اگر وزیراعظم عمران خان کے گھر نہ جاتے
پہلا منظر:
بادشاہ گھوڑے پر سوار جا رہا تھا۔ نقیب آگے آگے تھا۔ چاروں طرف چوبدار تھے۔ شاہراہ کے دونوں طرف رعایا کھڑی تھی اور پولیس کے جوان انہیں راستے سے دور رکھنے کے لیے مستعد تھے۔ اچانک ایک بڑھیا ہجوم کو چیر کر آگے بڑھی۔ اس کا رُخ شاہی سواری کی طرف تھا۔ پہریداروں نے اُسے روک لیا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ بڑھیا کو آنے دو۔ بڑھیا آگے بڑھی۔ اس نے بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دیا اور رو پڑی۔ وہ بیوہ تھی۔ اس کی زرعی زمین پر جو اس کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ تھا‘ علاقے کے چودھری نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ فریاد کر رہی تھی کہ اس کی زمین واگزار کرائی جائے۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُسے موت یاد آ گئی۔ مرنے کے بعد اس سے رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اُس نے وزیر کو حکم دیا کہ دادرسی کی جائے اور یہ کام دارالحکومت میں شاہی سواری کے پہنچنے سے پہلے ہو جانا چاہیے۔ وزیر نے فوراً کوتوال کو حکم دیا۔ کوتوال نے موقع پر پہنچ کر مجرموں سے زمین کا قبضہ لے کر بڑھیا کو دیا۔
دوسرا منظر:
وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ملنے اُس کی رہائش گاہ پر جاتے ہیں۔ یہ رہائش گاہ ایوانِ وزیراعظم سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ گاڑی وزیرداخلہ چلا رہے ہیں۔ عمران خان اپنی پارٹی کے سینئر ارکان کے ہمراہ وزیراعظم کا استقبال کرتے ہیں۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان حالاتِ حاضرہ پر اہم بات چیت ہوتی ہے۔ وزیراعظم ملاقات کے دوران عمران خان کے گھر کی تعریف کرتے ہیں۔ گفتگو کو گھر کے موضوع پر آتا دیکھ کر عمران خان وزیراعظم کو بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے قریب نیشنل پارک ہے جس پر بااثر افراد نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم اپنے میر منشی کو‘ جو ان کے ہمراہ ہے‘ ہدایت دیتے ہیں کہ متعلقہ محکمے کو ضروری کارروائی کا حکم دیا جائے۔ ایک دن بعد دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا سب سے بڑا افسر عمران خان کے گھر پہنچتا ہے اور انہیں یقین دلاتا ہے کہ ناجائز قبضے کو ختم کرانا تو اس کے فرائض میں داخل ہے اور اس ضمن میں مطلوبہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
کیا آپ کو اِن دونوں منظروں کے درمیان کوئی چیز مشترک نظر آ رہی ہے؟
انصاف پسند حکمران؟… نہیں۔
فرماں بردار بیوروکریسی؟… نہیں۔
ان دونوں واقعات میں جو شے مشترک ہے وہ سسٹم کی ناکامی ہے۔ یہ نہیں کہ سسٹم موجود نہیں۔ پہلے منظر میں یہ کام گائوں کے متعلقہ تھانے کو کرنا چاہیے تھا‘ ورنہ علاقے کے کوتوال کو۔ اس کے بعد متعلقہ وزیر کا فرض تھا کہ ایسا ظلم نہ ہونے دے۔ ہوجائے تو دادرسی کرے۔ اگر بادشاہ نے ایک ایک بیوہ کی دادرسی خود کرنی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ سسٹم کام نہیں کر رہا۔
دوسرا واقعہ ہمارے اپنے زمانے کا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ عمران خان کے شہر میں ایک قوی ہیکل عظیم الجثہ ادارہ موجود ہے جسے ’’دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں افسر اور ہزاروں اہلکار بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ تنخواہ کے علاوہ ہر افسر اور ہر اہلکار کو پلاٹ بھی دیا جاتا ہے۔ اس ترقیاتی ادارے میں ایک بہت بڑا محکمہ جسے ’’انفورسمنٹ‘‘ کا محکمہ کہا جاتا ہے‘ صرف اس لیے بنایا گیا کہ لوگوں کو غلط کاموں سے روکے‘ ناجائز تعمیرات گرائے‘ ناروا قبضے چھڑائے۔ پارک شہریوں کے لیے اسی طرح ہوتا ہے جیسے پھیپھڑوں کے لیے آکسیجن۔ بچے اس میں کھیلتے ہیں۔ مرد اور عورتیں یہاں سیرو تفریح کے لیے آتی ہیں۔ پارک کا سبزہ‘ درخت‘ پودے‘ پھول‘ ماحول کو تازہ اور صاف رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ اس محکمے کے افسر اور ترقیاتی ادارے کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ ایک منظم طریقے سے شہر کا ہر حصہ خود دیکھے۔ روزانہ کی بنیاد پر مختلف سیکٹروں سے رپورٹ لے اور معلوم کرے کہ ظلم کہاں کہاں ہو رہا ہے اور قوانین کو کہاں کہاں توڑا جا رہا ہے۔
یہ ترقیاتی ادارہ ایک وزارت کے ماتحت ہے۔ اس وزارت میں گریڈ بائیس کا سیکرٹری بھاری مشاہرہ اور بھرپور سہولیات حکومت سے وصول کر رہا ہے۔ سیکرٹری کے اوپر وفاقی وزیر ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم تک یہ صورتِ حال پہنچانے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ
(1) ترقیاتی ادارے کا متعلقہ محکمہ اپنے فرائض نہیں سرانجام دے رہا۔
(2) ترقیاتی ادارے کا سربراہ اُس صورتِ حال سے غافل ہے یا لاپروا ہے جس صورتِ حال کو درست رکھنے کے لیے اُسے سربراہ بنایا گیا ہے۔
(3) متعلقہ وزارت کا سیکرٹری بھی اپنا کام نہیں کر رہا۔
(4) وزیر صاحب بھی اس مرض کے لیے کوئی دوا نہیں دے سکتے۔
سسٹم مکمل طور پر ناکام ہے۔ یہ ناکامی اور بھی زیادہ شرمناک ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سارے متعلقہ محکمے اور ان کے سربراہ اس پارک سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں‘ نتیجہ ہولناک ہے۔ مملکت کا وزیراعظم… جس کے سر پر ہزارہا بوجھ ہیں… دہشت گردی کا عفریت ہے‘ قحط ہے‘ خارجہ تعلقات کی تنی ہوئی رسّی ہے‘ روپے کی ہر لحظہ تبدیل ہوتی قدر ہے‘ بین الاقوامی تجارت کی باریکیاں ہیں… مملکت کا وزیراعظم ان سارے کاموں سے وقت نکال کر اپنے میر منشی کو حکم دیتا ہے کہ پارک سے ناجائز قبضہ چھڑوائے۔ وزیراعظم کی مداخلت پر ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو یاد آتا ہے کہ یہ تو اس کا فرضِ منصبی ہے۔ وہ عمران خا ن کے گھر حاضر ہوتا ہے۔ اگر سسٹم کام کر رہا ہوتا تو وزیراعظم کو مداخلت کرنا پڑتی نہ ادارے کے سربراہ کو سیاسی لیڈر کے گھر پر حاضر ہونا پڑتا۔
تو کیا وزیراعظم کا یہ حکم کہ ناجائز قبضے کو ختم کرایا جائے‘ سسٹم کو درست کرنے میں ممد ثابت ہوگا؟ نہیں! ہرگز نہیں! وزیراعظم جب اس کام میں پڑ ہی گئے تھے‘ اگر تتلی مارنے کے لیے توپ اٹھانی پڑ ہی گئی تھی تو ذمہ دار افراد کا تعین ضروری تھا۔ حکم یہ دیا جاتا کہ قبضہ کب ہوا؟ اُس وقت ترقیاتی ادارے کا سربراہ کون تھا؟ اس سربراہ سے پوچھا جاتا اور اُسے فرائض سے غفلت برتنے پر سزا دی جاتی۔ اس سے دوسرے محکموں کے سربراہ عبرت پکڑتے اور صورتِ حال میں بہتری آتی۔
گلی محلے کی زبان میں اس طریقِ کار کو ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی جب معلوم ہو جائے کہ کوئی کام غلط ہوا ہے تو اُسے درست کردیا جائے۔ اس مشقت میں پڑے بغیر کہ ذمہ دار کون ہے‘ تادیب ہے نہ عبرت…
ہم پاکستانی ازمنۂ وسطیٰ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔