اگر ظہیرالدین بابر کابل ہی میں رہتا۔ اگر ابراہیم لودھی کے پاس بھی توپ خانہ ہوتا، کیا خبر ہماری یعنی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی!
شیر شاہ سوری نے پانچ سال میں جو کچھ کیا، بہت سے دوسرے حکمران چالیس سال میں بھی اتنا نہ کرپائے۔اگر اسے بھی بیس پچیس سال مل جاتے!
اگر اورنگزیب کے بجائے دارا بادشاہ بنتا اور اکبر کی پالیسیاں جاری رکھتا! اگر اورنگزیب آخری پچیس سال دکن میں نہ گزارتا اور شمال میں رہ کر سلطنت کو مستحکم کرتا!
اگر مغلوں کے پاس ایک طاقت ور نیوی ہوتی اور انگریز، فرانسیسی اور پرتگالی برصغیر کے ساحلوں پر قدم نہ جماسکتے۔ اگر بنگال‘ بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (مالیات) ایسٹ انڈیا کمپنی کونہ دی جاتی!
اگر برصغیر کے سارے حکمران انگریز ’’تاجروں‘‘ کے مقابلے میں متحد ہوجاتے! اگر ٹیپو کی پکار پر نپولین مصر سے آگے بڑھتا اور برصغیر تک پہنچ جاتا! اگر عثمانی ترک ٹیپو کی مدد کو پہنچ جاتے ! اگر نظام اور مرہٹے ٹیپو کا ساتھ دیتے !
اگز ولزلے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط سے منع نہ کرتا، اگر انگریز اور ہندوستانی 1800ء کے بعد بھی سماجی رابطے رکھتے اور باہمی شادیاں کرتے رہتے!
اگر 1857ء کی جنگ کے دوران مقامی بااثر افراد انگریز سرکار کی مدد کو نہ پہنچتے! دہلی کے ہندو اور مسلمان یک جان دو قالب ہوکر شہر کا دفاع کررہے تھے۔ عیدالاضحیٰ آگئی، بہادر شاہ ظفر کا ایک بیٹا کمان کررہا تھا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس دفعہ مصلحتاً گائے کی قربانی سے گریز کیاجائے۔ ایسا نہ ہوسکا اور پھوٹ پڑگئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا!
اگر قائداعظمؒ کچھ عرصہ اور زندہ رہتے اور زرعی اصلاحات انہی خطوط پر نافذ کرسکتے جن پر بھارت نے 1951ء میں نافذ کیں اور خاندانی سیاست کا خاتمہ کردیا!
اگر ایوب خان کے مارشل لاء کا سیاستدان متحد ہوکر بائی کاٹ کرتے، اگر چودھری خلیق الزمان جیسے لوگ اسے امیر المومنین بنانے کی کوشش نہ کرتے!
اگر دھاندلی نہ ہوتی اور فاطمہ جناح مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان میں بھی جیت جاتیں! اگر ایوب خان کے فرزند لسانی بنیادوں پر کراچی میں ’’ فتح‘‘ کا جشن نہ مناتے اور قتل و غارت نہ ہوتی!
اگر الیکشن کے نتائج برضاو رغبت تسلیم کرتے ہوئے مجیب الرحمن کو پاکستان کا وزیراعظم بننے دیا جاتا!
اگر ذوالفقار علی بھٹو میرٹ کو قتل نہ کرتے اور جنرل ضیاء الحق کونیچے سے اوپر لاکر آرمی چیف نہ بناتے!
اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی !
اگر سیاست دان جنرل ضیاء الحق کی مجلس ’’شوریٰ‘‘ میں بیٹھنے سے انکار کردیتے!
اگر جنرل ضیاء الحق افغان مہاجرین کو اسی طرح پاکستان میں رکھتے جس طرح ایران نے رکھا! اگر افغان مہاجر ہمارے کلچر، ہماری تجارت، ہماری ٹرانسپورٹ اور ہمارے ہائوسنگ سیکٹر پر قبضہ نہ کرتے ! اگر منشیات اور اسلحہ کی یہ ملک کھلی منڈی نہ بنتا!
اگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بننے والی تنظیموں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی نہ کی جاتی!
اگر میاں نوازشریف بھٹو کی پیروی نہ کرتے اور میرٹ قتل کرکے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف نہ بناتے!
اگر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر لاہور میں مٹھائیاں نہ تقسیم ہوتیں!
اگر سیاست دان متحد ہوتے اور جنرل پرویز مشرف کو آٹھ سال تک سہارا نہ دیتے !
اگر میاں نوازشریف جدہ نہ جاتے اور وہ جدوجہد خود کرتے جو جاوید ہاشمی کرتے رہے!
اگر میاں نوازشریف تیسری بار اقتدار میں آکر بے لاگ احتساب کرتے ۔ سوئٹزر بینک میں پڑی ہوئی دولت واپس لاتے ، پیپلز پارٹی کے حج اور دوسرے سکینڈلوں کی غیر جانب دارانہ تفتیش کرکے مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے !
اگر میاں صاحب اپنی ساری دولت اور جائیداد بیرون ملک سے واپس لے آتے!
اگر میاں صاحب برادری سے اور شہر سے باہر نکل سکتے۔ اگر خواجہ ظہیر صاحب اور سعید مہدی صاحب جیسے اصحاب کو اعلیٰ مناصب نہ دیتے!
اگر وہ اپنے چھوٹے بھائی کو کہتے کہ وفاق کے معاملات میں نہ پڑو کہ تمہارے ساتھ وہی برتائو ہوگا جو باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ہوگا‘ نہ ہی تم ہر بیرونی دورے میں میرے ساتھ جائو گے‘ نہ ہی دوسرے ملکوں میں جاکر وزارت خارجہ کے امور سرانجام دو گے‘ نہ ہی تمہارا فرزند، جو قومی اسمبلی کارکن ہے ، صوبے کا عملی طور پر حکمران اعلیٰ بنے گا‘ نہ ہی تم ایک درجن وزیروں کے قلمدان اپنے پاس رکھو گے ! نہ ہی تم پورے صوبے کے بجٹ کا ساٹھ ستر فیصد حصہ ایک شہر پر خرچ کرو گے!
اگر وہ اپنے رشتہ داروں کو اکٹھا کرکے تنبیہ کرتے کہ ان سے کسی رعایت یا اقرباپروری کی توقع نہ کی جائے۔ سمدھی کو وزیر خزانہ نہ بناتے اور قریبی عزیزوں کو وزارتیں نہ دیتے!
اگر ان کی سرکاری کابینہ اور کچن کابینہ کی غالب اکثریت تین مخصوص ڈویژنوں سے نہ ہوتی۔ اس میں پشتو اور سندھی بولنے والے لوگ بھی ہوتے!
اگر ان کی پہلی ترجیح ٹیکس نہ دینے والوں کو سزا دینا ہوتی! اگر وہ ایک ایک عوامی نمائندے سے ، صنعت کار سے ، لینڈ لارڈ سے اور بزنس مین سے ایک ایک پائی ٹیکس وصول کرکے خزانے میں ڈالتے !
اگر ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کے قتل عام پر اپنے بھائی سے اسی دن استعفیٰ لیتے اور ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے !
اگر میاں صاحب اپنے تیسرے دور میں پولیس اور بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت ختم کرتے اور کراتے !
اگر غالبؔ یہ شعر نہ کہتا ؎
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پریاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“