اسٹیج پر “نوہ” ڈرامہ جاری تھا۔ ایکٹر ضیاء محی الدین ، سرور واجد خان سے شادی کرنے والا تھا جو بھوپال کی لڑکی ہے، سرور کی چھوٹی بہن شہر بانو، نصرت بھٹو کی چھوٹی بہن ،بہجت اصفہانی کی طرح بہت اچھی اسٹیج کی ایکٹریس تھی اور کراچی میں انگریزی شوقیہ اسٹیج پر ضیاء کے مقابل جولیئٹ کا رول ادا کر چکی تھی۔
۔۔۔
ضیاء محی الدین نیویارک براڈ وے کا ہٹ اسٹار ہونے کے بعد ساؤتھ کنزنگٹن کے ایک بڑھیا فلیٹ میں رہتا تھا۔
۔۔۔۔
میں قرت العین حیدر کی “ کار جہاں دراز ہے” پڑھ رہا تھا۔ ضیاء محی الدین کا ذکر کم ازکم پانچ جگہ ضرور تھا۔ ضیاء جن کا حوالہ تھیٹر تھا۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ کتنے بڑے اور بھاری بھر کم نام تھیٹر سے جڑے ہوئے تھے۔
پرتھوی راج کپور، سہراب مودی، بلراج ساہںی، نیوز ریڈر شکیل احمد، ڈاکٹر شری رام لاگو، اتپل دت، نصیرالدین شاہ، اوم پوری، نادرہ ببر، انوپم کھیر، سلطان کھوسٹ، رفیع پیر، نعیم طاہر، یاسمین طاہر، کمال احمد رضوی،ڈاکٹر انور سجاد، سبحانی بایونس، محمود علی، قاضی واجد ، پریش راول، بومن ایراںی، قادر خان۔۔۔اور ان جیسے بے شمار نام، اور ہر نام اپنے فن میں باکمال۔
اور یہ سب تھیٹر کی دین تھے۔ تھیٹر ، شوبزنس کا سب سے مشکل لیکن اپنے وقتوں کا مقبول ترین شعبہ۔ اسٹیج ڈرامہ، نوٹنکی، ہندوستان کے گلی محلوں میں کھیلے جانے والی رام لیلا، بیٹھکوں اور چوپالوں پر قصے کہانی سنانے والے داستان گو، شادی بیاہ میں شجرے سنانے والے میراثی۔ میلوں ٹھیلوں میں جگتیں سنانے والے بھانڈ اور نہ جانے کتنے طریقوں سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے۔
ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے کسی بھی فن کار سے پوچھو تو ہر ایک کی ابتداء اسکول اور کالج کے ڈراموں سے ہی ہوتی ہے۔ تھیٹر یا ڈرامہ اس وقت سے مقبول ہے جب سے انسان نے سماجی یکجہتی اختیار کی ۔جب لوگ باگ فرصت کے وقت میں خود پر گذری باتیں بیان کرنے لگے، کارواں سرائے میں ٹھہرے قافلے اپںی سفر کی کہانیاں سنانے لگے ، اور پھر ہوتے ہوتے خوشی کی محفلوں میں ناچ گانے سے ہوتے ہوتے، کھیل تماشے پیش ہونے لگے۔
تھیٹر کا نشہ جسے ہوجائے تو پھر وہ ہالی ووڈ، بالی ووڈ یا لالی ووڈ وغیرہ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ، “جسے ایک دفعہ اسٹیج کا نشہ ہوجائے پھر جب تک آنکھوں میں دم ہے، اس کا ہٌڑکا نہیں جاتا۔ جس نے ایک بار گوشت پوست کا روپ بہروپ دیکھ لیا اس کی تسکین پھر کبھی پرچھائیوں سے نہیں ہوگی”۔
اسٹیج کی روشنی، اداکاروں کے ملبوسات ( کاسٹیوم) مکالموں کا اتار چڑھاؤ، آوازوں کی گھن گرج ، سب کچھ اپںی داد ، بے داد ہاتھ کے ہاتھ یعنی نقد حاصل کرتے ہیں۔ حاضرین وہیں کھیل کی اچھائی برائی کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور ڈرامہ نگار، ہدایتکار اور اداکار کو وہیں اپنے قدوقامت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ جتنے فنکار تھیٹر کی بھٹی سے نکل کر فن کی دنیا میں آئے سب کے سب کندن ہوئے۔
ناممکن ہے کہ برصغیر میں تھیٹر کی بات ہو اور “ پارسی تھیٹر” کا ذکر نہ ہو۔ پارسی فنکاروں اور سیٹھوں کے پیش کئے ہوئے یہ تھیٹر دراصل ہندی، بلکہ اردو تھیٹر کی بنیاد تھے۔ جس کی بناء اٹھارہویں صدی کے وسط میں پڑ چکی تھیں اور “اندر سبھا “جیسے ناٹک مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ کالی داس کی “ شکنتلا” سے ہوتا ہوا آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج، حکیم احمد شجاع وغیرہ سے ہوتا ہوا خواجہ معین الدین، علی احمد، سلطان کھوسٹ، رفیع پیر، اجوکا اور “ناپا” تک اپنی روایات برقرار رکھے ہوئے تھا۔ ہندوستان میں آج بھی مہاراشٹرا، گجرات، بنگال، کرناٹکا، کیرل اور تامل ناڈ میں تھیٹر اسی ذوق و شوق اور سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی وہی روایات باقی ہیں۔ مجھے اس کی خبریں میرے بہت عزیز دوستوں سید محمد اظہر عالم. Azhar Alam S M اور خورشید اکرم منا Khursheed Ekram Manna سے ملتی رہتی ہیں جو دونوں تھیٹر کے بہت منجھے ہوئے فنکار ہیں۔ اظہر بھائی ہدایتکار اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ بہت پہلے کبھی انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان میں تھیٹر کے احوال پر کچھ لکھوں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس بارے میں بہت زیادہ علم بھی نہیں ہے۔ تھوڑا بہت موجودہ تھیٹر کے بارے میں ، یوٹیوب، وغیرہ پر جاننے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ آغا حشر کی قائم کی ہوئی روایات والے تھیٹر کا حشر نشر ہوچکا ہے اور اب جو کچھ اسٹیج، خصوصا پنجاب کے اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے وہ نری فحاشی، قحبہ گری، پھکڑ پن کے علاوہ کچھ نہیں ۔ شریف آدمی تو ایسی جگہوں اور فنکاروں کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں،
پنجاب، خصوصاً لاہور تو کبھی تھیٹر کا گھر تھا جہاں امتیاز علی تاج جیسے قلمکاروں نے گورنمنٹ کالج میں “ انارکلی” جیسے کھیل پیش کئے تو، الحمرا، آرٹس کونسل وغیرہ میں رفیع پیر، نعیم طاہر، کمال احمد رضوی نے اپنے وقتوں میں بہت سے معیاری اردو اور پنجابی ڈرامے پیش کئے وہیں میلوں ٹھیلوں اور نوٹنکیوں میں عنایت حسین بھٹی، طفیل نیازی وغیرہ “ہیر رانجھا”،” سوہنی مہینوال” ، “ مرزا صاحبان”، “ بالو ماہیا” اور شیریں فرہاد وغیرہ کی کہانیاں عوام تک پہچانتے رہے۔
آغا حشر کاشمیری غالبا اردو تھیٹر کا سب سے بڑا نام ہیں۔ اپنے وقتوں کے بڑے بڑے فنکاروں نے ان کے ڈراموں “ رستم و سہراب”، “ آنکھ کا نشہ”، “ یہودی کی لڑکی”، “صید ہوس” اور “ ترکی حور” جیسے ڈراموں سے نام کمایا۔ ریڈیو پاکستان کے مشہور نیوز ریڈر شکیل احمد بھی آغا حشر کے ڈراموں سے فن کی دنیا میں آئے۔ ان کی آواز کی گھن گرج سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس پائے کے فنکار ان ڈراموں میں کام کرتے ہونگے۔
ہندوستان میں ڈرامے کی روایات بہت پختہ اور قدیم ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں ، آغا حشر اور امتیاز علی تاج تو غیر منقسم ہندوستان کے ادیب تھے ہی، رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام، پرتھوی راج کپور، سہراب مودی، درگا کھوٹے، شری رام لاگو، اتپل دت، نصیر الدین شاہ ، انوپم کھیر اور اوم پوری کے پائے کے فنکار جس شعبے سے وابستہ ہوں اس کے معیار کا کیا مقام ہوگا۔
چند سال قبل دوبئی میں مرحوم فاروق شیخ اور اداکارہ شبانہ اعظمی نے ایک کھیل “ تمہاری امرتا”پیش کیا تھا جس میں صرف یہ دونوں فن کار ہی تھے لیکن تماشائیوں کی دلچسپی آخر تک برقرار تھی۔ ابھی سال ڈیڑھ سال پہلے ڈاکٹر سعید عالم نے “ Sons of Babar’ اور “ غالب ان دہلی” پیش کئے تھے اور یقین جانئیے لطف آگیا تھا۔
پاکستان سے انور مقصود کے ڈرامہ گروپ نے “ پونے چودہ اگست” اور “ دھرنا” پیش کئے۔ دونوں انتہائی لاجواب کھیل تھے۔ انور مقصود نے حال ہی میں اپنے ٹی وی ڈرامے “ آنگن ٹیڑھا” کو اسٹیج پر پیش کیا تھا اور وہی لطف آیا جو ٹی وی ڈرامے میں آیا تھا۔
پی ٹی وی نے ایک زمانے میں چند کامیاب اسٹیج ڈراموں کو پیش کیا تھا جن میں علی احمد کا “ شیشے کے آدمی” اور خواجہ معین الدین کے “ تعلیم بالغان” اور “ مرزا غالب بندرروڈ پر” بہت نمایاں تھے۔ تعلیم بالغان تو ہر دور کا ڈرامہ ہے اور اسے آج بھی دیکھو تو وہی لطف آتا ہے جو پہلی بار دیکھنے پر آیا تھا۔ خواجہ معین الدین کے دیگر ڈرامے “ لال قلعہ سے لالوکھیت” اور صدائے کشمیر “ بھی ٹی وی پر پیش کیے جانے چاہئیں۔
کراچی ہی میں کبھی نعیم طاہر، یاسمین طاہر، کمال احمد رضوی اور اطہر شاہ خان لاہور سے آکر کھیل پیش کیا کرتے تھے، تھیوسوفیکل ہال، آرٹس کونسل اور فلیٹ کلب ان سرگرمیوں کا مرکز تھے۔ اب بہت سے سنیما ہالوں کو تھیئٹر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آدم جی آڈیٹوریم، ریکس آڈیٹوریم وغیرہ میں معین اختر، عمر شریف ، شہزاد رضا وغیرہ مزاحیہ ڈرامے پیش کرتے رہے۔ تب تک یہ غنیمت تھا ۔ اب یہ مکمل طور پر غیر تعلیمیافتہ اور غیر سنجیدہ ہاتھوں میں ہے اور اب شاید ہی کوئی سلجھے ہوئے ذوق کے لوگ ان کھیلوں کا رخ کرتے ہوں۔
لاہور میں ڈرامے کی روایات بہت اعلا تھیں اور کراچی سے کہیں آگے تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سلطان کھوسٹ، رفیع پیر جیسے فنکاروں نے ان روایات کو برقرار رکھا۔ رفیع پیر کے بیٹے سلمان ، عثمان، فیضان پیرزادہ وغیرہ اسے مختلف شکلوں میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک قابل ذکر نام “اجوکا تھیئٹر” کا ہے جو اب بھی سنجیدہ موضوعات پر بہترین کھیل پیش کرتے ہیں ۔ اجوکا کی روح رواں، مدیحہ گوہر، تو اللہ کو پیاری ہوگئیں مگر ان کا لگایا ہوا پودا اب بھی جگت بازی اور پھکڑ پن کے طوفان کے سامنے تناور درخت بن کر کھڑا ہے۔
لیکن عمومی مزاج اور عام ڈرامے انتہائی گھٹیا اور لچر پن لیے ہوئے ہیں۔ ایسے ڈراموں پر تو فوری پابندی لگنی چاہئے ۔ یہ اظہار رائے کے نام پر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔ دیکھنے والے اب بھی اچھا کھیل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اجوکا، نیشنل اسکول آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) اور انور مقصود کے گروپ آج بھی امید کی کرن ہیں اور وہی آغا حشر کی روایات کا حشر نشر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
تحریر :شکور پٹھان
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...