(Last Updated On: )
آغاز کروں سوز دروں اپنا کہاں سے
قاصر ہوں میں اظہار حقیقت کے بیاں سے
تم سن نہ سکو گے میں سنا بھی نہیں سکتا
بہتر ہے بیاں کچھ نہ کروں اپنی زباں سے
گذری ہے جو مجھ پر کبھی گذرے نہ کسی پر
ہوتا جو کوئی اور گزر جاتا جہاں سے
لے لیتا مری جان تو کچھ غم نہیں ہوتا
افسوس کیا قتل مجھے تیغ زباں سے
کرکے کبھی احسان جتا یا نہیں کرتے
جو اس نے کہا ہے وہ پرے وہم و گماں سے
ہوتی ہے قدم بوس مری منزلِ مقصود
ٹکراتا ہے جب عزم جواں کوہِ گراں سے
آئینۂ احساس عیاں اس کا ہے مجھ پر
اندازہ نہیں کا میں لگا لیتا ہوں ہاں سے
کیوں زد پہ ہے اس کی مرا کاشانۂ ہستی
رہنے دے مجھے برقِ تپاں امن و اماں سے
اُس خانہ برانداز کے تیور تو یہ دیکھو
کہتا ہے نکالوں گا تجھے تیرے مکان سے
مومن جنھیں سمجھا تھا تھے شیطان سے بدتر
شکوہ نہیں برقی مجھے کچھ جورِ بتاں سے