اگر زندگی میں تمہیں لیموں ملے ۔ ۔ ۔
زندگی میں ہر مرتبہ اچھا اچھا نہیں ہوتا۔ ایک محاورہ ہے کہ زندگی میں لیموں ملیں تو آدمی کو لیمونیڈ بنا لینا چاہیے۔ یعنی برے حالات سے کوئی اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے۔
حالیہ سیاست میں دو کردار ایسے ابھر کر سامنے آئے جن کو زندگی نے بدقسمتی سے لیموں پکڑا دیے مگر انہوں نے اپنی حسن نیت اور خلوص سے ان لیموؤں کو استعمال کرکے لیمونیڈ بنا ڈالی۔
پہلا کردار جمائما خان کا ہے۔ جو عمران خان کی پہلی بیوی ہیں۔ ابتدائے جوانی میں عشق ہوا ایک ایسے بندے سے جو شکل سے انگریز لگتا تھا مگر اندر سے پکا پاکستانی تھا۔ اوپر سے سیاست اور پاکستان کی سیاست۔ جس میں فضل الرحمٰن جیسے مولانا اور نواز شریف جیسے "معصوم صورت" کی عورت کے بارے رائے ایک ہی نکتے پر آ رکتی ہے۔ بددل و دل برداشتہ جمائما نے عمران خان سے علیحدگی کا کا مشکل فیصلہ کیا۔ مگر اس "لیموں" کو بعد کے سالوں میں عمران خان کے بچوں کو پالنے اور عمران خان کو ایک سابق شوہر کی حیثیت سے عزت دے کا جمائما نے لیمونیڈ میں بدل ڈالا۔ اور عمران خان سے علیحدگی کے باوجود کبھی اپنی اور عمران کی زاتی زندگی پر ایک حرف نہ کہا، اور ہر مشکل موقعے پر عمران خان کا ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ پندرہ سالہ پرانی رسیدیں بھی نکال کر لادیں۔ اور عمران کو "تھینک یو جمائما" کہنے کا ایک موقع اور دیا۔ ایک اجڑے رشتے، اور مشکل فیصلے کے لیموں سے دوبارہ دنیا کی نظر میں عزت پانے اور ایک باوقار خاتون بن کر ابھرنے کے اس سفر میں جمائما سرخرو ہوئی۔
دوسرا کردار جہانگیر ترین کا ہے۔ ایک کاروباری۔ جو زراعت اور فیکٹریاں لگا کر کامیاب کاروباری بنا۔ سیاست میں نہ آتا تو شائد اسکا "معمولی جرم" کبھی نظر میں نہ آتا۔ اسکروٹنی کی نذر ہوا۔ بجا طور پر اس نے ایک ایسی حرکت کی جو شائد کوئی بھی کاروباری منافع کمانے کے لیے کرتا مگر کاروباری جرم تھا۔ سزاوار ٹھہرا اور سیاست سے نااہل۔ اس نا اہلیت کے بعد کوئی بھی کاروباری نفع و نقصان کا اندازہ لگا کر پیچھے ہٹ جاتا کہ اس رستے میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ مگر ہزار طعنوں کے باوجود وہ عمران خان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اپنی دولت، اور اپنا وقت اور اثرورسوخ پی ٹی آئی کے لیے وقف کر دیا۔ اور پی ٹی آئی جیسی جماعت کے ممبران سے اپنے لیے دوبارہ عزت کمانے میں کامیاب ہوگیا۔ آہستہ آہستہ اس کی کوششیں رنگ لانے لگیں اور نااہلیت سے کھوئی عزت کو وہ پارٹی ممبران کی محبت میں بدل ڈالنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیموں سے لیمونیڈ بنانے کی دوسری مثال یہ ہے۔
یہ تحریر شائد مکمل نہ ہو، اگر دو اور ایسے کرداروں کا ذکر نہ کروں کہ جن کو زندگی لیموں کی بجائے شائد کچھ میٹھا اور بہتر دیتی ہے مگر وہ اس کو بھی ضائع کردیتے ہیں اور اپنے لیے کانٹوں کے علاوہ کچھ نہیں حاصل کر پاتے۔
پہلا کردار گلالئی کا ہے۔ جو اپنی سیاست کی ابتداء ہی میں نظروں میں آنے کے باعث ممبر قومی اسمبلی بن گئی۔ پی ٹی آئی جیسی نئی جماعت میں اس کے لیے امکانات کے وسیع میدان تھے۔ صلاحیت اور انرجی بھی تھی۔ مواقع بھی تھے۔ مگر ہل من مزید کا نعرہ لگانے والی گلالئی کے لیے یہ کم تھا۔ وہ خاتون اول بننے کے خواب دیکھنے لگی۔ اس میں ناکامی پر اسکا خیال تھا کہ "منظور نظر" ہونے کا کم سے کم معاوضہ من پسند حلقے کا ٹکٹ تو ہونا ہی چاہیے۔ جس سے انکار پر اس نے اپنے ہی محسن پر گندے پیغامات کا الزام لگا دیا۔ اور اپنے آپ کو مصلح اور قومی رہنما سمجھنے لگی۔ گھٹیا الزامات، پل پل بدلتے بیانات، عوام کو بیوقوف بنانے والی حرکات نے بالاخر گلالئی کو لیموں کا حقدار بھی نہ رہنے دیا۔ سوت بننے والی بڑھیا کی طرح جس نے اپنا ہی کاتا سوت ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
دوسرا کردار ریحام خان کا ہے۔ جس کو قدرت نے زندگی کے اس مرحلے پر جب کہ ایک عام عورت کسی سہارے کی متلاشی ہوتی ہے، ایسا موقع دیا کہ وہ اس ملک کی خاتون اول بننے کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے بچوں کے تمام خواب پورے کر سکتی تھی۔ مگر شائد وہ اتنی عزت کی حقدار نہیں تھی۔ اس نے صرف چند ماہ میں ایک ایسے شخص کو خود کو طلاق دینے پر "مجبور" کر دیا جو شائد اسکی شخصیت میں ایک ساتھی اور اصلاح کار ڈھونڈ رہا تھا۔ اسی پر بس نہ کی بلکہ اس کے بعد ایک کتاب میں اپنی ازدواجی زندگی کی وہ تمام معمولی معمولی تفصیلات کو چارج شیٹ بنا کر لکھ دیا جو شائد ایک گاؤں کی معمولی تعلیم یافتہ لڑکی بھی سمجھتی ہے کہ کبھی نہیں لکھنا چاہیے۔ ریحام خان ایک ایسا ہی کردار ثابت ہوا جو ساری زندگی قسمت کی دیوی کا انتظار کرتے ہیں، مگر جب دیوی انکے دروازے پر دستک دیتی ہے تو وہ دروازہ کھولنے کی بجائے گالیاں دینے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ باقی زندگی اپنی قسمت کو گالیاں دینے میں گذارتے ہیں۔ ریحام خان بھی شائد ایسا ہی کرنے والی ہے۔
تحریر لمبی ہوگئی۔ لیموؤں کی اس بات میں ایک خاتون کی بات رہ گئی، جو لیموؤں سے لیمونیڈ بنانے کے بعد قسمت کی دیوی کے لیے دروازہ کھولنے میں بھی کامیاب ہو گئی۔ اسکا معاملہ روحانی ہے یا انسانی ۔ ۔ ۔ یہ کہانی پھر سہی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“