ایجنسیاں کن کو اٹھاتی ہیں
وہ بندہ کون تھا، ظاہر ہے میں نہیں بتا سکتا۔ مگر اتنا مان لیں کہ پاکستانی ایجنسیوں کے معاملات سے اندرونی سطح پر واقف تھا۔ موقع اچھا تھا میں نے سوال کر لیا، تم لوگ بندوں کو اٹھا لیتے ہو۔ جو بھی زرا اپنی اظہار رائے کی آزادی استعمال کرلیتا ہے۔
اس نے مجھ پر ایک فوجیانہ نظر ڈالی، جیسی اکثر وردی پر پھول لگائے ہم سویلینز کو دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے اس احمقانہ سوال پر دل ہی دل میں ہنس بھی رہا ہوگا۔ مگر چونکہ میرے بارے میں حسن ظن رکھتا تھا اس لیے جواب دینے پر آمادہ ہوا۔ تم کیا سمجھتے ہو ایجنسیاں تم جیسے ایک سوشل میڈیا پر لکھنے والے سے بھی کم علم اور بیوقوف ہیں؟ کسی بندے کے بارے میں رائے سیٹ کرنے سے پہلے تم اس کو گوگل کرتے ہو، اسکا پروفائل چیک کرتے ہو، پھر دائیں بائیں اپنے دوستوں سے بھی پوچھتے ہو، تب جا کر اس کے بارے میں فائنل رائے رکھتے ہو۔
کیا ہماری وہ ایجنسیاں جو دنیا میں پہلے دس نمبروں میں آتی ہیں، اور ہمارے دشمن انہی ایجنسیوں کی کارکردگی کی وجہ سے ہم پر ہاتھ ڈالنے سے خائف رہتے ہیں، وہ اتنی بیوقوف ہیں کہ ادھر ادھر کسی بھی آدمی کو یونہی اٹھاتی رہتی ہیں؟
پھر کیسے اٹھاتی ہیں؟ میں نے اپنی حماقت کو معصومیت بناتے ہوئے سوال دہرایا۔
دیکھو! دنیا میں کسی بھی ملک کی خفیہ ایجنسی کا ماٹو صرف ایک ہوتا ہے۔ اور وہ ہر قیمت پر اپنے ملک کے خلاف ہونے والی ایسی اندرونی یا بیرونی سازش کا پتہ لگانا اور اسکے ذمہ داران کو ٹریٹ کرنا۔ ٹریٹ ، مطلب، پکڑنا، کومبیٹ کی صورت میں مار دینا، یا فوجی عدالتوں کے حوالے کرنا وغیرہ۔ اس مقصد کے لیے ایجنسیوں کو جب یہ خبر ملتی ہے کہ فلاں شخص ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتا ہے، تو ہم اسکی نگرانی شروع کردیتے ہیں۔ اپنے تمام ذرائع استعمال کرنے کے بعد جب ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ اس مطلوبہ شخص کی حرکات ملک دشمنی کے ذیل میں آتی ہیں تو ہی ہم اس پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔
مگر میرا ایک دوست جو تین سال تمہارے کسی انویسٹیگیشن سیل میں گذار کر آیا ہے، اسکا جرم فقط یہ تھا کہ اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی، طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا تھا، اور سمجھتا تھا کہ پاکستان اور افغان جہاد اصل میں وہ جہاد ہے جو حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ بتاؤ اس کا کیا قصور تھا؟
بندہ ہنسا، داڑھی اور طالبان سے ہمدردی پر اٹھانے لگیں تو تمہارے دو صوبے خالی ہو جائیں اور باقی آدھے۔ وہ خود تمہیں کبھی نہیں بتائے گا کہ اصل بات کیا تھی۔ اسکا ملنا جلنا کہاں تھا؟ اور چندہ جمع کرنے کی آڑ میں ایسے لوگ کیا کرتے تھے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے حیرانی ہوئی کہ جس شخص کی میں نے بات کی تھی، وہ اصل میں اپنے آفس کے ایمپلائیز کو بھی "طالبانی جہاد" پر اکساتا رہتا تھا۔
مگر پھر بھی، پاکستان ایک آزاد ملک ہے، اس میں ہر بات کہنے کی آزادی ہونا چاہیے۔ نہیں؟ میں نے اصرار کیا۔
وہ بندہ ہنسا، اور ٹی وی کا ریموٹ میری جانب بڑھاتے ہوئے بولا، میرے اس ٹی وی پر پانچ سو کے قریب چینل آتے ہیں، دنیا بھر سے۔ پاکستان کے چینلز پر جو بحثیں ملکی سالمیت کے نام پر ہوتی ہیں، جس طرح کے سوال پبلک کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں اور جو پروپیگنڈہ دن رات اپنے ہی حساس اداروں کے خلاف کیا جاتا ہے، وہ اگر تمہیں دنیا کے کسی ملک کے چینل پر نظر آ جائے تو تمہارا سوال ٹھیک اور میرے سارے جواب غلط۔
ساری باتیں ٹھیک، مگر پھر تم لوگ کسی بندے کو کئی ماہ یا سال کی تحقیق کے بعد چھوڑ بھی تو دیتے ہو۔ مطلب کہیں نہ کہیں غلطی بھی ہوتی ہے۔
ہاں ہوتی ہے۔ جب کسی شخص کو انوسٹیگیٹ کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستانی اور محب وطن ہونے کے باوجود کسی پروپیگنڈہ وار کا آلہ کار بن گیا تھا۔ اسکی انوالومینٹ، نفسیاتی حالت، حب الوطنی اور غلطی کی گنجائش پر فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ بندے نے وضاحت کی۔
آخری بات، میں نے انگلی اٹھا کر کہا، یہ عدالتیں کس لیے ہیں؟ تمہیں مشکوک بندہ لگتا ہے، اسکو پکڑ کر عدالت میں پیش کردو۔ بس تمہارا کام ختم۔
اب اس نے مجھے "بلڈی سویلینز" والی نظر سے دیکھا، پھر کچھ سوچ کر اپنے چہرے کے تاثرات کو مسکراہٹ میں بدلا، افتخار چوہدری کو جانتے ہو؟ اس نے جتنے دہشتگرد بیگناہ جان کر چھوڑے ہیں، سب کو سزا مل جاتی تو آپریشن ضرب عضب کی شائد نوبت ہی نہ آتی۔ عام عدالت کا جج تو کسی محلے کے بدمعاش کو سزا دیتے ہوئے ڈرتا ہے یا پیسہ لے کر چھوڑ دیتا ہے، وہ کسی ایسے شخص کو کیسے سزا دے سکتا ہے، جس کو انڈائرکٹ انڈیا، افغانستان، یا کہیں اور سے سپورٹ حاصل ہو۔
میں اور سوال کرنا چاہتا تھا کہ اس نے موضوع بدل دیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“