34مسلمان ملکوں کے اتحاد کی تشریح اس اتحاد کے معمار سفارت کاری کے انداز میں کر رہے تھے مگر امریکی وزیر دفاع نے نرم گفتاری کو ایک طرف رکھ کر اسے ایک خاص مسلک سے منسوب کر دیا ۔
اصل سوال اور ہے، بالکل اور! وہ یہ کہ کیا یہ اتحاد جارحانہ ہے؟ یا دفاعی ہے؟ابتدا کس نے کی؟ انگریزی محاورے کی رُو سے پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہنا پڑے گا، اُسے گلدان یا روئی کے بنے تکیے کا نام نہیں دے سکتے! دوسرے مسلک نے مشرق وسطیٰ میں عمل دخل کا اسّی کے عشرے ہی میں آغاز کر دیا تھا۔ یہ عمل دخل، زبان و بیان پر مشتمل نہ تھا، نہ محض تھیوری تھی، یہ جارحانہ عمل دخل تھا اور مسلّح عمل دخل تھا! اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دوسرے مسلک کا یہ حالیہ اتحاد تیس پینتیس برس بعد وجود میں آیا ہے۔
لبنان کی مسلّح جماعت حزب اللہ بظاہر تو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے بنی تھی مگر اس میں شامل سب لوگ ایک خاص ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ اسے مالی امداد ایران نے دی۔ اس کی رہنمائی ایرانی لیڈر شپ کے ہاتھ میں تھی۔ پندرہ سو ایرانی انقلابی گارڈ، شام کی اجازت سے آئے اور حزب اللہ کے ارکان کی جنگی تربیت کی۔ حزب اللہ کی تشکیل میں اسرائیل کا نام لیا گیا۔ اس نے اسرائیل سے لڑائیاں بھی لڑیں مگر جلد ہی حزب اللہ نے اپنے عمل سے واضح کر دیا کہ وہ دراصل مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرونفوذ کا ہر اول دستہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں حزب اللہ ایران کی جارحانہ پالیسی کے ایک علامت ہے۔ ایک سمبل ہے! 2014ء کے جون میں نصراللہ نے اعلان کیا کہ ’’ہم نے شام میں جتنے جاں نثار شہید کیے ہیں، عراق میں اس سے پانچ گنا زیادہ شہید کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ عراق میں شیعہ جنگ جوئوں کو حزب اللہ ہی نے تیار کیا۔ 2009ء میں آسٹریلیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’حزب اللہ عراق میں جنگی قابلیت حاصل کر چکی ہے۔ حزب اللہ کے یونٹ، ایران کے القدس بریگیڈ کے وسائل سے قائم کیے گئے ہیں‘‘!
عالمِ اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذرائع ابلاغ محض اُن خبروں کی جگالی کرتے ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ پیش کرتے ہیں۔ ایران کے رہنما کھلم کھلا انقلاب کو برآمد کرنے کا اعلان ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ مگر اس کا نوٹس، دوسرے مسلمان ملکوں کے ذرائع ابلاغ نے نہیں لیا، اس لیے کہ مغربی میڈیا اِس ’’ایکسپورٹ‘‘ کا اعلان اُس وقت کرنا چاہتا تھا جب مغرب کے مفاد کا تقاضا ہو! چالیس سال سے جو انقلاب برآمد ہو رہا تھا، اُس کا ذکر مغربی ذرائع ابلاغ نے کم ہی کیا مگر جیسے ہی سعودی عرب نے اتحاد تشکیل دیا، امریکی وزیر دفاع ڈھول لے کر کوٹھے پر چڑھ گیا اور ڈھنڈورا پیٹا کہ یہ سُنی کر دار ہے! اصل بات وہی ہے جو ایران کے سفارت کار زینل بیگ نے چار سو سال پہلے کر دی تھی اور جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ کالم میں کیا گیا ہے۔ اُس نے یورپ سے شاہ عباس صفوی کو لگی لپٹی رکھے بغیر، بے مثال جرأت کے ساتھ لکھا تھا کہ یورپی طاقتیں ترکوں کے ساتھ مصالحت میں سنجیدہ ہیں نہ ایران کے ساتھ مخلص ہیں، وہ تو دونوں مسلمان سلطنتوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں تا کہ نقصان اسلام کو پہنچے!
افسوس ! آج کوئی زینل بیگ نہیں جو مسلمان طاقتوں کو سمجھائے! اگر ایرانی یہ سمجھ رہے ہیں کہ روس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھے گا اور اگر عرب اس خیال میں ہیں کہ امریکہ ہاتھ سینے پر باندھ کر آمین بھی بلند آواز سے کہے گا تو دونوں احمقوں کی جنت میں ر ہ رہے ہیں ۔ ایران، جو جارحانہ حکمت عملی مشرق وسطیٰ میں اپنائے ہوئے ہے، کوئی مانے نہ مانے، وہ امریکہ کے طویل المیعاد منصوبے کے عین مطابق ہے۔ ایران کے پالیسی ساز، نا دانستہ، امریکی تھنک ٹینکوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ سعودی عرب اگر اس کے مقابلے میں دوسرے مسلک کا اتحاد بنا رہا ہے تو وہ بھی امریکی حکمت عملی کے مطابق ہے! اگر دونوں طاقتیں، (ایران اور عرب) اسلام اور عالمِ اسلام کا بھلا چاہتی ہیں تو ایک دوسرے کے ملکوں میں نقب لگانے کے بجائے ایک میز پر بیٹھیں اور پریشر گروپ تشکیل دینے کا سلسلہ ختم کریں!
آہ! عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن نظر آرہا ہے۔زمینی حقائق کیا ہیں ؟ ہر سال فروری میں انقلاب ایران کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ اس سال یعنی فروری 2015ء میں اس سالگرہ کے موقع پر ایران کی ’’القدس فورس‘‘ کے کمانڈر، جنرل قاسم نے فخر سے کہا: ’’ہم پورے خطّے میں، بحرین اور عراق سے لے کر شام، یمن اور شمالی افریقہ تک اسلامی انقلاب کی ایکسپورٹ کا منظر دیکھ رہے ہیں!‘‘
اس سے پہلے کہ ہم ایکسپورٹ کی نوعیت پر بحث کریں۔ آئیے، دیکھتے چلیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کتنی اہم شخصیت ہیں! ان کی اہمیت سمجھنے کے لیے القدس فورس کا تعارف ضروری ہے۔ القدس فورس ایرانی فوج کا وہ ڈویژن ہے جو بیرون ملک آپریشن کرتا ہے۔ جنرل قاسم گزشتہ اٹھارہ سال سے القدس فورس کے کمانڈر ہیں۔ حزب اللہ کو جنگی مدد القدس فورس ہی بہم پہنچاتی ہیں۔ پھر جب مالکی کی حکومت عراق میں بنی تو وہاں شیعہ ملیشیا کو القدس فورس ہی نے مستحکم کیا۔
شام میں بشار الاسد کو بچانے کے لیے ایران نے جو کوششیں کی ہیں، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں! ایران کے سپریم لیڈر جناب علی خامنہ ای نے روس میں اپناخصوصی ایلچی بھیجا اور صدر پوٹن سے مداخلت کی اپیل کی۔ روایت یہ ہے کہ پوٹن نے سفیر کو جواب دیا: ’’ٹھیک ہے، ہم مداخلت کر یں گے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو بھیجو‘‘۔ جولائی 2015ء میں جنرل قاسم سلیمانی نے جا کر روسیوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے میز پر شام کا نقشہ پھیلا کر، نشانات لگا کر، روسیوں کا سمجھایا کہ روسی کس کس طرح اور کہاں کہاں باغیوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
ایرانی انقلاب کے موقع پر، اس سال جنرل قاسم سلیمانی کا یہ اعلان کہ ’’پورے خطے میں ، بحرین اور عراق سے لے کر شام یمن اور شمالی افریقہ تک، دنیا ایرانی انقلاب کو برآمد ہوتا دیکھ رہی ہے‘‘ کوئی معمولی یا عام اعلان نہیں! جنرل قاسم عملی طور پر انقلاب برآمد کرنے کے انچارج ہیں! عام مسلمان اسلامی انقلاب کی ایکسپورٹ سے یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوگا۔ مگر اصل میں انقلاب کی برآمد ایک نپی تُلی ڈرل ہے۔ جب یمن میں حوثی ایرانی مدد کے ساتھ منظر آرا ہوئے تو ایران کی ایک سرکاری ویب سائٹ نے حوثیوں کی حکمت عملی واضح کی۔ ایرانی انقلاب کی برآمد میں ’’عوامی کمیٹیاں‘‘ مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ عوامی کمیٹیاں انقلاب کی حفاظت کرتی ہیں اور اُن عناصر کی بیخ کنی کرتی ہیں جو انقلاب کے مخالف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک سٹریٹ فورس ہے۔ ایران کی عوامی ملیشیابھی جسے ’’سازمانِ بسیجِ مستضعفین‘‘ کہا جاتا ہے، ایرانی انقلاب کا ایک اہم ستون ہے۔ شام عراق اور یمن میں یہی ماڈل دُہرایا جا رہا ہے!
صاف نظر آرہا ہے کہ خطے کے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔ ایک طرف شام عراق اور ایران ہے اور ایرانی تنظیمیں ہیں جو ہر ملک میں موجود ہیں۔ روس بھی اسی صف میں ہے۔ دوسری طرف عرب اور ترک ہیں۔ امریکہ ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ اور بات کہ امریکہ نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔ وسائل کی دونوں طرف کمی نہیں! ایران اور عراق کے پاس بھی تیل کی دولت ہے اور عرب بھی پیٹرو ڈالر کما رہے ہیں۔ روس اس موقع سے فائدہ اٹھا کر عالمی بساط پر اپنے آپ کو نمایا ں کرنا چاہتا ہے۔ کریمیا میں فوج کشی کر کے وہ امریکہ کی مونچھیں پہلے ہی نیچے کر چکا ہے! ایک محتاط انداز ے کی رُو سے اِس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو کے قریب امریکی بیسس
(Bases)
موجود ہیں۔ دوسری طرف روس کے پاس
Bases
صرف اُن ملکوں میں ہیں جو 1992ء سے پہلے سوویت یونین کا حصّہ تھے! روس دنیا کو یک قطبی
(Unipolar)
صورتِ حال سے باہر نکال کر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بھی امریکہ کے برابر کی طاقت ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال اُسے راس آ رہی ہے۔ امریکہ اگر بشارالاسد کے مستحکم ہونے کی بنا پر، بظاہر شکست خوردہ بھی لگ رہا ہے تو حقیقت میں کامیاب اور مسرور ہے اس لیے کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنا، امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے! اور یہ سب کو معلوم ہے!!
کیا کوئی سبیل ایسی ہے کہ یہ فرقہ وارانہ صف بندی ختم کی جا سکے؟ خطّے کے نقطۂ نظر سے مشرق بعید کے اسلامی ممالک (انڈونیشیا، ملائشیااور برونائی) غیر جانب دار ہیں۔ مگر ان ملکوں میں مہاتیر جیسا دماغ اب نا پید ہے۔ بنگلہ دیش کردار ادا کر سکتا تھا مگراس کی وزیراعظم کا ذہن اتنا ہی تنگ ہے جتنا قدیم فارسی شاعری میں محبوب کا دہانہ تنگ ہوتا تھا۔ ایک شے ’’او آئی سی‘‘ (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) ہوا کرتی تھی۔ جانے کس سیارے پر رہ رہی ہے!
کون ہے جو اُٹھے اور اِس خطرناک صورتِ حال کو سنبھالے، درجۂ حرارت کو کم کرے، ایرانیوں اور عربوں کو ایک میز پر بٹھائے! پاکستان کے پاس کبھی صاحبزادہ یعقوب خان اور آغا شاہی جیسی دانش مند ہستیاں ہوتی تھیں! اب بلبلوں اور قمریوں کی جگہ زاغ و زغن نے لے لی ہے! کیا علماء کرام کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں! اس لیے کہ ان میں سے جو درد مند دل رکھتے ہیں ، وہ گوشہ نشین اور گمنام ہیں! کوئی محمد اسد؟ کوئی ذوالفقار علی بھٹو؟ کوئی ذکی یمنی؟ ؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“