افضل خان۔۔۔۔اک عُمر کی مہلت
افضل خان کو جب جب پڑھا، ان کی تازہ کاری، مضمون آفرینی، اور فنی گرفت اور درستی سے متاثر ہُوا۔ بحرین کے سفر کے دوران افضل خان سے پہلی بار بالمشافہ ملنے اور ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا، تو یہ شخص دل میں گھر کرگیا۔ اسی سفر میں ایک خوبصورت تحفہ "اک عُمر کی مہلت" کی شکل میں ملا۔ واپسی کے سفر کے دوران ہی مطالعہ شروع کردیا اور کینیڈا پہنچ کر کتاب ختم کرلی۔ جی چاہا کہ اس خوبصورت شاعر کے مجموعے سے کچھ ایسے اشعار احباب سے شیئر کروں جو مجھے بہت پسند آئے کہ میرے نزدیک کسی شاعر کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خراج ِ تحسین نہیں کہ اس کا کلام دوسروں تک پہنچایا جائے۔
تحمل اے محبت، ہجر پتھریلا علاقہ ہے
تجھے اس راستے پر تیزرفتاری نہیں کرنی
وصیت کی تھی مجھ کو قیس نے صحرا کے بارے میں
یہ میرا گھر ہے اس کی چاردیواری نہیں کرنی
بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر
اِسے کہوں گا بدن چھوڑ کر چلا جائے
اب کے جس وحشت میں گھر کو چھوڑا ہے
جی کرتا ہے پھینک دوں چابی دریا میں
تُو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں، اُسی چال میں آجاتے ہیں
جتنے غم پالے ہیں اے دامن ِ دنیا تُو نے
اِتنے غم تو مرے رومال میں آجاتے ہیں
کسی نے خواب میں آکر مجھے یہ حکم دیا
تم اپنے اشک بھی بھیجا کرو دعاؤں کے ساتھ
شجر سے میرا تعلق ہے شام ہونے تک
سرک رہا ہوں مسلسل سرکتی چھاؤں کے ساتھ
وگرنہ تِیر کسی کا نہ چھو سکا تھا مجھے
مری طرف سے مرے یار کو مبارک باد
اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے
ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں، عدم پہلے تھے
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کرلو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
کچھ تو ہے تجھ میں بات کہ تجھ کو ہر ایک شخص
پھر دیکھتا ضرور ہے اک بار دیکھ کر
تجھ کو راس آئے گا میرا پسِ پردہ ہونا
میرے مرنے سے پڑے گی ترے کردار میں جان
اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اِس کو کہتے ہیں انتظار میاں
میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہیئے منافقین کے لیے
رات سویا میں ترا نقش سرہانے رکھ کر
خواب میں مصرع ِ ثانی کی طلب تھی مجھ کو
بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی
ہاں مگر تجھ سے خریدار کو ناں کیسے ہو
،لتے رہتے ہیں مجھے آج بھی غالبؔ کے خطوط
وہی انداز ِ تخاطب کہ "میاں کیسے ہو"
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ
دفعتاً آ کے ایک لہر، پاؤں ہمارے پڑ گئی
گھاٹ سے لوٹ آئے ہیں، ورنہ خیال اور تھا
میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں
مگر جو بیچ میں کم بخت شاعری ہے نا
میں جان بوجھ کے آیا تھا تیغ اور ترے بیچ
میاں نبھانی تو پڑتی ہے، دوستی ہے نا
مجھے بھر دے گا اک دن رازداری کا یہ ملبہ
مرے احباب نے اندھا کنواں جانا ہے مجھ کو
اُن درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
جلدی آنے کا سبب تیز خرامی تو نہیں
میں ہمہ وقت محبت میں پڑا رہتا تھا
پھر کسی دوست سے پوچھا یہ غلامی تو نہیں
کسی کی آنکھ میری آنکھ سے ہے محوِگفتگو
سماعتوں کا کام بھی لیا گیا ہے دید سے
اب یہی آخری حل ہے کہ مجھے ڈھال بنا
تیرے پاس اور کوئی تیر نہیں ہے، میں ہوں
اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں
کوئی روزن مرے زنداں میں نہیں تھا افضلؔ
ایک دن ڈوب گیا اشک بہاتے ہوئے میں
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
میں ترے ہجر میں جاگا نہ مکمل سویا
دونوں پلکوں میں سے پتھر کی پلک ہے کوئی
نہیں اے ثالثین ِ عشق، میں ایسے نہ مانوں گا
یہ بات اُس وقت ہونی چاہیئے جب میں بھی ہوں، وہ بھی
مرا سارا اثاثہ اک تعلق تھا، اک آئینہ
مگر اک روز جی چاہا کہ یہ بھی توڑ دوں، وہ بھی
حبس کا غم کیجیئے یا پھر جنوں کر لیجیئے
کھول دی کھڑکی تو اس میں ماہتاب آجائے گا
لوگ ہی اتنے تھے دل کو خالی ہونے میں وقت لگا
ہنستے بستے شہر بھی جنگل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں
پانی مقدار میں کم آنے لگے تو سمجھو
آنکھ ابرو کے مساموں سے ہوا کھینچتی ہے
آدمی کا فلسفہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں
کھیلتے ہیں کھیل مٹی، آگ، پانی، اور ہوا
پرندے لڑ ہی پڑے جائداد پر آخر
شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت
میں پہلے کوفہ گیا، اُس کے بعد مصر گیا
اِدھر برائے شہادت، اُدھر برائے فروخت
اِس لیے ہم کو نہیں خواہش ِ حوران ِ بہشت
ایک چہرہ جو اِدھر ہے، وہ اُدھر ہے ہی نہیں
پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے
گھر کا آسان پتہ یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“