اگر یہ چلن عام ہوگیا۔۔۔!!!
میں اور فراست صاحب 200 کلومیٹر کا سفر طے کرچکے تھے‘ پکی سڑک ختم ہوئی اور گاؤں کی کچی پگڈنڈی شروع ہوگئی۔ سفر کے آغاز میں ہم گاڑی سروس کروا کے نکلے تھے تاہم اب لگ رہا تھا جیسے گاڑی پانی کی بجائے مٹی سے سروس کروائی تھی۔ہم دونوں راستے سے لاعلم تھے‘ بس اِدھر اُدھر لوگوں سے پوچھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ اِس سفر کا محرک خود فراست صاحب تھے۔ عرصہ دوسال سے اُنہیں وہم ہوگیا تھا کہ اُن کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کئی نفسیات دانوں سے بھی رابطہ کیا لیکن تشفی نہ ہوسکی۔ بالآخر کسی نے بتایا کہ ساہیوال کے قریب کسی گاؤں میں ایک بابا جی رہتے ہیں ‘ بڑے پہنچے ہوئے ہیں اور پریشانیوں سے نجات دلانے میں ماہر ہیں۔ فراست صاحب نے مجھ سے فرمائش کی کہ وہ میرے ساتھ اُس بابے کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ دو سال میں پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اپنے دماغ کے بارے میں وہ بالکل بھی وہم کے شکار نہیں۔میرے لیے اُن کی بات رد کرنا ممکن نہیں تھا لہذا گاڑی میں بٹھایا اور بابے کے گاؤں چل دیے۔ اڑھائی گھنٹے کی مشقت کے بعدہمیں بالآخر بابا جی کا ڈیرہ مل ہی گیا۔وہاں ایک میلہ سا لگا ہوا تھا اور لوگوں کی تعداد دیکھ کراندازہ ہورہا تھا کہ ہماری باری اگلے دو ہفتوں تک بھی نہیں آئے گی۔ لیکن پھر ایک چمتکار ہوگیا۔بابا جی کے ایک مرید خاص میرے فین نکل آئے‘ انہوں نے نہ صرف مجھے پہچان لیا بلکہ بڑی خوشی سے بتایا کہ انہوں نے کبھی میرا کوئی کالم نہیں پڑھا لیکن تصویر ضرور دیکھی ہے۔اتنا ہی کافی تھا۔ میں نے اُن سے درخواست کی کہ ہم نے چونکہ آج ہی کی تاریخ میں واپس لاہور بھی پہنچنا ہے لہذا بابا جی سے ٹائم لے دیں۔ انہوں نے ایک منٹ نہیں لگایا اور ہمارا بلاوہ آگیا۔میں اور فراست صاحب بابا جی کے حجرے میں داخل ہوئے تو بابا جی ایک تخت پوش پر بیٹھے تھے‘ ہاتھ میں تسبیح اور سر پر ٹوپی۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائے ‘ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور مسئلہ پوچھا۔ فراست صاحب نے تفصیلاً اپنی پریشانی بتا دی۔ اس دوران بابا جی کے ہاتھ مسلسل تسبیح کرتے رہے۔ اچانک انہوں نے فراست صاحب کی طرف دیکھا اور باآواز بلند دو تین موٹی موٹی گالیاں نکال دیں۔ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ فراست صاحب نہایت شریف انسان ہیں‘ اتنی گندی گالیاں سن کر ان کا چہرہ سرخ ہوگیا لیکن بمشکل خود پر کنٹرول کرکے بیٹھے رہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بابا جی نے ایسی زبان کیوں استعمال کی۔ اس سے پہلے کہ میں اُن سے کچھ پوچھتا‘ انہوں نے فراست صاحب کی طرف منہ کرکے ’’د‘ ک‘ گ‘ ب‘ م‘‘ سے شروع ہونے والی تمام گالیاں بہترین تلفظ کے ساتھ پھر اُگل دیں۔سخت سردی میں بھی فراست صاحب کے چہرے پر پسینے کے قطرات نمودار ہوگئے۔ وہاں ہمارے علاوہ باباجی کے کچھ اور مریدیں اور میرا ’’ان پڑھ فین‘‘ بھی موجود تھا۔اس نے جلدی سے فراست صاحب کو اشارہ کیا کہ گالیوں کے جواب میں خاموش رہیں۔ کچھ دیر سکوت رہا۔ پھر بابا جی نے فراست صاحب کو اشارہ کیا‘ اپنے پاس بلایا اور بڑے پیار سے بولے’’یہ جو ہم نے تمہیں گالیاں دی ہیں‘ ان سے تمہارے اندر کاسارا غصہ ‘ سارا میل‘ ساری کدورت ختم‘ ۔۔۔جاؤ اب تمہارا ذہن اور من بھی صاف ہوگیا ہے۔‘‘ یہ سن کرفراست صاحب کی آنکھیں بھر آئیں‘ انہوں نے انتہائی عقیدت سے بابا جی کے پیر چھوئے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے’’میں آپ کا انتہائی مشکور ہوں بابا جی‘ آپ نے گالیوں کے ذریعے میری پریشانی دور کردی‘ میں آپ کی شان میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد خالص پنجابی گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔بابا جی کو ایک کرنٹ سا لگا‘ مریدین میں بھگدڑ مچ گئی۔میرے ہوش اڑ گئے۔ فراست صاحب انتہائی دلجمعی سے تابڑ توڑ گالیاں دیے جارہے تھے اور بابا جی غصے سے مٹھیاں بھینچ رہے تھے۔فراست صاحب کی گالیوں نے ریڈ لائن کراس کی تو بابا جی کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ پوری قوت سے گالیاں دیتے ہوئے چلائے’’دفع ہوجاؤ۔۔۔نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔‘‘ یہ سنتے ہی فراست صاحب یکدم چپ کرگئے‘ آہستہ سے بابا جی کے پاس آئے اور دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولے’’کیوں بابا جی!آپ کو کیوں غصہ آگیا‘ کیا آپ کا ذہن اور من صاف نہیں؟‘‘۔۔۔!!!
واپسی پر ہم کافی دیر ڈسکس کرتے رہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بظاہر اکثرنیک لوگوں کی زبانوں میں اتنی غلاظت کیوں بھری ہوتی ہے۔اِنہیں ہر حرام چیز کے بارے میں علم ہوتاہے ‘ سوائے غصے کے۔۔۔جس کے بارے میں صریحاً حرام کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی زبان پر دردو بھی ہواور گالی بھی؟یہ کس نیکی کا درس ہے؟یہ کون سی سنت پر عمل ہے؟ہاتھ میں تسبیح اور زبان میں زہر۔۔۔ثابت کیجئے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔اسوہ ء حسنہ ﷺ میں تو حلاوت نظر آتی ہے‘ مٹھاس نظر آتی ہے۔کوڑا پھینکنے والی عورت سے زیادہ کون لعن طعن کی مستحق تھی‘ لیکن زبان اقدس کے ذخیرہ میں تو وہ الفاظ موجود ہی نہیں تھے جو اخلاق سے گرے ہوئے ہوں۔تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو گالیوں کے ذریعے اسلام پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔کبھی کبھی تو ڈر لگنے لگتاہے کہ کیا میرے اور آپ جیسے لوگ بھی عاشق رسولﷺ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں یا یہ دعویٰ بھی چند مخصوص لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا؟کیا کوئی ایسا مسلمان بھی ہے جو عاشق رسولﷺ نہ ہو؟ہمارے تو ایمان اور عقیدے کی ابتداء ہی اِس عشق سے ہوتی ہے۔ہمارے لیے تو یہ بظاہر نیک لوگ ہی آئیڈیل ہیں جو مبلغ بھی ہیں اوراسلام کے داعی بھی۔ لیکن کیا ان کے حلق سے نکلنے والے بیہودہ ترین الفاظ کا ہمارے دین سے کوئی تعلق ہے؟ایک عام سادہ سا نیم خواندہ مسلمان ایک سال میں اتنی گالیاں نہیں نکالتا ہوگا جتنی یہ ایک دن میں نکال جاتے ہیں۔ ان کے یہی رویے مہذب لوگوں کو اسلام کے قریب اور اِن سے دور کر رہے ہیں۔یہ حق پر بھی ہوں تو اظہار ایسے بھونڈے طریقے سے کرتے ہیں کہ بندہ حیرت میں مبتلا ہوجاتاہے کہ کیا بات کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا تھا۔اِنہیں شائد اندازہ نہیں کہ جب یہ بولتے ہیں تو لوگ ان کی بات کتنے غور سے سنتے ہیں۔۔۔اور جب یہ اپنی گفتگو میں گالیوں کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا کیا اثر پڑتاہے۔یہی وجہ ہے کہ بظاہر یہ جتنا بڑا مرضی ہجوم اکٹھا کرلیں‘ الیکشن میں اسلام پسند لوگوں کی اکثریت اِن کے خلاف فیصلہ سنا دیتی ہے۔اِنہیں شائد اندازہ نہیں کہ جب یہ سپیکروں پر چنگاڑتے ہوئے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو آس پاس کے جن گھروں میں اِن کی آواز پہنچ رہی ہوتی ہے وہاں کی خواتین گھر کے ہر فرد سے نظریں چراکر کوئی ایسا کونا ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جہاں ان کی آواز کے شر سے بچا جاسکے۔گالی دینا بڑا آسان ہے‘ گلیوں ‘ محلوں‘ بازاروں میں ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں جو بات بات پر گالی نکالتے ہیں۔لیکن اِن لوگوں کو بھی جب احساس ہو کہ قرب و جوار میں کوئی خاتون گذر رہی ہے یا کسی کا گھر ہے تو یہ گالی روک لیتے ہیں یا کم ازکم آواز دھیمی کرلیتے ہیں۔لیکن ایسی گالیوں سے کیسے بچا جائے جو کان کی اندرونی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور گالی دینے والی زبان بھی وہ ہو جو ہر وقت سنت رسولﷺ کی پیروی کا درس دیتی ہو۔یہ چلن عام ہوگیا تو کہیں ایسا نہ ہوکہ جو جتنی گالیاں دے اُسے اُتنا ہی نیک انسان سمجھا جانے لگے۔۔۔!!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“