ہندوستان کا تو پتا نہیں لیکن ہمارے لوگ ایڈونچر کے اتنے شوقین ہیں کہ مجھے لگتا ہے اگر واقعی پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی تو لوگ فیملی کے ہمراہ ہنسی خوشی’جنگ دیکھنے‘ بارڈر کی طرف نکل جایا کریں گے۔65 ء کی جنگ دیکھنے والوں بھی کچھ ایسا ہی احوال بیان کرتے ہیں۔ایک دفعہ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ 1965 ء میں ان کی عمر 20 سال تھی، یعنی جوان تھے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو لاہور میں لوگوں کا یہ حال تھا کہ ہندوستان کے حملے کا سنتے ہی جس کے ہاتھ میں جو آیا وہ اٹھا کر واہگہ بارڈر کی طرف دوڑا۔ کسی کے ہاتھ میں ہاکی تھی، کوئی کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھائے ہوئے تھا اور کسی نے سریا اُٹھا لیا۔ ایک بابا جی جن کو کچھ نہ ملا تو انہوں نے جلدی میں اپنے گھرکے برآمدے میں لگی ’چق‘ کو زور سے کھینچا اور اس میں سے ایک ’کانہ ‘ نکال کر ڈنڈے کی طرح لہراتے ہوئے بارڈر کی طرف دوڑے۔ راستے میں نوجوانوں نے حیرت سے ان سے پوچھا کہ بابا جی آپ اس کانے سے دشمن کا کیا بگاڑلیں گے؟ بابا جی سینہ تان کر بولے’بے شک کچھ نہ بگاڑ سکوں لیکن مرنے سے پہلے اتنا سکون ضرور رہے گا کہ میں نے وطن کی حفاظت کے لیے دشمن کے حملے کو روکا تو سہی‘
میڈیا میں پاک بھارت جنگ متوقع جنگ کی جو خبریں آرہی ہیں انہیں دیکھ کر لگتاہے جیسے جنگ بس شروع ہوا ہی چاہتی ہے۔میڈیا کے لیے جنگ بہت مفید ہے، اس لیے بھی کہ میڈیا کو نیا ایشو مل گیا ہے، جنگ نہ ہوئی تو میڈیا کی ریٹنگ بھی نہیں بڑھ سکے گی، یہ حال دونوں طرف کا ہے،ویسے تو میڈیا کے ذریعے ’ثقافتی جنگ‘ کافی عرصے سے شروع ہے لیکن اس جنگ کو ہم نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ اب بھی یہی حال ہے، ایک طرف ہم انڈیا کے خلاف جذباتی نعرے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف گھروں میں آج بھی پرائم ٹائم میں صرف انڈیا کے چینل ہی دیکھے جاتے ہیں۔
میں تو کئی ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے 14 اگست کی رات آزادی کا جشن منایا اور انڈین گانوں پر خوب ہلہ گلہ کیا۔یہ عجیب نفرت ہے۔ نفرت تو یہ ہوتی ہے کہ جس سے ایک دفعہ ہوجائے اس سے وابستہ ہر چیز قابل نفرت بن جاتی ہے لیکن شائد دور بدل گیا ہے، اب صرف جنگ کی حد تک ہمیں انڈیا سے نفرت ہے ورنہ اس کی فلمیں اور ڈرامے ہمیں نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ کبھی کبھی تو لگتاہے اگر خدانخواستہ جنگ شروع ہوگئی اور انڈیا کے چینلوں پر پابندی لگ گئی تو ہماری کئی خواتین صدمے سے کومے میں چلی جائیں گی۔پرانا لطیفہ ہے کہ جارج بش نے اعلان کیا کہ پانچ ہزار پاکستانیوں اور مادھوری ڈکشٹ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، ایک پاکستانی جلدی سے بولا’مادھوری ڈکشٹ کو کیوں؟‘‘
بش نے مسکرا کر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا’’میں نے کہا تھا ناں، اِنہیں اپنے ہم وطنوں کے مرنے سے زیادہ انڈین ہیروئین کی فکر ہوگی۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہ ہونے والی جنگ اگر شروع ہوجاتی ہے تو پھر پاکستانیوں کو اورکچھ نہیں سوجھے گا، پھر یہاں کوئی ن لیگ اور تحریک انصاف نہیں ہوگی، پھر دنیا کو ’’محمود و ایاز‘‘ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں گے ، لیکن یہ کیفیت صرف جنگ تک ہی کیوں، عام حالات میں ہم ساتھ ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ کیوں ایسا ہے کہ کوئی بڑا وقوعہ ہی ہمیں اکٹھا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ اس کی مثال ہے جب یکدم ہمیں لگا تھا کہ ہمیں آپس کے اختلافات بھلا دینے چاہئیں۔ لیکن یہ کیفیت صرف لمحاتی ہوتی ہے، جونہی ہم نارمل زندگی کی طرف لوٹتے ہیں ، ہمیں سارے پرانے حساب یاد آجاتے ہیں۔سو طے ہوا کہ انڈیا کے خلاف تو ہم سب ایک ہیں لیکن اگر انڈیا درمیان میں نہ آئے تو ہم ایک دوسرے کی تکا بوٹی کرنے کے لیے خود ہی کافی ہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ پاک انڈیا جنگ ہوگی، ہندوبنیا حساب کا پکا ہے، اسے پتا ہے کہ جنگ شروع کرنے کا مطلب کیا ہوگا۔ جنگ بربادی کو جنم دیتی ہے اور بربادی بانجھ پن کا سبب بنتی ہے،دنیا بھر میں جنگوں کا روایتی تصور ختم ہوتا جارہا ہے، اب جنگ انٹرنیٹ پر ہوتی ہے ،ٹی وی پر ہوتی ہے ، ثقافتی محاظ پر ہوتی ہے۔روایتی جنگ میں دونوں طرف کا نقصان ہوتاہے لہذا نسلوں کی نسلیں اس کے اثرات میں لپیٹی جاتی ہیں۔
دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں، دونوں کے پاس بیلنس آف پاور موجود ہے، دونوں جانتے ہیں کہ ایک طرف سے بم چلا تو دوسری طرف سے ایک نہیں ایک سو بم چل جائیں گے۔سننے میں آرہا ہے کہ انڈیا مکمل جنگ کی بجائے سرجیکل سٹرائیک کرسکتا ہے، سرجیکل سٹرائیک سے مراد ہے کہ وہ مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ کوئی معاہدہ ہے کہ ہم سرجیکل سٹرائیک کریں گے تو آپ کو بھی سرجیکل سٹرائیک ہی کرنا ہوگی؟ یہ بالکل ایسے ہے کہ راہ چلتے آپ کو کوئی ایک آدمی تھپڑ مار دے اور آپ جواب میں اس کو بیس تھپڑ، چالیس گھونسے اور بارہ ٹکریں ماریں ۔۔۔اور وہ رو رو کرسب کو بتائے کہ میں نے تو صرف ایک تھپڑ مارا تھا، انہوں نے مجھ پر تشدد کی انتہا کر دی ہے۔ سیدھا سا جواب ہے، آپ اگر کسی کو اپنی مرضی سے ایک تھپڑ ماریں گے تو وہ اپنی مرضی سے آپ کا بیڑا بھی غرق کر سکتا ہے۔ انڈیا کی طرف سے پہلا وار ہوا تو یہ اس بات کی اجازت ہوگی کہ اب پاکستان بھی اپنا ہر حق استعمال کر سکتاہے۔
اگر تو انڈیا واقعی پاکستان پر جارحیت کرنا چاہتا ہے تو ’اڑی‘ کا حملہ تو دور کی بات ، وہ 65 ء کی جنگ کو ہی جواز بنا کر حملہ کر سکتا ہے، لیکن اگر اس کے اندر تھوڑی سی بھی عقل ہے تو اسے ضرور سوچنا چاہیے کہ جب اس نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو پاکستان نے بھی پوری دنیا کے دباؤ کے باوجود اپنی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کردیا تھا۔ اب اگر اس نے حملہ کیا تو برصغیر کا نقشہ کیا ہوگا؟ جنگ کے نتیجے میں معاملات ٹھیک ہوجائیں گے یا کوئی بچے گا؟ ایک عمارت گرجائے تو اسے دوبارہ تعمیر کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں، ذرا تصور کیجئے کہ جنگ کے بعد دونوں ملک کتنے سال پیچھے جاپڑیں گے۔
ایسا تو ممکن نہیں کہ انڈیا حملہ کرے اور ہم یہ سوچ کر خاموش رہیں کہ جنگ سے تو دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے، تب تو جواب بلکہ بھرپور جواب لازم ہوجائے گا، لیکن ذمہ داری جنگ کی ابتداء کرنے والوں پر عائد ہوگی۔ پاکستان 65 ء سے دفاعی پوزیشن پر رہا ہے، یہاں سے کبھی انڈیا پر ہلہ نہیں بولا گیا،ہمیں جب بھی اطلاع ملی انڈیا کے حملے کی ملی، ہماری سرحدوں کو جب بھی خطرہ لاحق ہوا ، انڈیا کی طرف سے ہی ہوا، ہمیں تو ایٹمی طاقت بھی انڈیا کی وجہ سے ہی بننا پڑا ورنہ افغانستان، چین اور ایران کی طرف سے تو مکمل اطمینان تھا۔ بدقسمتی سے انڈیا بھی ہمارا ہمسایہ ہے اوروہ ہمسائیہ ہے جو کبھی اپنے ہمسائے کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ حملہ ہوا تو انڈیا کی طرف سے ہی ہوگا اور بالفرض اگر ایسا ہوا تو یاد رکھئے ، پاکستان کی فوج22 کروڑ شمار ہوگی کیونکہ میرے جیسے کمزور بھی کوئی ڈنڈا سوٹا پکڑ کر سرحدوں پر پہنچ جائیں گے۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“