ان دنوں چچا کی کھاٹ کے اطراف جمع ہونے والی پبلک اور چچا کے درمیان اس موضوع پر بات ہونے لگی کہ اگر چچا وزیر اعظم بن گئے ، تو کیا کیا کریں گے ؟ اور چچا روزانہ اس تعلق سے اپنے پروگرام کے بارے میں بتاتے رہتے ۔ملاحظہ فرمائیں ’’ میں اگر اس ملک کا وزیرِ اعظم بن گیا …تو سب سے پہلے رشوت خوروں اوربد عنوان افسروں کو یا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دوں گا یا انہیں معطل کر دوں گا اور پھر بھی نہیں مانے ، تو بھاری رشوت دے کر انہیں عہدے سے ہٹا دوں گا(؟)‘‘ چچا نے سیاست کے تعلق سے مزید اپنی معلومات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ۔’’ اس ملک میں چونکہ ہر شہری کو چناؤ لڑنے کا حق ہے اور جیتنے کے بعد اسے اپنے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں ۔جیسے مثال کے طور پر کارپوریشن کاالیکشن جیت کر جو نمایندہ منتخب ہوتا ہے، وہ نگر سیوک کہلاتا ہے ، مگر چونکہ آج کل کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم پڑھے لکھے اورمجرمانہ ذہنیت والے لوگ بھی نگر سیوک بن جاتے ہیں ، نگر سیوک ہی کیا ،مختلف وزارتوں کے وزیر بھی بن جاتے ہیں ۔اور اس کے بعد وہ اپنے فرائض کی انجام دہی بالکل ویسے ہی کرتے ہیں ، جیسے ان کا روز مرہ ہوتا ہے ۔وہ نگر کی سیوا کم کرتے ہیں اور اپنی سیوا زیادہ کرواتے ہیں ۔ انہیں ’’ بھائی ‘‘ کہلانے کا بڑا شوق ہوتا ہے ۔ لہٰذا وہ اپنا یہ شوق پورا کرتے نظر آتے ہیں ۔‘‘ چچا چناؤ کے طریقوں سے مطمئن نہیں ہیں ، اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں ۔کسی اسکول کے چپراسی کو بھی کم سے کم بارہویں پاس ہونا لازم ہے اور ۵۸؍ برس کی عمر میں ریٹائر کر دیا جاتا ہے ۔ اعلا تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے ، مگر ملک کا نظام چلانے والوں کی تعلیمی قابلیت یا عمر کی کوئی قید نہیں ہے ، کسی بھی عمر اور ناخواندہ مرد یا خاتون سیاست اور وزارت کے کسی بھی عہدے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں ۔ میں اس طریقے کے سخت خلاف ہوں ، اس میں اس طرح تبدیلی لائی جا سکتی ہے کہ کسی بھی چناؤ میں شریک ہونے کے لیے کم از کم گریجویٹ لازم اور وزارت کے لیے اسی شعبے سے تعلیم حاصل کیا ہوا گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہی چناؤ لڑ سکے گا، تبھی تو سدھار آ ئے گا ۔‘‘ چچا نے خواتین کی مختص سیٹ پر ہونے والے چناؤ کے حشر پر بھی اپنے زرین خیالات کا اظہار کیا۔’’ اکثر لوگ اپنی بیویوں کو الیکشن میں کھڑا کرتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی بیویاں منظر سے اس طرح غائب ہو جاتی ہیں ، جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ساری باگ ڈور بھائی خود ہی سنبھال لیتے ہیں ۔ اس صورت میں ’’ مہیلا آرکشن‘‘ کا مطلب کیا ہوا ؟ یہ بھی بے ایمانی اور دھوکا ہے ۔ اگر میں وزیرِ اعظم ہوا، تو اس طرح کی بے ایمانیوں اور دھوکے بازی کو ختم کروا وں گا،جو چناؤ جیتے گا وہی اپنے فرائض انجام دے گا ، اگر کوئی خاتون چناؤ جیت جائیں ، تو وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اپنے دفتر پہنچ جائیں گے اور ان کے شوہر پوری ذمہ داری سے اپنے گھر کی دیکھ بھال کریں گے ، تب ہی تو ملک ترقی کرے گا ۔ مرد و زن کے یکساں حقوق کے لیے زبانی بول بچن سے کام نہیں چلے گا ۔عمل کر کے دکھانا ہوگا ۔ ‘‘
ملک میں بجلی کی قلت پر بھی چچا کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔’’ پورا ملک اس وقت بجلی کے بحران سے پریشان ہے ۔ اگر میں وزیرِ اعظم ہوا ، تو تمام الیکٹرانک سامان پر بھاری ٹیکس لگوادوں گا، جب یہ اشیا منہگی ہو جائیں گی، تو ان کی فروخت کم ہوگی اور اس طرح بجلی کا استعمال کم ہو جائے گا ،جیسے فریج، ٹی وی ، واشنگ مشین ، ہوم تھیٹر ،کولر ، اے سی ، بجلی کا چولہا، ، مکسر ،اوون وغیرہ ۔۔۔۔ ان اشیا پر پابندی لگنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بجلی کا استعمال کم ہوگا، تو بجلی کی بچت ہوگی ، جس سے بجلی کٹوتی کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔‘‘
چچا بول بچن کے مزید بول بچن ملاحظہ فرمائیں ۔’’میں ایسی تمام عورتوں پر جرمانے عاید کروا دوں گا، جو گھر کے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرنے کے بجائے بجلی کا سہارا لیتی ہوں اور ان تمام عورتوں کو انعامات سے نوازوں گا ، جو تمام کام اپنے خوبصورت اور نازک ہاتھوں سے کرتی ہوں، مثلاً چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ سل پر مصالحہ پیسنا،روٹیاں بیلنا،کپڑے دھونا، برتن صاف کرنا اور گھر کے دیگر کام بھی کرتی ہوں۔ آج کل باورچی خانے کی موسیقی سننے کو کان ترس گئے ہیں ۔چوڑیوں کی کھنک ، پازیب کی چھن چھن ، اور برتن کی ٹھن ٹھن سب ختم ہو گیا … اب اگر سنائی دیتی ہے تو ،گرینڈر مکسر کی کریہہ آواز، واشنگ مشین کی آواز ، ٹی وی اور ایف ایم کا شور …‘‘ چچا نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا ۔’’یا پھر اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ بجلی کو بھی کسی پرائیوٹ کمپنی کے حوالے کر دیتے ۔کیونکہ ہماری سرکا ر کیا کیا دیکھے گی ۔ ٹرانسپورٹ ، بجلی ، کاشتکاری ، کپڑا ، ایندھن ، منشیات ، ہوا بازی ، ماحولیات، معدنیات ، طبعیات ، حیاتیات ،جنگلات دیگر جزیات وغیرہ وغیرہ… اور نہ جانے کیا کیا شعبے ہیں ۔ بہر حال سرکار پر بوجھ زیادہ ہوتا ہے ، تو بد نظمی اور بد عنوانی بڑھ جاتی ہے… پھر سہولتیں دشوار ہو جاتی ہیں ۔ لہٰذا میں اگر وزیرِ اعظم بنا ، تو ایسے سارے شعبے پرائیوٹ کمپنیوں کے حوالے کر دوں گا ، تاکہ عوام کو سہولت ہو اور میں بھی آرام کرسکوں۔ اگر میں وزیرِ اعظم بنا ، تو پیٹرول سے چلنے والی تمام گاڑیوں کی قیمتیں چارگنا بڑھا دوں گا اور ساتھ ساتھ پیٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ کروا دوں گا ۔ ہاں ڈیزل کی قیمتیں اس لیے کم رکھی جائے گی کہ سرکاری بسیں اور مال بردار گاڑیاں اسی سے چلتیں اور عوام کو سستے داموں سفر کی سہولت مل سکے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم ہونے سے اشیائے خوردنی کی حمل و نقل بھی سستی اور آسان ہو جائے گی ۔ یہی نہیں اشیائے خوردنی کی قیمتیں کم سے کم کرو ا دوں گا ۔ یعنی دال ، چاول ، آٹا ، گیہوں ، تیل ، گھی ، شکر سب کچھ دس روپے کلو کے حساب سے کھلے بازار میں مل جائے گا اور ساگ سبزیوں کی قیمت دو روپے کلو سے زیادہ نہیں ہوگی۔اس کا مطلب آپ یہ ہر گز نہ سمجھیں کہ ’’ اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا ‘‘۔ بلکہ الیکٹرانک سامان، پٹرول اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں سے جو کچھ ہم وصول کریں گے اسے اسی طرح غریب عوام کی فلاح کے لیے استعمال کریں گے ۔‘‘ چچا کا سلسلہٗ کلام جاری ہے ۔’’اگر میں وزیرِ اعظم بن گیا ،تو نہ کوئی فلم فیئر ایوارڈ ہوگا ہوگا نہ ادبی ایوارڈ ہوگا … ہاں میں ایوارڈ ضرور جاری کرواؤںگا ، مگر صرف کاشت کاروں کے لیے ۔جو سب سے بہتر اناج ، سبزی ترکاری اور پھل کی پیداوا ر کرے گا وہی انعام کا مستحق ہوگا ۔ہاں میں اگری کلچر ایوارڈ ضرور رکھوں گا ، تاکہ خوب پیداوار ہواور عوام سیر ہو کر کھاتے پیتے رہیں ۔ ادبی ایوارڈ نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح ادیب تک نہیں پہنچتا ، بلکہ غیر ادبی شخصیات جوڑ توڑ کے ذریعے حاصل کر لیتے ہیں اور دولت مند پیسوں سے ہر طرح کے ایوارڈ خرید لیتے ہیں، یہ کلیہ نہیں ہے، مگر ایسا بھی ہوتا ہے ۔ ہاں میں ایماندار معماروں کے لیے ایوارڈ کا ضرور اعلان کروں گا ۔ اگرمیں اپنے ملک کے عوام کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے میں ناکام رہا، تو مجھے اس ملک کو چلانے کا یا حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا، کیونکہ روٹی ، کپڑا اور مکان یہی ہماری بنیادی ضرورتیں ہیں، اس صورت میں ضرور استعفیٰ دے دوں گا ۔‘‘ چچا اسپورٹس کے تعلق سے کیا کہتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں ۔’’ اسپورٹس ،کرکٹ ہاکی ،بیڈ منٹن یہ کیا کوئی کھیل ہے؟کرکٹ میں دو لوگ بلا سنبھالے ایک ہی گیند کو پیٹتے رہتے ہیں او ر باقی اس گیند کو پکڑنے دوڑتے ہیں ، ایسا ہی ہے ، تو گیند پھینکتے ہی کیوں ہیں؟فٹ بال میں جسے دیکھو ایک ہی گیند کو اپنی ٹھوکر میں رکھنا چاہتا ہے ، تو مزہ کس بات کا ہے ؟ ہمارے دور میں کھیلتے تھے کبڈی ، جو نہ جیتے وہ پھسڈی ، گلی ڈنڈا ، کنچے ، لنگڑی اور کھو کھو۔یہ تمام کھیل اگر عالمی پیمانے پر کھیلے جائیں ، تمارا ملک ہی سارے تمغے جیت کر لائے گا۔پھر بھی میں یہ کہوں کہ کھیل کود اچھی بات نہیں ، پڑھنا لکھنا چایئے ۔ کسی پڑھے لکھے شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
پڑھوگے لکھو گے ، تو ہوگے نواب
کھیلوگے کودوگے ، تو ہوگے خراب
چچا نے کچھ یاد کرتےہوئے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا ۔’’ ہاں ہم نے پڑھا ہے کہ ( کیونکہ ہم پڑھے لکھے لیڈر ہیں ) جن ممالک میں تعلیم، ہسپتال اور دوائیں مفت فراہم کی جاتی ہیں ، وہ ممالک تیزی سے ترقی کرتے ہیں ، اس لیے ہم اپنے ملک میں ، تعلیمی اور طبی شعبے کو عوام کے لیے بالکل مفت کر دیں گے، انگریزی زبان کوبھی عام کر دیں گے ، اب دیکھیے امریکہ نے کتنی ترقی کی ہے ؟ اس لیے کہ وہاں کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے ۔ہمارے ملک کا بھی بچہ بچہ انگریزی بولے گا ۔‘‘ چچا کی یہ تقریر سن کر پبلک میں سے کسی نے پوچھا ۔’’ اگر آپ وزیر اعظم نہیں بن سکے تو ؟‘‘ چچا جھنجھلائے۔’’ نہیں بن سکے تو؟ کیا مطلب ؟ آپ لوگ مجھے ووٹ نہیں دیں گے ؟ پھر تو چلنے دو ، جو چل رہا ہے ، وہ کیا شعر ہے ؟ مجھے یاد نہیں آ رہا ہے ۔ ‘‘
کچھ دیر خاموشی رہی پھر چچا نے کچھ اس طرح کہا ۔’’ خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی ، نہ ہو خیال ، جس کو اپنا وزیر اعظم بدلنے کا۔‘‘ چچا خاموش ہو گئے اور محفل میں مسکراہٹ کی لہر دوڑ گئی۔
٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...