افضل چن، پاکستان تحریک انصاف کو چاند گرہن
سیاست میں جب نظریہ کمزور ہو جائے تو شخصیات اہم ہو جاتی ہیں ۔سیاسی نظریہ کبھی از خود کمزور یا معدوم نہیں ہوتابلکہ اسے سماج کی وہ طاقتیں کمزور یا پس منظر میں لے جاتے ہیں ،جو سٹیٹس کو قائم رکھنا چاہتی ہیں ۔ ’’قابل انتخاب‘‘ جسے ہمارے ہاں Electable کہا جارہا ہے، سیاست کا ایک ناسور ہے۔قابل انتخاب شخص کبھی تبدیلی یا عوامی اصطلاحات کا ہر اول دستہ نہیں بن سکتا ۔چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جناب افضل چن نے اپنی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو یہ بات دوحوالوں سے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں زیربحث ہے۔ایک پہلو یہ کہ افضل چن جیسے پپلئے نے پارٹی بدل لی ، ان کواس حوالے سے ایک نظریاتی شخص جانا جا رہا ہے۔دوسرا پہلو بھی اسی بات کا دوسرا حصہ ہے کہ اگر پی پی پی سے افضل چن جیسے(یعنی نظریاتی) لوگ پارٹی چھوڑنے لگے تو اس پارٹی کا مستقبل کس قدر خطرے میں ہے۔میرے نزدیک یہ دونوں پہلو غلط انداز میں دیکھے جا رہے ہیں ۔افضل چن ایک اچھے پارلیمنٹرین اور اچھے انسان ہیں ۔میں بھی ذاتی طور پر ان کو پسند کرتا ہوں۔ چند مرتبہ ان سے ملاقات کا موقع ملا،ان کوایک اچھا انسان اور ذہین سیاسی شخص پایا ۔لیکن ان کے بارے میں یہ رائے قائم کر لینا کہ وہ پارٹی کے نظریاتی لیڈر تھے، بالکل غلط تصور ہے۔وہ در حقیقت ایک اچھے Electableلیڈر ہیں۔اور انہوں نے پہلی مرتبہ پارٹی بدلی ہے۔جبکہ فردوس عاشق اعوان جیسے موقع پرست، بار بار پارٹی بدلتے اور ایسی پارٹی کو جوائن کرتے ہی جس کے اقتدار میں آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔اس لیے افضل چن کسی حوالے سے بھی پارٹی کے اندراور عوامی سیاست میں کبھی بھی پارٹی کے ترقی پسند،مزدور ،کسان دوست،سامراج مخالف نظریے کے فروغ کے لیے کاربند نظر نہیں آئے۔ٹیلی ویژن سکرین پر مہذب انداز میں بات کر نے سے کوئی لیڈر نظریاتی نہیں کہلا سکتا اور ایسے دیگر لو گ ابھی بھی پی پی پی میں ہیں جو شفا ف شخصیت کے مالک ہیں، نظریاتی نہیں۔جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی میںتقریباً تمام لوگ شفاف شخصیت اور شفاف سیاست پر پورا اترتے تھے، لیکن تمام ساتھی نظریاتی نہیں تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست عبدالحفیظ پیرزادہ شفاف سیاست کے مالک تھے،مگر نظریاتی نہیں تھے۔اس حوالے سے بابائے سوشلزم شیخ رشید اور خورشید حسن میر نظریاتی تھے۔
میرے ذہن میں یہ نکتہ میرے ایک پیارے دوست جناب حفیظ کاہلوں کی بات سے اٹھا ، جو کئی دہائیوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور پارٹی کے نظریاتی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فون پر بات کرتے ہوئے جناب حفیظ کاہلوں نے جب یہ نکتہ میرے سامنے رکھا تو میرے لیے یہ فرق قارئین کے سامنے رکھنا لازم تھا۔ افسوس ہماری انتخابی سیاست میں ایسے Turncoatsاب عام ہو چکے ہیں،جنہیں مقامی سیاسی اصطلاح میں ’’لوٹا‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ Turncoatsکسی بھی ملک کی سیاست کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں۔فردوس عاشق اعوان سے لے کر افضل چن تک جو بھی پاکستان تحریک انصاف میں اس نظریے سے گیا کہ مستقبل قریب میں اس پارٹی کا ’’اقتداری مستقبل‘‘ ہے، ان کے اس اقدام پر میری تنقید کا نشانہ یہ Turncoatکم اور ان Turncoatsکو لینے والی جماعت زیادہ ہے۔اور ایک ایسی جماعت(پی ٹی آئی) جس کا نعرہ ہے، پاکستان بدل دیں گے۔ بابا! آپ ان Turncoatsکی قیادت میں پاکستان بدلیں گے؟ممکن ہی نہیں ۔یہ تمام کے تمام لوگ سٹیٹس کو بدلنے کے لیے نہیں بلکہ سٹیٹس کو کو زندہ رکھنے کی علامت ہیں۔یہ انقلاب یا تبدیلی کا ہراول دستہ نہیں بلکہ یہ اقتدار کا ہراول دستہ ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور فیصلہ کن قیادت اب ان ہاتھوں میں ہے جو اس ملک کے معروف Turncoatsہیں۔
پیپلزپارٹی کے پاس آج بھی ایک موقع ہے۔آج بھی اگر پاکستان پیپلز پارٹی چاہے تو راتوں رات وہ اس ملک کی مقبول پارٹی بن سکتی ہے،اگر وہ سٹیٹس کو کی وکٹ پر کھیلنا چھوڑ دے یعنیTurncoatsپر انحصار کرنا۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی اگر نظریاتی موڑ لیتی ہے تو وہ ان Turncoatsکی کھوکھلی طاقت کوبھی پارہ پارہ کر سکتی ہے۔پی پی پی کبھی بھی Electableکی شکل میں عوام میں مقبول جماعت نہیں بن سکتی ۔پی پی پی کے تین اہم ستون ہیں، اگر وہ ان تین ستونوں پر دوبارہ کھڑا ہونے کا آج فیصلہ کر لے تو مختصر مدت میں وہ پاکستان کی دوبارہ مقبول اور انقلاب برپا کرنے والی جماعت بن سکتی ہے۔1978ء میں پی پی پی فردوس عاشق اعوان جیسی اقتدار پسند خاتون اور افضل چن جیسے مہذب لوگوں کی بنیاد پر مقبول جماعت نہیں تھی بنی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے یہ تین ستون ہیں:(1)ترقی پسند نظریاتی سیاست(2)پاکستان پیپلز پارٹی کی شاندار تاریخ(3) پاکستان پیپلز پارٹی کا جانثار کیڈر۔اگر بلاول بھٹو ان تینوں ستونوں پر اپنی سیاسی عمارت کھڑی کرتے ہیں تو ان کو اپنی والدہ بے نظیر بھٹو سے بھی زیادہ مقبول لیڈر بننے میں دیر نہیں لگے گی۔اگر پی پی پی ان Electablesپر انحصار کرے گی تو اس کا مستقبل تاریک ہے، روشن نہیں۔
پاکستان کے محکوم اور بے وسیلہ لوگوں کے لیے یہElectables کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔Electablesنے صرف اپنے حلقہ کی سیاست کو اپنا مرکزو محور بنایا ہوتا ہے، وہ سماج کی اجتماعی تبدیلی پر کم یقین اور کم ہی وقت دیتے ہیں۔فردوس عاشق اعوان اپنے حلقے کی مقبول لیڈر تو ہو سکتی ہیں کہ انہوں نے جائز اور ناجائز ذرائع سے اپنے حلقے میں اپنے بتیس ، چالیس،یا اسّی ہزار ووٹرز بنائے اور ان کو برقرار رکھا لیکن وہ ملک کی در حقیقت غیر مقبول لیڈر ہیں۔ پی پی پی یا کوئی بھی سیاسی جماعت اگر اپنے آپ کو حلقہ وار سیاست سے نکال کر اجتماعی سطح پر مقبول بنانے کے لیے فلسفے اور نظریے پر کاربند ہوں گی، تب ہی وہ ملک کوغربت ، جہالت، استحصال اور پسماندگی کے چنگل سے نجات دلا نے کے قابل ہوں گی۔یہElectablesقومی سیاست کا ناسورہیں، خزانہ نہیں ۔ان سے نجات نظریاتی سیاست سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ افسوس عمران خان پر جنہوں نے ایک بار پھر اس ناسور سیاسی رجحان کو اپنے ہاں ’’عزت کے ساتھ‘‘قبول کیا ۔1997ء کے انتخابات میں شکست کے بعد میرے گھر میں ان کے اعزاز میں ایک ڈنر کے دوران میں نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ آپ اس ملک کے مقبول لیڈر بن سکتے ہیں اور پھر یہی بات مکمل یقین سے2010ء یا 2011ء میں ان کے گھر زمان پارک میں عرض کی کہ آپ جلد ہی مقبول لیڈر بننے والے ہیں،اس کے لیے پارٹی کو سخت بنیادوں پر منظم کریں، ورنہ آپ کی فصل، فصلی بٹیرے آ کر چُگ جائیں گے۔اور اب وہ یہ کام اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں ۔وہ ان لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوانوں تک پہنچ توسکتے ہیں،مگر پاکستان کے محکوم عوام کی تقدیر بدلنے کی طاقت حاصل نہیں کر پائیں گے۔افسوس عمران خان صاحب، آپ اس وقت ندامت کا اظہار کریں گے جب آپ ان لوگوں کے سامنے بے بس اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
“