہ سانڈ کی طرح ڈکار تا ہے اور جنگلوں پر حملہ کرتا ہے۔ چڑیاں اس کے شور سے ڈر جاتی ہیں۔ جب اس کی گھانس کو جلانے والی چنگاریاں ادھر اوھر دوڑتی ہیں اور اس کے پہیے راستے پر سیاہ نشان ڈالتے ہیں۔ وہ تاریکی کا دفع کا کرنے والا ہے اور رات کی تاریکی میں دیکھائی دیتا ہے۔ زمین و آسمان، زمین، پانی، اور بناتات سب اس کی دوستی سے خوش ہیں۔
انسان ان ہستیوں اور چیزوں میں ممتاز ہے جن کو اگنی کی دوستی کا فخر حاصل ہے۔ آریائی ہندو اپنے دیوتاؤں کے ساتھ یگانگت کا برتاؤ کرتے تھے۔ ان غیر فانی ہستیوں میں ایک اگنی ہی جس کو وہ بھائی کہتے تھے۔ ایک اشلوک میں ہے ’یاپوش پتا، پرتھوی، ماتر ادھ رگ، آگنی بھراتر۔ (باپ آسمان، بے لاگ ماں زمین، اگنی بھائی ہم پر مہربانی ہو۔
ایک دوسرے اشلوک میں لکھا ہے ’انسان کا وہ دوست ہے۔ کسی انسان کو وہ حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، وہ ہر خاندان میں رہتا ہے۔ (دہم ۱۹۔۲) اگنی باپ ہے، بھائی، عزیز اور دوست ہے اور اس کا ایک نام ّاگنی دیش دتارا’ہے۔ یعنی اگنی آدمی کا جوہر ہے۔ اگنی کے سوائے کوئی دیوتا ایسا نہیں ہے جو انسان کے ساتھ اس کا مہمان اور دوامی رفیق بن کر رہے اور روز مرہ کے گھر کے کاموں میں اس کی مدد کرے اور روشنی دے، اس لیے وہ گھر ستون کا خاص محافظ ہے اور گھر کے چولھے کو اپنی موجودگی سے پاک بناتا ہے۔ اگنی اس لیے بھی عزیز ہے کہ یہ انسان اور دیوتاؤں کے بیچ میں پیام بر ہونے کی وجہ سے بھی ہے۔ مگر یہ اعلیٰ فریضہ چولھے کی آگ کا نہیں ہے بلکہ پرستش کی آگ کا ہے۔ جس کے شعلے گھر میں کام نہیں آتے ہیں بلکہ عبادت کے اوقات (اگنی ہوتر) میں یعنی شام، صبح اور دوپہر کو جلائی جاتی ہے اور پرستش کرنے والوں کی پیش کی ہوئی چیزوں یعنی گھی، دودھ، دہی اور پوریوں کو قبول کرتی ہے۔ گھی خصوصاً شعلوں پر مسلسل ڈالا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس سے آگ زور پکڑتی ہے۔ اس لیے ویدوں میں اگنی کو گھی کے بال والی اور گھی کی پیٹھ والی کہا گیا ہے۔ چونکہ بادشاہوں کی تاج پوشی سے لے کر معمولی آدمیوں کی روز مرہ عبادت تک کوئی رسم بغیر کسی قربانی کے نہیں ہوسکتی تھی اس لیے اس خیال کا پیدا ہونا ضروری تھا کہ اگنی نہ صرف رسوم اور قربانیوں سے واقف ہے بلکہ قربانیوں کی بانی وہی ہے۔ پہلے دیوتاؤں میں پھر انسانوں۔ اس لیے اس سے درخواست کی جاتی تھی کہ قربانیوں کو بغیر کسی غلطی کے کرے تاکہ دیوتا اسے قبول کریں۔ اس کے اعزازی خطابوں میں آسمانی پجاری (ہوتر) بھی ہے۔
’اے عقل مند دیوتا کو اگنی ان تمام غلطیوں کی اصطلاح کرتا ہے جو ہم جاہل لوگ تمہارے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ قربانیوں کے متعلق جن چیزوں کو ہم کمزور دماغ والے اے فانی لوگ بوجہ کم عقلی نہیں سمجھتے ان کو معزز پجاری اگنی جو ان چیزوں کو خوب جانتا ہے ٹھیک کرے گا اور دیوتاؤں کی ٹھیک وقت پر پرستش کرے گا’۔
آگ کو پیدا کرنا بھی کچھ کم اہم نہیں تھا آریا دو لکڑیوں (ارنیوں) کو رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے۔ اگنی اور وایو (ہوا) جیسے دیوتاؤں کی ماہیت ایسی ہے کہ انہیں استارے میں زیادہ بہتر بیان کیا جاتا ہے۔ انسانی خصائض کی مماثلت میں انہیں بھرپور طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگنی کو مکھن پکا، مکھن مکھ م سات زبانوں والا اور شعلوں کی سی جٹاؤں والے (رگ وید ۶،۵۴،ا) کے القاب سے یاد کیا جاتا رہا۔ اس کے دوسرے القابوں میں سونے کے دانتوں والا، ہزار آنکھوں والا اس کے صفانی نام ہیں۔
قربانی گاہ کی آگ کا روشن کرنا مذہبی رسوم میں سب سے مقدس تھا۔ یہ کام نہایت پیچیدہ ہوتا تھا۔ جس کے لیے محنت اور وقت کی صرف ہوتا تھا۔ کیوں کہ قربام گاپ کی آگ کسی اور آگ سے یا چنگاریوں کو پھونک کر نہیں جلائی جاتی تھی۔ بلکہ دو خاص شکل کی لکڑیوں کو ایک دوسرے پر رگڑ کر جلائی جاتی تھی۔ وہ اس فعل کو ’اگنی کی پیدائش’کہتے تھے اور اس میں ایک قسم کا رمز پیدا ہوگیا تھا۔ اسے ہمیشہ جوان رہنے والا یا دیوتاؤں میں سب سے چھوٹا (یَوشتھا) کہا جاتا تھا۔ اس کے ماں باپ لکڑی کے دو ٹکرے (آرانی) تھے۔ اوپر کی لکڑی جو پیپل کی ہوتی تھی تیزی سے نیچے کی لکڑی میں بنے ہوئے خول میں تیزی سے گھمائی جاتی تھی اور اس طرح شعلہ پیدا کیا جاتا تھا جو گھانس پھونس کو آگ پکڑ لیتی تھی۔ یہ سادہ سا فعل اور اس کا پراسر نتیجہ تقدس رکھتا تھا کہ معمولی لکڑیوں کا اس رسم میں استعمال ہوتا اس قدر بے جوڑ تھا کہ اس کا احساس ان خوش اعتقاد لوگوں کو بھی تھا۔ لیکن ان کے دلوں میں شک آتا نہ وہ مزاق اڑاتے۔ اگرچہ حسن اعتقاد نے ان کی دماغی صاحیتوں معطل نہیں کیا تھا مگر ان کے دلوں میں اس رسم کی حرمت تھی۔ ویدوں میں بہت سی جگہوں پر اس رسوم کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور پھر طفلانہ تعجب میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ایک دیوتا اس معمولی طریقے سے پیدا ہوتا ہے اور ’اگنی کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہمیشہ کی طرح اگنی کو رگڑ کر پیدا کیا۔ یہ دیوتا لکڑی کے دونوں ٹکروں میں موجود ہے۔ وہ لکڑیوں میں سے نوزائیدہ بچے کی طرح نکلتا ہے۔ ایک مقام پر تعجب ظاہر کیا گیا ہے کہ ایک زندہ ہستی خشک لکڑی میں سے کیسے نکلتی ہے اور ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ وہ ایسی ماں کی اولاد ہے جو اس کو دودھ نہیں پلا سکتی، مگر پھر بھی وہ شعلہ اس تیزی سے بڑھتا ہے کہ زمین سے آسمان پر پیام لے جاتا ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے ’اے زمین و آسمان یہ بیٹا (شعلہ) پیدا ہوتے ہی اپنے والدین (لکڑیوں) کو کھا جاتا ہے۔ مگر میں فانی انسان ہوں دیوتاؤں کے کاموں سمجھنے کی عقل مجھ میں نہیں ہے۔ اگنی عقلمند ہے اور وہ جانتا ہے’۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے اس دیوتا کی خصوصیات بالکل مادی تھیں اور اس میں انسانی خصائص پیدا کرنے کی کوشش نہ کی گئی تھی۔ بلکہ اس سے مراد صرف عنصر آتش سے تھی۔ بعض مقامات پر اگنی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اندھیرے کے بھوتوں کو اپنے ڈنڈے سے منتشر کر دے اور کہیں لکھا ہے کہ وہ دنیا کو ہزار آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ مگر ان مقصود یہ نہیں ہے کہ اس کی مادی خصوصیات رفع کردی جائیں۔ کیوں کہ حرارت اور روشنی کا ماخذ ہونے کی وجہ اندھیرے کو دفع کرنا وغیرہ اس کی خصوصیات میں سے ہیں۔ مگر حرارت اور روشنی صرف زمین سے مخصوص نہیں ہے۔ قدیم آریا ذہین اور باریک بین تھے۔ اس لیے انہوں نے آگ و بجلی کے تعلق کو محسوس کرلیا ہوگا۔ سوریہ (سورج) کی چمک دمک کو دیکھ کر انہوں نے ضرور معلوم کرلیا ہوگا کہ جس آگ سے وہ اپنے گھروں اور پوجا میں کام لیتے ہیں وہ زمین پر اسی آفتاب کا مظہر ہے اور دونوں کا جوہر ایک ہے۔ گو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی خیال اس مختصر فقرے میں ہے ’اگنی صبح کو سوریہ رات کو اگنی ہے’اکثر مقامات میں بیان کیا گیا ہے کہ اگنی کے دو یا تین مساکن ہیں۔ یعنی زمین پر وہ آگ، آسمان پر سورج اور کرہ زمہریر میں بجلی۔ اس خیال کے پیدا ہونے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ تینوں ایک ہی ہیں دشوار نہیں۔ زمین پر تو اگنی دیوتا کی پیدائش دو خشک لکڑیوں سے ہوتی تھی۔ مگر بہ حثیت سورج یا بجلی کے اس کا زمزیہ اور نام ’آپم نپاٹ’یعنی پانیوں کا بیٹا جو آسمانی بادلوں کے ’سمندر’میں چھپے رہنے کے بعد چمک نکلتی ہے اور اس لیے پانیوں کا بیٹا کہا جاتا ہے۔ یہ افسانہ ایک دوسرے طریقہ سے بھی بیان کیا جاتا ہے۔ جس میں اگنی کو ’سات ماؤں ’یا بہت سی ماؤں کا بیٹا کہا گیا ہے۔ اس صورت میں بادلوں (آپس) کو فرداً فرداً اس کی ماں قرار دیا گیا ہے۔
ایرانیوں کی طرح ہندی آریاؤں کا کا خیال تھا کہ آگ نہ صرف پانی میں بلکہ نباتات میں بھی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک دوسرے سے پیدا ہوتی ہیں۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ چونکہ آگ لکڑیوں سے نکلتی ہے اور لکڑیاں نباتات ہیں اس لیے آگ نباتات میں موجود ہے۔ اس لیے ان کی نمو ہوتی ہے اور وہی ان کی زندگی کا باعث ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نباتات میں آگ کیسے آئی ہے؟ جس کا جواب غالباً آریا یہ دیتے ہیں کہ آگ آسمان سے بارش کے ساتھ آتی ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے۔ بارش میں آگ نہ صرف زمین پر آتی ہے بلکہ اس میں گھس جاتی ہے اور پھر نباتات کو زندگی بخشتی ہے۔ رگ وید میں کئی مقامات پر یہ خیال نہایت صاف طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کی (آگ کی) سڑک وہ طوفان ہے جو خشک میدانوں کو تر و تازہ کرتا ہے۔ وہ زمین پر صاف پانی کے ساتھ آتی ہے۔ پرانی لکڑیوں کو کھاجاتی ہے اور نئے پودوں میں گھس جاتی ہے۔ (دہم ۵۹۔۰۱) جب آگ اعلیٰ باپ (دیاؤس یعنی آسمان) کے پاس لائی جاتی ہے تو وہ پودوں میں گھس کر پھر پیدا ہوتی ہے اور ہمشیہ جوان رہتی ہے ’۔
جن ذرائع سے اگنی دیوتا آسمان سے زمین پر آیا ان میں سے یہ ایک تھا۔ مگر معلوم ہوتا ہے اگنی کا ظہور نہایت پیچیدہ طریقے سے ہوا اور اس کا یہی عمل برابر جاری ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ اگنی کا ورو راست طریقہ سے انسانوں پر کیوں ہوا۔ کیوں کہ آریاؤں کا خیال تھا کہ اگنی کا اصل وطن زمین پر نہیں تھا کہا جاتا ہے اگنی پہلے آسمان پر پیدا ہوا۔ دوسری مرتبہ اس نے زمین پر جنم لیا اور اس کا اس کا تیسرا جنم بادلوں میں ہے اور وہ غیر فانی ہے۔ (دہم ۵۴۔۱) اس مسلے پر آریاؤں میں بہت سی روایات اور افسانے تھے اور عقائد اور تخیلات بھی۔ قدیم رشی افسانوں کو دہراتے نہیں تھے بلکہ اشارہ کردیتے تھے۔کیوں کہ سننے والے ان سے واقف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگنی کوئی فوق الانسانی قوت کسی دور دراز مقام سے لائی تھی
آریاؤں کے ذہنوں میں یہ خیال تھا کہ اگنی پانی اور نباتات میں چھپا ہوا تھا اور اسے دریافت کرنے والے کا نام والا ماترشون تھا۔ مگر یہ کون تھا جو اگنی کو آسمانوں سے لایا تھا اور اس نے بطور تحفہ بھرگو جو ایک پراسرار قوم تھی کو دیا۔ انہوں نے اسے کچھ عرصہ جنگلوں میں چھپا کر رکھا پھر اسے انسان کے حوالے کیا۔ یہ انسان غالباْ منو تھا جو نوع انسان کا کا مورث تھا۔ اس افسانے کے مطابق غالباًً بھر نام کے پجاریوں کے خاندان کا دعوی تھا غالباً ماترشون آسمانی بجلی ہے اور اگنی اس کو بتایا جاتا ہے جب کہ وہ آسمان پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر مقامات پر اگنی کو بھی اسی نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر بتایا گیا ہے کہ اگنی بغیر ماترشون کی مدد کے مل گیا تھا۔ جس سے ابہام ہوتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ بھرگو قوم نے اس ذات مخفی کا تعاقب کیا جیسے کوئی بھاگے ہوئے مویشیوں کے پیچھے ڈورتا ہے اور اس پانی میں پکڑ کر آدمیوں کے گھروں میں رکھ دیا۔ لیکن لسانیات کے مطابق کلمہ بھرگو کا تعلق ایسے الفاظ سے ہے جس کے معنی شعلہ یا دہکنے کے ہیں اور بجلی کے بھی خیالات میں مشابہت اس فقرہ سے بھی پیدا ہوتی ہے ’اتھرون نے رگڑ سے اگنی کو نیلی کنول کے پھول (سقف آسمانی کا ایک شاعرانہ نام) نکلا’۔ اتھرون کے نام سے آگ کے ایرانی پجاریوں کے وجود کا خیال ذہن میں آتا ہے جو آتر کے نام سے ایرانی پجاریوں سے مماثل تھے۔ اس کے علاوہ اتھرے شعلے کو کہتے ہیں اور اتھریو دہکنے کو جس کا اگنی کے نام کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے۔ پجاریوں کی ایک جماعت کا نام اتھرون تھا۔ جو بڑی قربانی میں مختلف آگوں کی حفاظت کرتے تھے۔ انسانی جماعتوں یا خاندانوں کا نیم انسانی مورتوں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرنے کی یہ بھی ایک مثال ہے۔ پجاریوں کا ایک معزز خاندان انگیرا تھا۔ جس کے متعلق رگ وید میں ذکر آیا ہے کہ وہ اگنی کو پہلے پہل وجود میں لائے۔ صیغہ واحد میں انگیرا کبھی خود اگنی کے لیے مستعمل ہوا ہے اور کبھی ایک فرد واحد کے لیے جو خاندان کا مورث اعلیٰ تھا۔ کثیر ناموں کی وجہ سے اشتباہ ضرور پیدا ہوتا ہے مگر اس قدر نہیں جتنا کہ خیال ہوتا ہے کہ کیوں کہ ہر ایک میں ایک ہی مشترک خیال ہے یعنی اگنی اور اس کے انسانی پرستش کرنے والے ہم نسل ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عقیدہ تھا کہ بنی نوع انسان بہ اعتبار نسل آتشی اور آسمانی ہیں۔
ان کے ایک اور خیال کے مطابق آگ (بشمول حرارت) کے آسمان میں پیدا ہونے اور زمین پر اترنے کے متعلق آریاؤں کو کوئی شک نہ تھا۔ خواہ وہ شکل آفتاب یا برق ہو یا پانی اور نباتات میں مخفی ہو اور اس میں سے نکلنا چاہتی ہو۔ جسم انسانی کی حرارت بھی اگنی کے وجود کا ثبوت ہے اور یہ کہا جاشکتا ہے کہ اگنی انسان کے جسم میں بھی اس طرح داخل ہوتی ہوگی جیسے کہ نباتات میں۔ ایک دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ اگنی انسان میں ان نباتی اشیاء کے ذریعے داخل ہوتی ہے جو وہ کھاتا ہے اور اس طرح یہ حیات کی چنگاری نسلاً نسلاً بنی نوع انسان میں باقی رہتی ہے۔ اس لیے اگنی کو کئی جنم والا بھی کہا گیا ہے اور ایسی بہت سی عبارتیں ہیں جن میں انسان کو دیوتاؤں کا ہم نسل بتایا گیا ہے۔ اس کے ذیل کے شلوکوں میں
’اے دیوتاؤں اپنی ماں کی گود میں ہم بھائی بھائی ہیں ’
دیاؤس (آسمان) میرا باپ ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور ایک شاعر ان کو مخاطب کرتا ہے کہ انگیراس اورمنو شامل ہیں کہتا ہے کہ وہ میرے خاندان کو جانتے ہیں جس کا سلسلہ دیوتاؤں تک پہنچتا ہے۔ اگر دعاوی مذکور کو مبہم خیال کی جائے تو ایسے فقرے بھی موجود ہیں جن میں اگنی کا صریح ذکر موجود ہے۔ مثلاً بیان کیا گیا ہے کہ انسان اس سے پیدا ہوا اور اس نے اپنی اولاد کے لیے راہ نکالی اور یہ بھی ہدایت ہے اس کو اپنا مورت اعلیٰ خیال کریں۔ وحدت کائنات کے خیال کی یہ پہلی جھلک ہے
اب ہمیں معلوم ہے اگنی آسمان پر آسمان پر آفتاب ہے، کرہ زمہریر میں برق ہے، زمین پر گھر کی آگ ہے اور قربانی کی آگ ہے۔ مگر ایک پانچویں قسم کی آگ اور بھی یعنی وہ لاشوں کو خاکستر کردیا ہے اور مردوں کی روحوں کو عورتوں کی قیام گاہ تک پہنچا دیتا ہے۔ ایرانیوں کی طرح ہندوؤں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ مردے کو چھونے سے یہ مقدس عنصر ناپاک ہوجاتا ہے۔ بلکہ ان کا خیال تھا کہ آگ کے شعلے جس کو چھو لیتے ہیں وہ پاک اور طاہر ہوجاتی ہے۔ مگر مردوں کو جلانے کی آگ دوسرے اقسام کی آگ سے علحیدہ رکھی جاتی تھی اور کبھی بھی گھر کے چولھے یا قربان گاہ میں سے نہیں لے جاتے تھے۔
رگ وید میں اگنی کے متعلق ملنے والے زیادہ تر حوالے استعارے کی حثیت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک کا اس پانی سے تعلق ہے۔ جس میں وہ کبھی کبھار چھپ جاتا ہے۔ یہاں دراصل بادلوں میں چمکنے کی طرف اشارہ دینا مقصود ہے۔ ستھ برہمن میں رسومات کی توضیح کرتے ہوئے اس کا سہ جہتی ماہیت کا مالک ہونا مانا جاتا ہے۔ جنہیں گرہپتی، آہوانیہ اور دکسن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں اس کا آٹھ اشکال رود، شرد، پشوپتی، اگر، اشنی، بھو، مہان دیو اور اشنا میں ہونا بیان کیا گیا ہے۔ البتہ جب وہ اپنی تین گنا حثیت میں ہوتا ہے تو اسے کمار کہتے ہیں۔
یہ متبر دیوتا تین صورتوں یعنی آسمان پر سوریہ، درمیانی سطح پر آسمانی بجلی اور زمین پر آگ۔ ویدوں میں بھی اس کا شمار بڑے دیوتاؤں (سوریہ، وایو اور اگنی) میں ہوتا تھا۔ دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان میں یہ واسطہ رہا ہے۔ یہ ان کے بڑے اور اہم کاموں کا گواہ ہے۔ اس لیے شادی وغیرہ کے موقع پر اگنی کو آورہن (بلایا جانا) جاتا ہے۔ پرستش میں اس کی بڑی عزت ہے۔ کیوں کہ یگیہ (قربانی) کا ہر کام پورا کرتا ہے۔ اس کی سات زبانیں ہیں اور ہر ایک کا ایک خاص نام ہے۔ وہ گھی جو کہ ہون میں ڈالا جاتا ہے اس کو چاٹتا ہے۔ اگنی دیوتا شمالی مغربی حصہ کا نگہبان ہے۔ آٹھ لوک پالوں میں ان کا شمار ہے اور یہ ان میں سے ایک ہے۔ اس کے علاقہ کا نام پرجیوتش ہے۔ مہابھارت کے مطابق اس کی طاقت کمزور بلکہ نابود ہوگئی اور اس نے اپنی طاقت بحال کرنے کے لیے اس نے کہانڈو جنگل کو کھانا چاہا۔ مگر اندر نے اسے روک دیا۔ تاہم اس نے سری کرشن اور ارجن کی مدد سے اندر کو شکست دے کر جنگل مذکور کو کھالیا یعنی جلا دیا۔
اگنی ہر دیوتا میں حلول ہے۔ وہ دیوتاؤں کا پروہت اور پروہتوں کا دیوتا ہے۔ ہر گھر کا معزز مہمان جو شر کی تاریکیوں کو دور رکھتا ہے۔ (رگ وید ۳،۰۲،۱۱۱) چونکہ ہر بار آگ جلانے پر اثر نو پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ سدا جوان ہے۔ اسے حیات پرور اور اولاد دینے والا بھی خیال کیا جاتا ہے۔ (ایتریہ برہمن) لافانی ہونے کی وجہ سے اپنے بھگتوں کو لافانی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ (رگ وید ۷،۱۳،۱) اس کے رتھ میں سرخ گھوڑے جتے ہوئے ہیں اور اپنے پیچھے سیاہ نشان راہ چھوڑتا جاتا ہے۔ غیر ضروری جنگل صاف کرتا ہے تاکہ اس کے ماننے والوں کو وسیع تر جگہ میسر آسکے۔
پورانوں میں اگنی کے خصائص انسانی مماثلت میں آجاتے ہیں اور اس کے والدین بھی بدل جاتے ہیں۔ اسے ابھیمانی (مغرور) کا دیتے ہوئے اسے برہما کا سب سے بڑا بیٹا قرار دیا جاتا ہے۔ بعض جگہ اسے (کونیاتی) درات پرش کے منہ سے برآمد ہوتا دیکھایا جاتا ہے۔ وشنو پران میں اس کا نام ابہی مانی اور اور اسے برہما کا بیٹا بتایا گیا ہے۔ ہری ونس میں لکھا ہے کہ اس کا لباس سیاہ رنگ کے کپڑوں کا اور دھواں اس کا علم اور سر کا تاج ہے۔ اس کے چار ہاتھ ہیں اور ہاتھ میں سانگ پکڑا ہوا ہے۔ سرخ رنگ کی گھوڑی اس کے رتھ میں جوتی جاتی ہے۔ سات ہوائیں اس کے رتھ کے پییے ہیں۔ پورانوں کے بیانات میں بہت تضادات ہیں
اس کی بیوی کا نام سورما تھا جو اس کی بیوی ہونے کی وجہ سے اگنائی کہلاتی ہے۔ جس سے اس کی پاوک، پومان اور سوچی تین بیٹیاں ہوئیں اور آگے چل کر ان لڑکیوں سے پنتالیس بیٹیاں ہوئیں۔ اس کے علاوہ وایوں پران میں انچاس لڑکیاں اور بھی ہوئیں تھیں لکھا ہے۔ اس کے ناموں میں دہنی، انل، پاوک، دئی شورنر (سورج کا بیٹا)، انج ہست، دہوم کنو، ہوتاش، ہشت ہج، شوجی، شکر، روہتا شو، جھاگ رہتہ، جات دیدس، سبت جوا، تومردہر وغیرہ ہیں۔ جب دانش کی صفت وابشتہ کی جاتی ہے تو اسے کوی اجاتویدس کہا جاتا ہے۔ بطور مالک اس دہاتر، کستر، بھوتادی، شریش اور پانی کی اولاد کی حثیت سے اپمگربھ کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک بیٹیا آگنیہ ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...