اگر ابراہیم کی کہانی پر دوبارہ غور کرنا پڑے۔
کیا ایک سچا خدا آپ کا آپکی پرہیزگاری کو ثابت کرنے کے لیے جانوروں کے خون کی تلاش کرے گا یا “اپنے میمنے کی قربانی” کا مطلب کچھ اور ہے؟
میرا ماننا ہے کہ ہمیں پرانے مذہبی طریقوں اور صحیفوں کو نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
میرے نزدیک قربانی کو جانوروں کے قتل سے جوڑنا سمجھنے کی ایک بڑی سخت غلطی ہے اور میں ذیل میں اپنی وجوہات بتاتا ہوں:
تمام مذاہب کے احکام، صحیفے اور کہانیاں بنیادی رہنما اصول دینے کے لیے تھیں۔ اصولوں کی تشریح اور نفاذ کا انحصار اس زمانے کے حالات پر ہے۔مثال کے طور پر، قرون وسطی کے مواصلات اور جنگ کے طریقوں جیسے گھوڑے، خط، ہاتھی، میسنجر کبوتر، کی جگہ گاڑیاں، فون، ٹینک، ای میل/موبائل میسجنگ وغیرہ نے لے لی ہے۔اب آرٹلری رجمنٹ ٹینکوں اور میزائلوں پر مشتمل ہے نہ کہ ہاتھیوں اور گھوڑوں پر۔
اسی طرح، حضرت ابراہیم 5,000 سال پہلے قرون وسطی کے عراق اور یروشلم میں رہتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے یہ بتایا کہ خدا نے ایک میمنے کی قربانی کا حکم دیا ہے (جو استطاعت رکھتا ہے)، یہ 5,000 سال پرانے معاشی ڈھانچے میں اس وقت کےکے لوگوں کی سمجھ کے حساب سے تھا کہ کیونکہ اس لوگوں کا زیادہ تر مال و دولت انکے مویشیوں کا پیمانہ تھا۔یہ جانور،مویشی آج سے بہت پہلے تک ایک قیمتی ملکیت تصور کیا جاتے تھے۔آج کی موجودہ تمثیلوں کے حساب میں، یہ فیکٹری کے گودام میں برآمد کے لیے تیار اسٹاک کی طرح تھا، بچت بینک اکاؤنٹ میں رقم، اسٹاک ایکسچینج میں حصص، کرایہ کی رہائش کا ایک بلاک وغیرہ جیسے آپ سوچ سکتے ہیں ۔
اس لیے اس وقت جانور کی قربانی کرنا، بینک اکاؤنٹ سے ڈالر خرچ کرنے کے مترادف تھا۔ بھیڑ کے بچے کو مارنا اور اس کا گوشت ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹنا ،غریبوں کے ساتھ مال بانٹنے کے مترادف تھا۔اس وقت انسانیت کی اکثریت کا بنیادی مسئلہ بھوک تھا۔ عرب کی قرون وسطیٰ کی معیشت میں بھیڑ کے بچے کی قربانی کا مطلب لوگوں کی بھوک مٹانا تھا۔
اب کون سا میمنا قربان کرنا ہے؟
قربانی کا طریقہ جو 5,000 یا اس سے بھی بعد میں 1,000 سال پہلےجو معنی رکھتا تھا اب بالکل وہ مطلب بے معنی ہے۔زیادہ تر انسانیت بھوک اور اس سر پر لٹکی ہوئی بھوک کے خطرے سے باہر ہے۔ہاں اب جن مسائل کا سامنا ہے ان میں صحت، تعلیم، ماحولیاتی انحطاط، روزگار، مواصلات، توانائی وغیرہ ہیں۔اب حکومتیں قومی ریاست کی دولت کو کنٹرول کرتی ہیں۔
اب ایک انتہائی امیر کبیر و سخی فرد بھی صرف صدقے خیرات یا انسان دوستی، مال کے خرچ و دان و بھینٹ کے ذریعے معاشرے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لا سکتا۔
ایک جدید ریاست میں، یہ حکومت ہے جو اب محاورتا “قربانی کے میمنے” کو کنٹرول کرتی ہے۔ قربانی کا مطلب قومی خزانے سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی دولت خرچ کرنا ہوگا۔ اور ٹیکسیشن، ریونیو اور فائدے کے نظام کو معقول بنانے سے یہ تبدیلی آئے گی، معاشرے میں فلاح و بہبود قائم ہوگی۔
امت اسلامیہ کو اپنے نظریے کو ازسرنو ایجاد کرنے اور اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب حصص، اسٹاک، بینک اکاؤنٹس، زمینوں کی ملکیت، قومی دولت، مساوی ٹیکس وغیرہ ایک مساوی اور منصفانہ معاشرے کے لیے قربان کیے جانے والے نئے بھیڑ کے بچے ہیں جس کا تصور تمام مفکرین، انبیاء، مشائخ اور مصلحین نے کیا تھا۔
اب وقت یہی ہے کہ مذہبی صحیفوں کے معنوں کو انکے الفاظ میں نہیں بلکہ انکے مفہوم میں سمجھا جائے، تبھی آج کل کے مسلمانوں پر چھائی ہوئی زوال کی گھٹاچھٹ سکتی ہے اور شائد وہی یہ امت عروج کا دور دیکھ سکے گی جو اس نے کبھی دیکھا تھا۔
(خالد عمر صاحب کے ایک انگلش آرٹیکل کا ترجمہ)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...