پنجابی میں کہتے ہیں ۔
"اگے پچھے چنگے ۔۔دن دیہار مندے ”
بچے خوش تھے کہ ابے کی سالگرہ پہ دھوم دَھڑکا کریں گے ۔مگر نہ جی ۔
ان کے ابا سالگرہ سے پہلے ہی لنگڑاتے ہوئے گھر آگئے ۔
لوگوں کو بتاتے ہیں کہ موٹر سائکل سے سڑک پہ گرا ہوں ۔
مجھ سے پوچھیں تو موٹر سائکل سے سیدھے بیڈ پہ گرے ہیں.
سارا دن لیٹے لیٹے یہ پکا دو ۔یہ بنادو۔سنتے گذر جاتا ہے ۔
اب ذرا ہل کر کچن جانے لگے ہیں تو فریج میں پڑی ہر چیز کی شامت آگئی ۔
ہندی کہاوت ہے
"چھتیس بھوجن بَہتر روگ ”
لیکن ان کے بارے میں بہتر بھوجن اور ایک روگ والی کہاوت بنے گی.
مجال ہے کوئی چیز کھائے بنا جانے دیں ۔دووقت جو پکتا ہے،
وہ تو ہے ہی،مگر گھر آئے تحفے تحائف بھی نہیں چھوڑتے۔اسی لئے پیٹ بھی اب عجیب وکھرا سا دکھنے لگا ہے۔
ثمینہ فرخ میرے شہر میں رہتیں ہیں اور میں اس بات پہ خوش کہ ثمینہ کے شہر میں رہتی ہوں ۔
آئے روز کچھ نہ کچھ بھیجتی رہتی ہے ۔کچھ دن پہلے بہت سارے تحفوں کے ساتھ دو جیم ۔۔۔کے خوبصورت ڈبے بھیجے ۔ان کے بارے میں پوچھا،تو کہنے لگیں
” مہہ بانو کا سکردو میں دیس داستان کے نام سے ریزارٹ ہے،خوبصورت کمرے،حسین ترین منظر ساتھ ساتھ وہ آرگینک جیم جیلی اور سرکہ بھی بناکر آن لائن بیچتی ہے ۔”
پیکنگ اتنی خوبصورت تھی کہ میں نے جام۔۔۔کو فریج میں غائب کرنے میں ہی عافیت سمجھی.سوچا اطمینان سے کھا کر چیک کروں گی ۔آج اتوار کی صبح دھند اور بونداباندی سے سے بھری ہوئی تھی ۔ جی چاہا ڈبل روٹی پہ جیم لگا کرکافی کے ساتھ کھاؤں۔۔
دیکھا تو ایک جار آدھا خالی ۔
اور دوسرا مکمل غائب
کون کھاگیا ۔؟
پتہ چلا ہلکی ہلکی بھوک میں ہلکا بھاری سب چٹ کرنے والا۔۔۔
ڈبل روٹی پہ لگا کرکھاگیا ہے ۔ بندے کو سڑک سے چوٹ نہیں لگی ۔موٹاپے نے مارا ہے ۔
ورنہ گرے تو ساتھ ٹکرانے والے بھی تھے ۔
ہنستے ہوئے گھر چلے گئے ۔
یہ تین من وزن کے ساتھ سڑک پہ کھڈا بنا کر گھر آگئے ۔
یہ سوچ کر خوبانی کا جیم قابو کیا کہ جو بچا ہے وہ نہ لُٹ جائے ۔
دو پیس ڈبل روٹی کے درمیان خوبانی کا جیم لگایا ۔
مزیدار تھا ۔
شیلف لائف والے کمیکلز سے پاک ۔گلوکوز اور چینی کے شیرے کی جگہ نمی نمی مٹھاس ،اور نوخیز سی کھٹاس لئے خوبانی کی بھینی سی خوشبو معطر کرگئی ۔
فورا سمجھ آگیا کہ جیم کیسے ختم ہوا ہوگا ۔؟
روم میں وہی کرنا چاہئیے جو رومن رواج ہو ۔
ڈبل روٹی کے پیکٹ کو گانٹھ لگائی اور چمچ پکڑ لیا ۔
چٹخارے لے کر کھاتے ہوئے بس ایک ہی دکھ تھا کہ پتہ نہیں چیری والا جیم کتنے مزے کا ہوگا.
پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ منگوانے کیلئے لنک تو ہے ناں.
لنک پہ کلک کرکے جتنی حیرانی ہوئی سوچا آپ کو بھی کردوں.
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...