اکیس اپریل کو سید مصطفی علی ھمدانی کی بیالیسویں برسی ہے
’’پاکستان کی تاریخِ نشریات کا اولیں باب ‘‘مصطفی علی ھمٰدانی(مرحوم)۔21 اپریل اُسی تاریخی شخصیت کی برسی ہے اور دل چاہتا ہے آج انکی زندگی کی ان چھوٹی چھوٹی خوبصورت یادوں کو تحریر کرؤں جو کسی بھی شخص کو بڑا آدمی بناتی ہیں۔
آج میرے والدِ مرحوم مصطفیٰ علی ھمٰدانی کی برسی ہے جنہوں نے 21،اپریل 1980 میں لاہور میں انتقال کیا تھا۔21اپریل ہی مفکر اسلام اور شاعر فکر وفلسفہ علامہ اقبال کا بھی یوم وفات ہے اور یہ عجب اتفاق ہے کہ عاشق اقبال نے اپنی رحلت کی تاریخ بھی یہی انتخاب کی۔
آج اکیس اپریل دوہزار بائیس ہے اور بیالیس برس گزر گئے اس تاریخی شخصیت کو ہم سے جدا ہوئے اور دوران وطن عزیز میں کیا کیا نہیں بدل گیا ۔ منفی تبدیلیاں بے شمار ہیں اور مثبت تبدیلیاں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ اب تو میں اکثر یہ کہتا اور لکھتا ہوں کہ میرے والد مرحوم نے ایسے پاکستان کی آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا۔ وہ تو اقبال کا جناح کا لیاقت علی خان کا راجہ صاحب محمود آباد کا، قربانیاں دینے والے عوام کا پاکستان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شُدی
میں تمام قارئین سے التماس کرؤں گا کہ وہ ایک سورئہ فاتحہ میرے والدِ مرحوم اور اپنے تمام مرحومین کے لیئے تلاوت کر کے انکی روح کو ایصال کر دیں۔ پروردگارِ موت و حیات ہم سب کے مرحومین کے گناہِ صغیرہ و کبیرہ معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے(آمین)
روئے زمین پر خلاق موت و حیات نے جتنے رشتے تخلیق کیئے ہیں ماں اور باپ کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں سے افضل و اعلیٰ اور سب سے بڑھ کے بلا مفاد رشتہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ماں باپ ظاہری طور پر بچھڑ جانے کے باوجود بھی اپنی اولاد کی روح ،دل کی دھڑکن اور جسم کی نس نس میں رواں خون میں سمائے رہتے ہیں۔
انسان جب خود ماں باپ بننے کی منزل پر پہنچتا ہے تو اسے اس رشتے کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ کس طرح ایک ماں ایک ننھے منے چوزے کی طرح اپنے بچے کو اپنی محبت کے پروں کے نیچے محفوظ رکھتی ہے اور کیسے اپنے منہہ کا نوالہ اپنے بچے کو کھلا کر خود کو شکم سیر ظاہر کرتی ہے اور کیسے خود رات رات بھر جاگ کر اپنے سوتے ہوئے بچے کو دکھ کر ہی اپنی نیند پوری کر لیتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک سچ ہے کہ کوئی بھی باپ اپنی اولاد کے لیئے کیسا محبت بھرا دل رکھتا ہے اور اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیئے کیسے رات کی خاموشی اور تنہائی میں اپنے خلاق سے رو رو کر دعا کر رہا ہوتا ہے۔ کیسے ایک باپ اپنی اولاد کی محبت اور اصولوں کے درمیان رہتے ہوئے شفقت پدری اور باپ کی تربیتی نگاہ کی میزان پر پورا اتر رہا ہوتا ہے۔
میرے والد مصطفی علی ھمٰدانی(مرحوم) چونکہ ایرانی النسل تھے اس لیئے وہ ساری تہذیب اور علمی و ادبی ورثہ انکو اپنے بزرگوں سے تفویض ہوا تھا جس کی انہوں نے تا دم آخر حفاظت کی۔ اور اسی ورثے کو یوں تو اپنی ساری اولاد میں تقسیم کیا لیکن شاید یہ مقام شکر اور اعتراف احسان ہے کہ انکا ادبی،تہذیبی اور فکری ورثہ اگر بیس فیصد میرے تمام دیگر اہل خانہ کے حصے میں آیا ہے تو باقی اسی فیصد کا حقدار میں بنا ہوں اور شکر ہے خلاق لوح و قلم کا کہ اپنے تئیں میں نے اپنے والد مصطفی علی ھمٰدانی(مرحوم) کے اس ورثے کے ساتھ ساتھ انکے قلم اور مائیکوفون کے ورثے کو ایک امانت کے طور پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور میرا انکی روح سے یہ وعدہ ہے کہ تمام تر دنیاوی اور معاشرتی دباؤ کے باوجود میں انکی اس امانت کا صائب امین رہوں گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ساتھ انکا تعلق ایک بہت اچھے دوست کا سا تھا لیکن انکی زندگی کے کچھ اصول ایسے تھے جن سے انہوں نے کبھی بھی مرتے دم تک انحراف نہیں کیا اور ان میں حق گوئی اور اصول پسندی سے لیکر زبان و بیان کی حرمت تک کے عناصر شامل ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں انکی ذات کے یہ اوصاف بھی میرے خون میں آئے
میرے والد مرحوم کے دادا ایران کے شہر ‘‘ھمدان‘‘ سے ہجرت کر کے کوئٹہ میں آ کر آباد ہوئے تھے اور اسی طرح میری والدہ کے بزرگ یعنی میرے ننھیال کے آبا بھی میرے ددھیال کے بزرگوں کے ساتھ کوئٹہ میں آباد ہوئے اور پھر انیس سو پیتیس کے زلزلے میں کوئٹہ میں اس خاندان کا ایک بڑا حصہ مارا گیا۔ اس سے پہلے ہی یہ سارا خاندان دو شاخوں میں بٹ گیا تھا اور میرے نانا مہدی حیسن پشاور میں مقیم ہوئے جہاں میرے ماموں معروف شاعر رضا ھمدانی اور انکے دیگر ایک بھائی اور چار بہنوں نے جنم لیا جبکہ میرے دادا صفدر ھمدانی لاہور میں مقیم ہوئے جہاں موچیدروازہ میں میرے والد جولائی 1909میں پیدا ہوئے تھے اور اسی لاہور میں 21اپریل 1980میں انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مجھے یاد ہے کہ میری پیدائش تک ہمارے گھر میں باقاعدہ فارسی بولی جاتی تھی لیکن اسکے بعد زبان خالص اردو ہی رہی اور شاید اسی فارسی پس منظر کی وجہ ہے آج بھی ہم سب فارسی سمجھ بھی سکتے ہیں اور ضرورت پڑے تو ‘‘کام چلاؤ‘‘ فارسی بول بھی لیتے ہیں۔ اسی فارسی پس منظر میں ہمارے گھر میں والد کو آغاجان،سب سے بڑے بھائی کو آغا داداش اور اس سے چھوٹے بھائی کو گُل داداش کہا جاتا تھا۔
چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے شاید یہ اصطلاحات ختم ہوگئی ہوں گی کہ میرے والد نے مجھے پیار میں ‘‘گُل‘‘ کہنا شروع کیا جس کا مطلب فارسی میں پھول ہے اور پھر خاندان بھر اور محلے بھر میں ‘‘گُل ‘‘ ہی رہا کہ یہ میرے والد کا دیا ہوا نام تھا۔مجھے یہ علم نہیں اپنے والد کا ‘‘گُل‘‘ ہونے کے ناطے کیا میں کوئی خوشبو زمانے بھر میں یا اپنے معاشرے میں پھیلا سکا کہ نہیں لیکن اپنے تئیں اس حوالے سے کم از کم اپنی نظروں میں سرخرو ہوں کہ میں نے اپنے والد کی جس عملی،ادبی اور پیشہ وارانہ وراثت کو سنبھالا تھا اسے ابھی تک پوری ایمان داری کے ساتھ نبھا رہا ہوں۔
اس علمی،ادبی اور فکری سفر میں کسی دھڑے سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے اور اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کی وجہ سے مجھ جیسے شخص کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور رہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اب یہ احساس اور شدت سے ہوتا ہے کہ میرے والد مصطفی علی ھمٰدانی(مرحوم) نے اس فکری اور اصول پسندی کی زندگی کے سفر میں جو مشکلات، مصائب اور تکالیف برداشت کی ہوں گی وہ کس حد درجہ کی ہوں گی کہ اصول پسندی اور سچ کہنے کی عادت کو تو عہد نبوی سمیت کسی بھی عہد میں پسند نہیں کیا گیا۔
میرے والد اس مشرقی مقولے کا جیتاجاگتا ثبوت تھے کہ ‘‘کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے‘‘ اور وہ ویسے بھی دیکھنے میں گویا شیر نر ہی لگتے تھے۔ میں یہاں مجبور سا ہو رہا ہوں کہ مجھے وہ الفاظ ہی نہیں مل رہے کہ میں انکا سراپا اسی طرح کھینچوں کہ جیسے وہ تھے۔
چھ فٹ سے زیادہ کا قد، سرخ و سفید چہرہ ،نہایت متناسب بدن اور سر پر مکی کے بھٹے کی طرح کے سنہری بال۔ اور اس پر طرہ یہ کہ میں نے جب سے ہوش سنبھلا انہیں نوے فیصد سفید لباس میں ہی دیکھا۔ اس چہرے بشرے کے ساتھ سفید لباس انکی شخصیت کو مزید نکھار دیتا تھا۔
وہ جس قدر عام زندگی اور پیشہ وارانہ میدان میں اپنے اصولوں اور نظم و ضبط کے پابند تھے اسی طرح روزمرہ کے معاملات میں بھی نظم و ضبط اس طرح کا تھا کہ عام لوگ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہتےتھے۔ اپنے ایک مقررہ وقت پر سونا،جاگنا،کھانا تناول کرنا،دفتر جانا اور پھر معاشرتی تقریبات پر دعوت نامے پر دیئے وقت پر جانا اور ننانوے فیصد کھانا کھائے بغیر واپس آنا۔
علمی،فکری،ادبی اور نشریاتی زندگی میں زبان و بیان،آواز اور تلفظ کے معاملے میں وہ اپنے وقت کے ریڈیو کے سربراہ زیڈ اے بخاری سے بھی مدلل بحث کر لیا کرتے تھے جبکہ ریڈیو کی ایک بڑی تعداد کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ وہ بخاری صاحب کی کہی ہوئی بات کو رد کر سکیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
جہاں انہوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا علمی اور ادبی ورثہ منتقل کرنے کے لیے ساری اولاد میں مجھےمنتخب کیا وہاں سارے بہن بھائیوں میں فقط مجھے ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری انکے ہاتھوں باقاعدہ پٹائی بھی ہوئی اور اپنی پوری حیاتی میں انہوں نے صرف ایک مرتبہ میری پٹائی کی جس کی حدت اور کسک آج بھی مجھے اپنی پشت پر محسوس ہوتی ہے۔
اس پٹائی کا بھی واقعہ یوں تھا کہ مرحوم دوپہر کو ایک بجے سے تین بجے تک سوتے تھے اور تین بجے اٹھ کر سہ پہر کی چائے پی کر اپنے بائیسکل پر ساڑھے تین بجے ریڈیو پاکستان لاہور کے لیئے روانہ ہو جاتے اور ریڈیو کے پرانے احباب کے مطابق گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ ٹھیک چار بجے وہ ڈیوٹی روم میں موجود ہوتے تھے۔ دوپہر کو وہ خود تو سوتےہی تھے لیکن یہ سونے کا حکم سب بچوں کے لیئے بھی تھا۔ باقی بہن بھائی تو اس حکم کی تعمیل کرتے تھے لیکن میں اس حکم کی بغاوت کرتا تھا۔
کچھ روز تک تو میں آنکھ بچا کر اور نہایت احتیاط سے دروازہ کھول کر نکل جاتا اور اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ دوپہر میں گھر کے سامنے والی گرانڈ میں سخت گرمی میں کرکٹ کھیلتا اور آغاجان کے اٹھنے کے وقت سے پہلے آکر سونے کا ڈرامہ کرتا۔‘‘بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ‘‘ کے مصداق ایک دن دوپہر اسی طرح کرکٹ کھیلتے ہوئے گنید کو جو ہٹ لگائی تو گیند سیدھی اس کھڑکی پر لگی جس کے ساتھ رکھے ہوئے پلنگ پر آغا جی سوتے تھے۔ اس زوردار ہٹ پرظاہر ہے وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور جس لمحے وہ دروازے سے باہر نکل رہے کہ یہ دیکھیں کہ کیا ماجرا ہے تو عین اسی لمحے میں دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ بس اسی لمحے ایک بہت مختصر سے مکالمے کے بعد چھ فٹ سے زائد قد کے آغا جان نے مجھے اپنے دائیں ہاتھ سے اٹھایا اور اندر لا کر اپنے پلنگ پر لٹا کے اچھی خاصی پٹائی بلکہ دھنائی کر دی۔ وہ تو بھلا ہو جنت مکانی ماں کا کہ انہوں نے ثالث کا کردار ادا کیا اور میری خطا معاف ہوئی۔
مجھے خوب خوب یاد ہے کہ میرے والد مرحوم نے اپنے پوری زندگی یا تو اپنی ریڈیو کی ملازمت کے ساتھ یا پھر اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ گزاری۔ ایک عالم فاضل شاعر،ادیب،ماہر لسانیات اور تاریخی براڈکاسٹر ہونے کے باوجود نمود و نمائش اُن میں نام کو نہ تھی اور تمام زندگی علم و ادب میں گزارنے کے باوجود زندگی کے آخری ایام تک وہ خود کو طالب علم کہا کرتے تھے اور کسی سے کوئی لفظ پوچھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ در اصل یہی پہچان ہے پڑھے لکھے اور صاحبِ علم انسان کی کہ وہ نخلِ ثمر بار کی طرح جھکا ہوا ہوتا ہے۔
ان کی تمام زندگی یا تو کتابوں کے درمیان اور یاپھر اپنے گھر والوں کے درمیان گزری۔ زبان،بیان،الفاظ،تلفظ اور لہجے کے بارے میں انکے اصول،قواعد اور ضوابط اس قدر ثقہ ، مستند اور سخت تھے کہ اس دور میں شاید کوئی اس کا اندازہ بھی نہ کر پائے۔ اس بات کا اندازہ آپ صرف اس ایک امر سے کر سکتے ہیں کہ انہیں یہ بھی قبول نہیں تھا کہ کوئی انکایا انکے بچوں کا نام بھی غلط لے ۔
میں نے ماہ پارہ سے شادی کی خواہش کے اظہار کا اظہار جب ان سے کیا تو انہوں نے کسی قسم کا کچھ اعتراض نہ کیا بس اتنا کہا کہ گل جی ماہ پارہ سے کہنا کہ وہ خبروں میں جَدو جِہد پڑھتی ہیں جبکہ صحیح لفظ جِدوجُہد ہے۔ گویا انکی ہونے والی بہو کا اپنے سُسر سے یہ پہلا رابطہ بھی درست تلفظ کی مناسبت سے تھا۔
اب جو اپنے آغا جان کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو یادوں کا ایک سمندر ہے جو فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ انکو کو کھانے میں ماش کی دال،ماش کی دال کے بڑے،آلو اور مولی کی روٹی اور کدو پسند تھا۔ وہ حد درجے کےگوشت خور نہیں تھے لیکن بچوں کے لیئے گوشت ضرور لاتے تھے۔ صبح اٹھ کر وہ خود سبزی گوشت لینے جاتے اور قدرے دیر سے اس لیئے آیا کرتے تھے کہ دوکانداروں کی ایک بڑی تعداد ان سے دن بھر کی خبروں کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ اس کے علاوہ بازار سے گھر آتے ہوئے وہ راستے میں پڑنے والے محلے کے گھروں میں وہ سب کی خیریت معلوم کرتے ہوئے آتے تھے۔ شاید اسی ملنساری کی وجہ تھی کہ انکے انتقال پر انکے جنازے کے بارے میں لاہور کے اخبارات نے لکھا تھا کہ یہ غازی علم الدین شہید اور حافظ کفایت حسین کے جنازے کے بعد تیسرا ایسا جنازہ تھا جس میں اتنی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
انکے انتقال ہر ملک بھر کے اخبارات کے علاوہ لاہور کے اخبارات،ریڈیو اور ٹی وی نے انکی نشریاتی زندگی کے بارے میں خصوصی پروگرام نشر کیئے اور کم از کم تین دن تک انکے احباب اور ہم عصر انکے بارے میں اخبارات میں لکھتے رہے۔ وہ عجیب قناعت پسند آدمی تھے اور سب سے حیرتناک بات یہ کہ انکا کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو یاد ہے کہ وہ اکثر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام یہ قول ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ”اے بندے تو اُس سے کیوں مانگتا ہے جو خود مانگنے والا ہے اُس سے مانگ جو بن مانگے دیتا ہے”۔
اولاد کے لیئے تو ہر ماں باپ ایسی ایسی قربانی دیتا ہے کہ اگر اولاد کواسکا حقیقی ادراک ہو جائے تو وہ اپنے ماں باپ کو مرنے کے بعد حنوط کروا کے رکھ لے لیکن یہ عجب طرفہ تماشہ ہے کہ جب اولاد کو اسکا ادراک ہوتا ہے تو ماں باپ ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
ہم سب بہن بھائیوں کو یاد ہے اور انکے تمام احباب بھی اسکا ذکر کرتے ہیں کہ وہ چونکہ حد درجہ کے خوش خط تھے اس لیئے سکے والی پنسل یا قلم کے ساتھ یا پھر زیڈ کی نب کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ انکی سکے والی پنسل کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اسے اس وقت تک استعمال کرتے تھے جب وہ انگلی کی ایک پور کے برابر رہ جاتی تھی۔ ایک بار شاید میں نے استفسار کیا کہ آپ اتنی چھوٹی پنسل کیوں استعمال کرتے ہیں تو انکا جواب تھا اس لیئے کہ تم بڑی پنسل استعمال کر سکو۔ آغا جان ہم بھائیوں کو انار کلی کی اسوقت کی سب سے بڑی دوکان کرنال شاپ سے جوتے لے کر دیتے تھے لیکن خود انکے جوتے میں ایک سے زیادہ جوڑ لگے ہوتے تھے۔
اتنی قلیل تنخواہ میں وہ کثیر اولاد کی پرورش اور تعلیم کے علاوہ اسی رقم میں سے اپنے عزیزوں کی مدد بھی کرتے تھے اور ایسے مستحق افراد کی مدد بھی کیا کرتے تھے جن کے بارے میں علم ہمیں انکی وفات کے بعد بھی اسوقت ہوا جب ایسے لوگوں نے خود آ کر ہمیں اس سے آگاہ کیا۔
وہ دراصل صوفی تھے اور انکا باطن کیسے کیسے فرمودات سے بھرا پڑا تھا لیکن مسلہ وہی ادارک کا کہ ہم جیسوں کو یہ بات پلے ہی نہیں پڑتی تھی۔ وہ کہتے تھے” کہ گُل جی جو میاں بیوی یہ کہے کہ انکا کبھی جھگڑا نہیں ہوا تو سمجھو کہ ان کے درمیان بول چال کے بھی تعلقات نہیں ہیں”۔ پھر کہتے تھے کہ ”ازدواجی زندگی میں اختلاف رائے،رنجش،چپقلش،جھگڑے،لڑائی،علیحدگی اور طلاق کے درمیان ایک بہت باریک لائن ہوتی ہے جس کا اگر خیال نہ کیا جائے تو اختلاف رائے طلاق بن جاتی ہے”۔
ازدواجی زندگی سے یاد آیا کہ آغا جان نے اپنی ملازمت کا غالب حصہ رات کی نوکری میں گزارا جسے ریڈیو کی اصطلاح میں”تیسری مجلس کی نشریات” کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ چار بجے دفتر پہنچتے اوررات بارہ بجے نشریات ختم کر کے گھر واپس آتے۔ یہاں ایک بات جو مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے کہ رات کو گھر آنے کے بعد وہ اپنا کھانا بجلی کے ہیٹر پر خود گرم کرتے تھے اور انہوں نے کبھی بھی ہماری جنت مکانی ماں کو نہیں جگایا تھا۔کبھ ماں جی اس خواہش کا اظہار بھی کرتیں کہ وہ کھانا گرم کر دیں تو وہ انکار کر دیتے تھے۔
آغا جان کو سردیوں میں سخت سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی لگتی تھی۔ گرمیوں میں کبھی کبھی وہ گھر میں”ریفرجیٹر” کا دروازہ کھول کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ انکے دفتر کے ساتھی بتایا کرتے تھے پرانے ریڈیو اسٹیشن میں جو سر فضل حیسن کی کوٹھی میں لاہور کے گورنر ہاؤس کے عقبی دروازے کے ساتھ تھا ایک تالاب تھا اور آغاجان اناؤنسمنٹ کے دوران لمبے وقفے میں تولیہ باندھ کر اس تالاب میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے پیدا کرنے والے نے انکے انتقال کے لیے گرمی یا سردی کا موسم نہیں بلکہ بہار کے موسم کو منتخب کیا
اس عہدِ فراموش میں ہم نے کیسی کیسی شخصیت کو فراموش نہیں کر دیا۔ یادش بخیر مجھے اس وقت اردو ادب کی ایک بہت قد آور شخصیت کی یاد آئی ہے جنہیں بہت حد تک خود اہلِ اردو ادب بھی شاید فراموش کر چکے ہیں۔ جناب مختار صدیقی اردو غزل کا ایک باوقار نام جو لاہور ریڈیو پر ملازم تھے اور شاید بہت کم لوگوں کو یہ یاد ہو کہ س جب پاکستان میں پہلا ٹیلی ویژن اسٹیشن لاہور ریڈیو کی عمارت کے احاطے میں ہی قائم ہوا تو جہاں اسوقت لاہور ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر آغا بشیر پی ٹی وی لاہور کے پہلے اسٹیشن مینجر مقرر ہوئے وہاں پہلے سکرپٹ ایڈیٹر مرحوم مختار صدیقی تھے۔مختار صدیقی 1917 میں پیدا ہوئے تھے اور 1972میں انہوں نے وفات پائی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں میں پڑھنے اور سیکھنے کا رواج تھا اور اسی تناظر میں ایک مرتبہ لاہور ریڈیو کا ایک پروڈیوسر کوئی ایک لفظ پوچھنے مختار صدیقی کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ حیف ہے کہ تم یہاں میرے پاس پوچھنے آئے جب کہ خود تمہارے پاس وہاں اردو،فارسی اور عربی کی چلتی پھرتی ڈکشنری مصطفیٰ علی ھمٰدانی صورت میں موجود ہے‘‘
وہ میرے والد تو تھے ہی لیکن قدرت نے انہیں تاریخ کا ایک ایسا اعزاز دیا تھا جو انکی وفات کے بعد ایک سے زائد لوگوں نے اپنے نام لگوانے کی کیسی کیسی کوشش نہیں کی اور اس مقصد کے لیئے اس عہد کے درباری تاریخ نویسوں سے کالم لکھوائے،بیانات جاری کروائے حتیٰ کہ تاریخ کو مسخ کر کے کتابوں میں بھی لکھوایا لیکن قدرت کے فیصلے کچھ اور ہی ہوا کرتے ہیں۔
تیرہ اورچودہ ،اگست 1947 کی درمیانی رات کو لاہور ریڈیو اسٹیشن سے آزاد فضا میں گونجنے والی پہلی آواز مصطفیٰ علی ھمٰدانی کی ہی تھی کہ جس نے عشروں سے آزادی کے منتظر لوگوں کو پیامِ آزادی سنایا۔
ہم جس طرح اپنی تاریخ کے کتنے ہی ابواب کو محفوظ کرنے میں ناکام رہے ہیں اسی طرح تاریخ کا یہ باب بھی ہمارے حکمرانوں اور ریڈیو پاکستان کے اربابِ اختیار کی کم علمی اور بے اعتنائی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ اب ریڈیو کے اہل اقتدار نے بہت بڑا احسان کیا ہے چند برس سے انکے یوم وفات پر تین منٹ جی صرف تین منٹ کا پروگرام نشر کرتے ہیں۔
میں نے انکی ادبی اور علمی زندگی کے وارث کے ناطے اور ایک بیٹے،ایک محقق،ایک قلم کار اور سب سے بڑھ کر نشریات کے شعبے کے ایک کارکن کی حیثیت سے یہ میرا فرض گزشتہ دنوں ایک قسط وار تحقیق میں پورا کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں تاریخ کے ان مستند صوتی اور تحریری حوالوں سے ایک طرف ان دروغ گو مدعیان کی قلعی کھولی ہے اور دوسری جانب اس تاریخ کو محفوظ کر دیا ہے۔
یہ عجب ایک طرفہ تماشہ ہے کہ حکمران یا ملکی انتظامی ادارے یا نشریات و ثقافت کی وزارتیں تو ہر عہد میں ایسی تاریخ کو محفوظ کرنے کے کام میں ناکام رہی ہیں لیکن افسوس تو ریڈیو پاکستان کے اس ادارے یا محکمے پر ہے کہ جس کو تاریخ کا یہ اولیں اعزاز ملا اور وہ خود اس کی مستند تاریخ کو محفوظ نہیں رکھ سکے جس کی وجہ سے کتنے ہی جعلی لوگوں نے مصطفٰی علی ھمٰدانی مرحوم کے انتقال کے بعد اس اعزاز کو اپنے نام لگوانے کی کوشش کی جن میں ایک پرانے اور ابن الوقت بیوروکریٹ ظہور آذر سے لیکر مرحوم فلم سٹار محمد علی کے ڈرامہ نگار بھائی ارشاد حسین بھی شامل ہیں۔
یہ سب غلط بیانیاں اور غلط معلومات کیوں در آئی ہیں۔
اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ خود ریڈیو پاکستان نے یا پھر حکومت پاکستان اور وزارت اطلاعات نے ان تمام چیزوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جسکی وجہ سے جس کا جو جی چاہتا ہے کسی تحقیق کے بغیر لکھ دیتا ہے اور دوسرے ایک بہت بڑا ظلم 1965میں اسوقت ہوا جب لاہور ریڈیو سر فضل حسین کی گورنر ہاؤس کے عقب والی کوٹھی سے منتقل ہو کر ایبٹ روڈ پر اپنی نئی اور موجودہ عمارت میں آنا تھا کہ اس سے قبل لاہو ریڈیو کے متعین ہونے والے نئے اسٹیشن ڈائریکٹر اور ڈرامے کے مقبول پروڈیوسر شمس الدین بٹ نے ایک کمرے میں پڑے تمام پرانے ریکارڈ کو کوڑا کرکٹ قرار دیکر آگ لگوا دی اور اسی ریکارڈ میں لاہور ریڈیو کی پہلی رات کی نشریات کی وہ لاگ بُک بھی تھی جس میں مرحوم مصطفیٰ علی ھمدانی نے اپنے ہاتھوں سے یہ ساری تفصیل لکھی تھی۔
اس ریکارڈ کے ضائع ہونے کا واقعہ امریکہ میں مقیم براڈکاسٹر ابوالحسن نغمی صاحب نے خود مجھے سنایا اور یہ بھی بتایا کہ بٹ صاحب کو یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں نہایت اہم ریکارڈ موجود ہے لیکن انہوں نے سب کی سُنی ان سنی کر دی۔
تا ہم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں جب حنیف خان وزیر اطلاعات تھے تو مصطفیٰ علی ھمدانی نے انہیں بذات خود پہلی رات کی ان نشریات کی تفصیل لکھ کر بھیجی تھی لیکن عجب ستم ظریفی ہے کہ اسوقت بھی کسی نے اس تفصیل کو محفوظ نہ کیا جس کی وجہ سے آج یہ عالم ہے کہ ہر کوئی اپنا تانپورہ اور اپنی بانسری بجا رہا ہے۔
میں نے پہلے بھی ایک مرتبہ اسی ضمن میں لکھا تھا کہ‘‘مصطفٰی ھمٰدانی جہاں جا چکے ہیں ظہور آذر صاحب اور انکے حواریوں کو بھی وہاں جانا ہے اور اس قادر مطلق کے عدل پر کسی کو شک نہیں۔ وہاں جھوٹ اور سچ کا فیصلہ بلاشبہ بائیسویں گریڈ یا وزیر و مشیر کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت کی میزان میں ہو گا‘‘۔
جو قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ نہیں رکھتیں انکی تمام تاریخ اسی طرح مخمسے اور تضادات کا شکار اور انکی آنے والی نسلیں راہ گم کردہ کی صورت حقائق سے ناآشنا رہتی ہیں۔کاش کسی کان،کسی ذہن اور کسی فکر تک فقیرِ شہر کی یہ آواز پہنچ سکے؟
اس مرتبہ میں آغا جان کی برسی پر ان زیادتیوں کا ذکر بالکل نہیں کرنا چاہتا جو ریڈیو پاکستان کے چند ناعاقبت اندیش افسرا ن نے ان کے ساتھ کیں بلکہ یہ تاریخی حوالہ بھی میں نے صرف تاریخی حقیقت کو تازہ رکھنے کے لیئے لکھا ہے۔
اس بار تو میں نے صرف اُن آغاجان کو یاد کیا ہے جنہیں ہم سب آغاجان اور جو مجھے‘‘گُل جی‘‘ کہا کرتے تھے۔
سفر کی دھوپ میں سایہ تھا سر پہ برگد کا
بچھڑ گیا ہے تو اب جل رہا ہوں صحرا میں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...