بہتا ہوا پانی صاف ہے۔ اُسے پیتے بھی ہیں۔ اُس سے وضو بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’آبِ رواں‘‘ ادب میں ہمیشہ خوشگوار علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے ؎
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
ٹھہرا ہوا پانی آخر کار تعفّن کا منبع بنتا ہے۔ اُس سے بیماریاں نکلتی ہیں۔ اس میں بیماریاں پھیلانے والے کیڑے پرورش پاتے ہیں۔ لوگ وہاں سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی حال سوالات کا ہے۔ جس معاشرے میں سوالات کرنے کی آزادی ہو اور سوالوں کے جواب دینے کا کلچر ہو، وہ بہتے پانی کی طرح صاف ہوتا ہے۔ وہاں بدبو کا بسیرا ہوتا ہے نہ غلیظ کیڑے مکوڑے پرورش پا سکتے ہیں، مکالمہ جاری رہتا ہے۔ مغالطے پیدا ہوتے ہیں تو رفع بھی ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ شخصیات نہیں بلکہ آئیڈیاز کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں۔ ان معاشروں کا ایک طرۂ امتیاز برداشت بھی ہے۔ سوالات جیسے بھی ہوں‘ کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ برداشت کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جوابات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے تو چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور عقلی حوالے سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں مکالمے کا کلچر نہ ہو اور سوالات پوچھنے کی آزادی نہ ہو وہ ٹھہرے ہوئے پانی کے مانند متعفن ہو جاتا ہے۔ ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات باہر نہیں آ پاتے تو تخریب کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے معاشرے پر عدم برداشت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں اور بات کرنے سے پہلے اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں۔ یہی وہ ماحول ہے جس کے بارے میں ’’دیوار ہم گوش دارد‘‘ کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ تار و پود بکھر جاتا ہے۔ ’’تمّت‘‘ کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ یہ تمّت بالخیر نہیں ہوتی! اور منظرنامہ کچھ اس قسم کا ہو جاتا ہے ؎
نعرے، ہجوم، گولیاں، لاشے، لہو، تڑپ
گھر سے نکل کے دیکھ‘ بڑی چہل پہل ہے
آج کا پاکستانی معاشرہ ٹھہرا ہوا پانی ہے۔ اس میں لاکھوں کروڑوں ڈینگی مچھر پرورش پا رہے ہیں۔ مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ذہنوں میں سوالات کا انبار ہے۔ افسوس! یہ سوالات دن کی روشنی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ پوچھے جا سکتے ہیں نہ کسی میں ان کا جواب سننے کا حوصلہ ہے۔ تیر و تبر اور خنجر و شمشیر کو زندگی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ چوراہوں پر میزائل نصب ہیں۔ گھروں میں دیواروں پر تلواریں سجی ہیں۔ بندوقوں‘ مشین گنوں‘ توپوں اور بمبار جہازوں کے ماڈل ڈرائنگ روموں میں سجاوٹ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ بچے ہوش سنبھالتے ہیں تو جو نعرے اُن کے کانوں میں پڑتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں۔ ’’لے کے رہیں گے، ماریں گے، مر جائیں گے، تباہ کر دیں گے، کڑا کے نکال دیں گے‘‘ ملک کا حال یہ ہے کہ انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ توانائی عنقا ہے‘ اندھیروں کا راج ہے‘ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم‘ غریب کو موت کی طرف دھکیل رہی ہے اور امیر کے کارخانے اور محلات بیرون ملک پھیل رہے ہیں لیکن پسے ہوئے مفلوک الحال عوام کو کوئی تو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ جلد فلاں قلعے پر ہمارا پرچم لہرا رہا ہوگا اور کوئی اسّی سال کا ہو کر بھی ایک ہی سبق سکھانے پر تُلا ہوا ہے کہ ایٹم بم چلا دو!
آیئے‘ آج ہمت کرکے ذہنوں میں اُٹھنے والے اِن سوالات میں سے کم از کم چند کا تو سامنا کریں۔
ہم میں سے کچھ کا پسندیدہ ملک سعودی عرب ہے اور کچھ کا ایران۔ مگر جو کچھ ہمارے ہاں کھلے عام ہو رہا ہے، اُس کی اُن ملکوں میں کیوں اجازت نہیں؟ کیا سعودی عرب اور ایران میں عقائد کی بنیاد پر گروہ بنانا ممکن ہے؟ کیا وہاں اہلِ سنت والجماعت‘ تنظیم اہلِ حدیث‘ سپاہِ محمد‘ سپاہِ صحابہ‘ وحدت المسلمین‘ جمعیۃ العلماء پاکستان اور جمعیۃ العلماء اسلام جیسی تنظیمیں بنانے اور چلانے کی اجازت ہے؟ کیا ایران میں سنیوں کی الگ مسجدیں موجود ہیں؟ آج تک اُن ملکوں پر کسی نے اس بنیاد پر کفر یا الحاد کا الزام نہیں لگایا کہ وہاں اس قبیل کی تنظیموں کا وجود تو کیا‘ محض سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ تو پھر یہ سب کچھ ہمارے ہاں کیوں ہو رہا ہے؟
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قائداعظمؒ کی شخصیت میں سحر اور کرشماتی اثر تھا۔ عوام انگریزی سے نابلد تھے لیکن پھر بھی دم بخود ہو کر ان کی تقریریں سنتے تھے۔ تو پھر یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈیوں اور ملکہ کی پرستش کرنے والے جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں کیوں لایا گیا؟ آخر مسلم لیگ کی کون سی مجبوری تھی کہ بے پناہ مقبولیت کے باوصف وہ یونینسٹ پارٹی کی محتاج ہو گئی؟
تقسیمِ ہند کے تین سال بعد بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئیں۔ یہ اصلاحات اس طرح کی نہیں تھیں کہ جاگیریں نوکروں یا غریب رشتہ داروں کے نام کرا کر پاس ہی رکھ لی گئیں۔ یہ اصلاحات حقیقی اصلاحات تھیں۔ فی کس زرعی زمین بھارت میں اس قدر کم ہے کہ پاکستان میں اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ یہ اصلاحات پاکستان میں نافذ نہ کی جا سکیں۔ یہاں آج بھی اتنے بڑے بڑے جاگیردار‘ زمیندار اور سردار ہیں کہ جیپ چلتی رہے‘ چلتی رہے‘ چلتی رہے‘ پھر بھی جاگیر نہیں ختم ہوتی!
کیا قائداعظمؒ کی کسی تقریر میں‘ تقسیم سے پہلے یا بعد‘ زرعی اصلاحات کا ذکر ہوا ہے؟ کیا کسی کو معلوم ہے کہ قائداعظمؒ کے ذہن میں زرعی اصلاحات کا کیا پلان تھا؟ تھا بھی کہ نہیں؟
ملک پر اُن گروہوں کی حکومت کیوں ہے جو فخر سے‘ چھاتی پر ہاتھ مار کر‘ کہتے ہیں کہ ہم یہ ملک بنانے کے گناہ میں شامل نہیں؟ آخر یہ لوگ اقتدار کے کیک سے اتنا بڑا ٹکڑا لینے میں کیونکر کامیاب ہو گئے؟
ہمارا ملک بننے کے صرف چوبیس سال بعد ٹوٹ کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ یہ بٹوارہ اتنا ہولناک تھا کہ پچانوے ہزار جنگی قیدی بھارت کے ہاتھ لگے۔ اسلامی تاریخ میں غالباً ایسی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ باقی ماندہ پاکستان میں جو کشت و خون ہو رہا ہے‘ شرم ناک ہے اور عبرت ناک بھی۔ کوئٹہ‘ کراچی‘ پشاور موت کے گڑھ بن چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت کر رہے ہیں اور اربوں روپے کا سرمایہ دوسرے ملکوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ افق پر روشنی کی کوئی لکیر نہیں نظر آ رہی۔ کیا پھر بھی ہم ناکام ریاست نہیں ہیں؟ تو پھر دنیا بھر کے دانشور‘ جن میں مسلمان ملکوں کے دانشور بھی شامل ہیں‘ پاکستان کو کامیاب ریاست کہنے سے ہچکچاتے کیوں ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم پر وہ لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جو اخلاقی اور مالی برائیوں کے گٹھڑ ہیں؟ ترقی یافتہ ملکوں میں‘ جو مسلمان ہی نہیں‘ آخر اُن حکمرانوں کو کیوں نہیں برداشت کیا جاتا جو جھوٹ بولتے ہیں اور مالی اور اخلاقی برائیوں میں (جو اُن معاشروں میں برائیاں سمجھی جاتی ہیں) مبتلا پائے جاتے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم‘ بحیثیت قوم‘ بادشاہ پرست ہیں اور جمہوریت ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی؟ بیس پچیس سالہ بلاول کے حضور وہ سیاست دان دست بستہ ہیں جن کی عمریں اِس میدان میں گزر گئیں۔ حمزہ شہباز اور مونس الٰہی اُن کرسیوں پر رونق افروز ہیں جہاں چالیس چالیس سال آبلہ پائی کرنے والے سیاست دان نہیں پہنچ سکے۔ کراچی کے عوام‘ کیا مرد اور کیا عورتیں‘ جس مکمل اطاعت اور آمنّا و صدقنا کے ساتھ‘ فرش پر آلتی پالتی مارے‘ ہزاروں میل دُور سے کی جانے والی تقریریں سنتے ہیں‘ کیا جبر و قدر کی اُس حالت سے مختلف ہے جو مغل درباروں میں رائج تھی؟
یہ وہ چند سوالات ہیں جو پاکستان کے حوالے سے ذہنوں میں اٹھتے ہیں اور جواب نہیں پاتے‘ نہ پسند ہی کیے جاتے ہیں۔ اگلی نشست میں ہم چند ایسے سوالات اٹھائیں گے جو عالمِ اسلام سے متعلق ہیں۔