ہر نوع کی ہر نسل اپنے میں سے بہترین کو پیکج کرتی ہے اور اس سے نئی، تازہ اور بہتر نسل تخلیق پاتی ہے۔ یہ چار ارب سال سے چلا آ رہا ہے۔ اس طریقے سے وہ یک خلوی زندگی جو بس کہیں چپک کر فوٹوسنتھسز کیا کرتی تھی، اس سے لے کر بے حد توانائی اور تصویر رکھنے والی ایسی مخلوقت تک پہنچنا ممکن ہوا ہے جو شاعری کرتی ہے، آرٹ تخلیق کرتی ہے، ایک دوسرے سے محبت رکھتی ہے اور خود اپنے اور اس کائنات کے بارے میں جاننے کے لئے تگ و دو کرتی ہے۔
پھر وہ نسل مر جاتی ہے۔
موت نے یہ زندگی اور ترقی کا چکر ممکن کیا ہے۔ کئی ملین سال پہلے بڑھاپا اور پھر موت کی دریافت نے جانداروں کو اس قابل بنایا کہ ایک نوع بڑھ سکے اور پھل پھول سکے کیونکہ وہ بچہ جو اپنے والدین سے بہتر ہو وہ نسل کا تسلسل رکھے گا۔ اس دوران والدین کے لئے اس کی راہ سے ہٹ جانا بہتر ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ ایک جاندار اپنے بچوں اور اس کے بچوں سے مقابلہ نہیں کرتا۔ موت اس کا طریقہ ہے۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ یہ خود خلیوں میں لکھی ہوئی ہے۔ ایک خود کو تباہ کر لینے والا سینسین پروگرام جو آپریشن بند کر دیتا ہے۔ نئی اور تازہ نسل کی راہ سے ہٹ جاتا ہے کہ وہ ہمارے بہترین جینز، بہترین آرٹ، بہترین خیالات کو آگے لے کر چلیں۔ چار ارب سال سے یہ طریقہ اپنا کام کر رہا ہے۔
کیا ہماری ذہانت اس اربوں سال پرانے طریقے کو بدل سکتی ہے؟ ہم اس کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی بھی نہیں مرنا چاہتا۔ موت سے چھٹکارے کی خواہش اور خواب ہم ہزاروں سال سے دیکھتے آئے ہیں۔ یہ خواہش ہمارے آرٹ اور کلچر میں بھی نظر آتی ہے اور سائنس میں بھی۔ موت سے خوف اور ہر ڈراونی اور خوفناک چیز کا تعلق موت کے ساتھ رہا ہے۔ اگر ہم اس کو فتح کر لیں تو زندگی کتنی بہتر ہو جائے گی۔
اس ہزاروں سال پرانے خواب کے پورا ہونے کا پچھلی نصف صدی میں پہلی بار امکان نظر آنا شروع ہوا۔ ہم نے وہ جین کو پڑھنے سے یہ دریافت کرنا شروع کیا جو بڑھاپے اور موت ریگولیٹ کیسے ہوتے ہیں۔ ہم نے جینز کی انجنئرنگ کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ ان میں جمع یا تفریق کیسے کی جائے، کیسے بدلا جائے، مختلف انواع کے درمیان ان کو کیسے بدلا جائے۔ ایک بار زندگی کی مدت کو ریگولیٹ کرنے کا مالیکیولر طریقہ پتہ لگ گیا تو پھر ہم نے سوچنا شروع کیا کہ کیا اس سے خود زندگی کی مدت بدلی جا سکتی ہے۔ ہم زچکی کے دوران اموات پر بڑی حد تک قابو پا چکے ہیں اور بچپن کی اموات بہت حد تک کم کر چکے ہیں۔ جراثیم سے ہونے والی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکے۔ کینسر، دل کی بیماریوں اور ڈیمنشیا پر کنٹرول کر سکنے کی کوشش کے ساتھ ہماری نظر جسم کی گھڑیوں پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس میں اضافہ کر پائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص جو ڈیڑھ سو سال زندگی پا لے، وہ پیدا ہو چکا ہو۔ اور اگر یہ ممکن ہو سکا تو پھر ڈیڑھ سو سال تک ہی بس کیوں۔ دو سو، تین سو یا پانچ سو سال کیوں نہیں؟
زندگی میں اضافے کا امکان کس قدر دلکش خیال ہے۔ شاید ہی کوئی اس سے اختلاف رکھے کہ صحت مند اور طویل عمر اچھی چیز ہے۔ ہم اپنے بچوں اور ان کے بچوں اور ان کے بچوں کو بڑا ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اپنے پسندیدہ مشغلوں میں وقت صرف کریں گے۔ کون ایسا نہیں چاہے گا۔
لیکن ذرا کچھ دیر کے لئے توقف۔ ہماری زندگی کی مدت کسی وجہ سے ہے۔ مختلف جانداروں کے زندگی کے دورانیوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مے فلائی کا ایک روز، گھریلو مکھی کا ایک ماہ، گالاپاگوس کے کچھوے کا سو سال اور اینٹارٹک سپنج کا ڈیڑھ ہزار سال عمر کا دورانیہ کسی وجہ سے ہیں۔ یہ دو چیزوں کے توازن کی وجہ سے ہیں۔ دورانیہ اتنا لمبا ہو کہ اگلی نسل کو بڑا کر سکیں مگر اتنے لمبا نہ ہو کہ اپنی اگلی نسل سے مقابلہ کرنا پڑے۔
ہم سب اپنے والدین سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جس میں نہ صرف آپ کے والدین زندہ ہوں بلکہ باق سب کے بھی اور ان کے بھی والدین اور ان کے بھی والدین۔ ایک ایسا معاشرہ چل رہا ہو جس کے خیالات اور رویے چار سو سال پرانے ہوں۔ آپ ایک نوکری کر رہے ہوں جس میں آپ کا باس اگلے ایک سو سال تک ریٹائر نہ ہو۔ خوراک، گھر، جگہ، ملازمت کے لئے کئی نسلوں کا آپس میں مقابلہ ہو۔ آپ سے چار سو سال بڑا شخص نوکری کے لئے آپ کے ساتھ انٹرویو دے رہا ہو، تجربے کا فرق ہو۔
ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم خود اور ہمارے پیارے زیادہ سے زیادہ زندہ رہیں۔ ہمیشہ کے لئے، اگر ممکن ہو۔ اس لئے انسانی زندگی کی مدت میں اضافے کے امکان کو سراہا جاتا ہے۔ موت سے خوف اور زندگی سے ہماری محبت اس قدر شدید ہے کہ اس پر سوال نہیں کیا جاتا کہ اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جین کی شناخت، ان سے کھیلنا اور ان کو اپنے مقصد کے لئے بدلنا، یہ کام ہم کر چکے ہیں۔ کیا زندگی کی مدت بڑھانا ممکن ہو گا؟ ابھی ہمیں اس کا علم نہیں لیکن یہ ناممکن نہیں۔
لیکن اگر ایسا ہو سکا تو کیا یہ اچھی چیز ہے؟ کیا چار ارب سال کا سبق غلط ہے؟ ہم اینٹارٹک سپنج نہیں اور نہ ہی بلیو گرین الجی ہیں۔ موت کی ایک وجہ ہے۔ تا کہ نئی اور نوجود نسل، ہماری بہتر ورژن، پھل پھول سکے۔ ہر جنازہ افسوسناک ہے ہے لیکن ساتھ ہی یہ ممکن کرتا ہے کہ نئی نسل نئی سوچ کے ساتھ نئی دنیا بنا سکے گی۔ اگر موت کو شکست ہو گئی تو کیا یہ زندگی کی بھی شکست ہو گی؟ میرے لئے یہ مستقبل کا ایک پریشان کن سوال ہے۔ اس جنگ میں میری ہمدردیاں موت کے ساتھ ہیں