بچپن کا یہ حق ہے کہ اس میں شرارتیں ہوں اور سوالات ہوں.. اور ہم عموماً اس حق سے بھی محروم ہی رکھے جاتے ہیں… شرارتیں کرنا برا سمجھا جاتا ہے اور سوالات کرنا گناہ… کوئی خوش قسمت ہو تو ہو جس نے مذہب خود چُنا ہو یا نہ چُنا ہو وگرنہ ہم پیدا بعد میں ہوتے ہیں اور مذہب ہمیں بہت پہلے چُن چکا ہوتا ہے…
شرارتی تو ہم تھے مگر ابا کی سختی کے آگے ہماری شرارتیں کہیں کونوں کھدروں میں گھس جاتی تھیں… موقع ملنے کی دیر ہوتی تھی اور ہم اپنی مزاح اور شرارتوں کی پٹاری سے جادوگر کی طرح کبھی تاش کے پتے نکالتے اور کبھی خرگوش… سکول میں پڑھائی کی وجہ سے بہت کم مگر شرارتوں کی وجہ سے ہم اکثر و بیشتر زیرِ ڈنڈا رہتے تھے.. یہاں تک کہ کلاس کے سب سے نالائق لڑکوں کے گروپ "شاہین گروپ" کا ہمیں لیڈر بھی بنایا گیا… فائدہ اس کا یہ ہوا کہ کبھی کبھار ہمارے حصے کی مار، ہمارے گروپ ممبران کھا لیتے تھے…
مگر سوالات و خیالات جو اندر اُبلتے تھے، ہم پوچھنے کی کوشش ایک دو بار کرنے اور ابا اور ماسٹر جی سے مار کھانے کے بعد، ان پہ ٹھنڈا برف پانی ڈالتے رہتے تھے…
ہمارے سوال اتنے بے ضرر تھے مگر جواب مار یا گالیوں کے علاوہ ملتا نہیں تھا… کئی دفعہ تو لگا کہ شاید ہمارے سوال کا اصل جواب گالی ہی ہے…
ساتویں جماعت میں تھے کہ عربی کے ماسٹر جی کی چھٹی کی وجہ سے ہم سب کتابیں کھولیں گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے.. ہمارے پی ٹی ماسٹر نے ہمارے پانچ پانچ لڑکوں کے گروپ بنا کے بٹھا دئیے تھے کہ مل کے پڑھو… خود سنگترے چھیل کے کھانے بیٹھ گئے…
تاشفین، معروف، وقاص، حامد اور میں، ہم پانچوں گراؤنڈ میں لگے درخت کے ساتھ بیٹھے کتابیں کھولے ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے.. ہم نے باقیوں سے کہا کہ کیوں نہ ایک سوال، کوئی سا بھی کیا جائے اور پانچوں باری باری جواب دیں… سب نے کتابیں سامنے زمین پہ رکھ دیں اور کہا کہ کرو سوال… دراصل یہ سوال ہمارے دماغ میں کافی دنوں سے تھا… ہم نے کہا، سوال یہ ہے کہ "اگر میں خدا ہوتا، تو کیا کرتا؟"….
سوال ہم بچوں کے لیے بہت مزیدار تھا… سب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور جواب سوچنے لگے…
تاشفین نے کہا کہ اگر وہ خدا ہوتا تو سورج صبح چھے سات کے بجائے دس گیارہ بجے نکالتا اور ایک دو بجے غروب کر دیتا، تا کہ سکول کا وقت بہت کم ہوتا…
معروف نے کافی سر کھجانے کے بعد کہا کہ اگر وہ خدا ہوتا تو پی ٹی ماسٹر سَر غفار کے دائیں ہاتھ کو فالج کرا دیتا.. ماسٹر غفار کا ہاتھ بہت وزنی تھا اور وہ مارتے بھی بہت زیادہ تھے.. اور معروف بیچارا میری طرح سوچتا بہت تھا، اور جواب دینے میں وقت لگاتا تھا…
حامد نے کافی سوچ بچار کے بعد کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسا سوچنا بھی بہت سخت گناہ ہے اور ساتھ اس نے دو چار کافی بڑی سزائیں بھی گنوا دیں..
وقاص گویا ہوا کہ اگر وہ خدا ہوتا تو کبھی بوڑھا نہ ہوتا، ہمیشہ جوان رہتا اور ساری فلمی اداکارئیں اس کے ارد گرد منڈلاتی پھرتیں… سنجے دت کی طرح لمبے بال ہوتے اور اس کی چال بھی سنجے دت جیسی ہوتی…
اب ہماری باری تھی… ہم نے کہا کہ "اگر میں خدا ہوتا تو موجودہ خدا سے ریسلنگ کرتا، پہلے Hulk Hogan کی طرح جان بوجھ کے خوب مار کھاتا پھر خدا جب مار مار کے تھک جاتا تو پھر میں اٹھتا اور ہلک ہوگن کی طرح مخصوص انداز میں ریسلنگ جیت جاتا اور اپنی مَری ہوئی ماں کو واپس"
ایک ٹھاہ کی آواز اور ہماری چیخ ایک ساتھ بلند ہوئیں، ایسا لگا جیسے کسی نے آگ میں تپا ہوا سریا پیٹھ میں گھسا دیا ہو، گوشت تک جلتا محسوس ہوا…جانے کب سے پی ٹی ماسٹر سَر غفار درخت کے پیچھے کھڑے سب سن رہے تھے…میں درد سے رو رہا تھا اور ماسٹر غفار اب کھینچ کھینچ کے تھپڑ مارے جاتے تھے اور "کر میرے ساتھ ریسلنگ، پہلے میرے ساتھ ریسلنگ کر" کہے جارہے تھے… میں منہ بازوؤں میں دبا کے لیٹ گیا اور دعا کرنے لگا کہ یہی وقت ہے، اللہ کرے معروف، خدا بن جائے اور پی ٹی ماسٹر کے دائیں ہاتھ کو فالج کروا دے…..