22جمادی الثانی :یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
صحابی رسول ﷺحضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ،لمبے لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس کااپنانام ”ہرقل“تھاجو مذہباََ عیسائی اور گزشتہ آسمانی کتب سے شد بدرکھتا تھا،دربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں لے گیا جس کی دیوار وں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے نبی کی شبیہ پہچانو،ایک جگہ انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ کی شبیہ مبارک ہے۔ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ کلبی ؓنے کہا کہ یہ دائیں حضرت ابوبکرؓاوریہ بائیں حضرت عمرؓ کی ہے۔ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب میں لکھاہے کہ اللہ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔
محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود اس کے اولین حکمران بنے،حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے اولین دینی جانشین بنے۔573ء میں مکہ مکرمہ میں پیدائش ہوئی،اسلام لانے سے قبل آپ کا نام ”عبدالکعبہ“تھا،مسلمان ہونے پر محسن انسانیتﷺ نے آپ کو ”عبداللہ“سے موسوم کیاتاہم آپ کی کنیت ہی آپ کی پہچان رہی اور آپ کو ”ابوبکر“کے نام سے یاد کیاجاتارہا،عربی میں بکر”جوان اونٹ“کوکہتے ہیں،حضرت ابوبکر چونکہ اونٹوں میں نہ صرف یہ کہ گہری دلچسپی رکھتے تھے بلکہ ان کی عوارض و علاج معالجہ اور دیگر امور میں بھی گہرا درک وشغف تھا اس لیے اہل مکہ آپ کو ”ابوبکر“یعنی”اونٹوں سے محبت کرنے والا“کہاکرتے تھے۔آپ کے والد کانام ”عثمان“اور کنیت ا”بوقحافہ“ تھی،والدہ محترمہ کا اسم گرامی”ام الخیر سلمی“تھا۔والد اور والدہ دونوں کی طرف سے چھٹی پشت پر حضرت ابوبکرصدیق کانسب محسن انسانیتﷺسے مل جاتاہے۔قریش کے قبیلہ ”بنوتمیم“سے تعلق تھااور اپنے قبائلی منصب،خون بہااوردیت کی رقوم کی جمع و ادائگی و ضمانت،پر آپ زمانہ جاہلیت سے فائز رہے تھے اور قتل کے مقدمات میں آپ کی رائے وثالثی آخری فیصلے کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔بچپن سے ہی شریف النفس اورشرک وکبائر سے مجتنب تھے،محسن انسانیت ﷺ سے دو سال چھوٹے تھے اور اوائل عمری سے ہی دونوں کے درمیان گہرے مراسم رہے جو بعد میں ایمان سازاور جنت کے سنگ ہائے میل بن گئے۔
مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سمیت متعدداہل ایمان لونڈی غلاموں کو خریدکرآزادکیا،سفرمعراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے ”صدیق“کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ،ثانی الثنین کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے بعد والے حج میں امیرحج مقررہوئے،علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم پرمرہم رکھا۔مسلمانوں کے خواص نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن لیااور عوام نے اس فیصلے کی توثیق وتائید کردی۔ اگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوں نے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارکین براجمان فرماتے تھے،حضرت ابوبکر احترام نبوی میں وہاں بیٹھے جہاں قدمین مبارکین ہواکرتے تھے،آج تک علماء امت ممبر کی آخری سیڑھی پر نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت صدیقی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا شروع کردیا۔محسن انسانیت ﷺ نے انیس سالہ نوجوان ”اسامہ بن زیدؓ“کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا تھاتاکہ رومیوں سے سفیررسولﷺ کے قتل کا قصاص لیاجاسکے،یہ لشکر روانگی کے لیے پابہ رکاب تھا کہ وصال نبوی کا سانحہ بجلی بن کر مسلمانوں پر آن گرا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اقتدارکی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اس لشکر کی روانگی کے احکامات صادر کر دیے،بہت سے لوگوں نے اختلاف کیااور حالات کی نزاکت کے باعث اس لشکرسپاہ کومرکزی دارالخلافہ میں رہنے کی رائے پیش کی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فیصلہ نبویﷺ سے ایک بال برابر بھی روگردانی سے انکارکر دیااور ایک منزل تک پاپیادہ اس لشکر کے ہمراہ دوڑتے ہوئے گئے۔امیرلشکرحضرت اسامہ بن زید کو نصیحتیں فرمائیں کہ”عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا،لاشوں کا مثلہ نہ بنانا،دشمن کے ساتھ خیانت،بدعہدی اور دھوکہ بازی نہ کرنا،پھل دار درختوں اور فصلوں کو نہ کاٹنا،جانوروں اور آبادیوں کو ہلاک نہ کرنا،عبادت گاہوں اور ان میں مصروف عابدوں سے کوئی چھیڑچھاڑ نہ کرنااور جولوگ اسلام قبول کر لیں ان کے جان،مال اور عزت و آبرو کا خیال رکھنا“۔
وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم کھلااسلام سے بغاوت کردی،اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوۃ دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو خود قرآن نے سورۃ حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا،عرب کے بدوی قبائل فتح مکہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔ پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجؤں کی طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔اکثر قبائل نے زکوۃ کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم اداکردیاکرتے تھے لیکن ان کے خلفا کو زکوۃ ادانہیں کریں گے۔بنوعبس،بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوۃ کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے مدینہ طیبہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوۃ سے ہمیں رخصت دے دی جائے،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ عرب کہاوت کے مطابق شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین زکوۃ کے حق میں تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوۃ کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں لڑوں گا۔اس وقت اگر خلیفہ اول زکوۃ میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج کہاجاسکتاتھاکہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن حضرت ابو بکر کی ایک ”نہیں“ نے قیامت تک کے لیے تحریف دین کے دروازے بند کر دیے۔منکرین زکوۃ اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے قبائل تک انکا تعاقب کیا۔
طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور شکست خوردہ منکرین زکوۃ بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا”بزاخہ“کی وادی میں گھمسان کا رن پڑا،مرتدین کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا رہنے والا تھا۔اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ”کذاب“کالقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل کوالگ الگ دستے دے کرمسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ”وحشی“نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔
دورصدیقی کی ابتدامیں بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے اور انکے دیکھادیکھی ان کے قریب کے دیگرقبائل بھی ارتداد کی طر ف مائل ہوئے اور دین حق کو خیرآباد کہ دیاان میں عمان،یمن اور حضرموت کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ علاقہ یمامہ کے قریب ہی واقع تھاچنانچہ مسیلمہ کذاب کی شکست سے یہ لوگ خوفزدہ تو ہوئے لیکن جہالت کے باعث ابھی بھی آمادہ بغاوت ہی تھے۔ان میں سے ایک سردار جارود بن معلی عبدی اسلام پر قائم رہااور اس نے اپنے قبیلے بنوعبدالقیس کوبھی تبلیغ و ترہیب کے ذریعے اسلام پر قائم رکھا۔مرتدین نے سابقہ شاہی خاندان کے ایک شہزادے کو اپنا بادشاہ بنا لیاتھااور سلطنت اسلامیہ کے گورنر علاء حضرمی کو علاقہ بدر کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر نے مرتدین کی سرکوبی کے لیے وہیں کے نکالے ہوئے گورنرعلاء حضرمی کو لشکر کا کماندار مقررکیا،دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی چنانچہ مسلمان افواج نے خندقیں کھود کر ان میں چھپ کر اپنا دفاع بھی کیااوردشمن پر حملے بھی کرتے رہے۔ایک ماہ کی طویل کشمکش کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکی اور یہ جنگ عسکری مقابلے کی بجائے اعصابی کشمکش کی صورت اختیار کر گئی۔ایک رات جب مرتدین شراب کے نشوں میں دھت غل غپارہ اور طوفان بدتمیزی برپاکر رہے تھے تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جان کر بھرپوروار کیا،یہ حملہ کارگر ہوا اور دشمن کا اتنانقصان ہوا کہ انہیں میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمان افواج فتح مند ہوئیں۔اسو دعنسی ایک اور جھوٹامدعی نبوت تھااور اس نے دور نبوت میں ہی یہ دعوی کررکھاتھا،اسکاتعلق یمن سے تھا۔اسود عنسی نے اپنے بہت سے پیروکاروں کو اکٹھا کر رکھاتھا اور اسلامی حکومت کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔کم و بیش چار ماہ تک اس نے یہ ڈراما رچائے رکھااور وصال نبوی ﷺ سے ایک رات قبل راگ رنگ کی محفل میں اسی کے ایک چاہنے والے نے اسے ذبح کردیا۔اس کے بعد بھی یہ فتنہ ارتداد ختم نہ ہوااور عمروبن معدی کرب اورقیس بن عبد یغوث نے ان باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔حضرت ابوبکر ؓنے عکرمہ اور مہاجر کو ان لوگوں کی بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا۔مدنی افواج کے آنے سے اہل یمن بری طرح گھبراگئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی۔عمرو بن معدی کرب مسلمانوں سے مل گیااور اس نے قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرادیااور یوں یہ بغاوت بھی فروہوگئی۔عمرو بن معدی نے بعد کے دور فاروقی میں ایران اسلام جنگ میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
خلافت راشدہ کی ایک اہم خصوصیت ”شورائیت“ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مشاورت کے لیے صحابہ کبار رضوان اللہ تعالی اجمعین کو متعین کیاہوا تھا۔جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتاتوسب سے پہلے قرآن میں اس کا حل تلاش کیاجاتا،پھرسنت میں اور پھرباہمی مشورے سے قرآن و وسنت کی روشنی میں اجماع سے کام لیاجاتا۔جمع و تدوین قرآن مجیدکااعزاز بھی کاتب تقدیرنے آپ کے مقدرمیں لکھ دیاتھاچنانچہ آپ کے دوراقتدارمیں آپ ہی کے حکم سے قرآن مجیدکو حضرت زیدبن ثابت نے جمع کیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں سلطنت کو دس صوبوں میں تقسیم کیاہواتھااور ہر صوبے کاحکمران ”والی“ کہلاتاتھاجس کے تحت صوبائی انتظامیہ،مالیات اور سرحدی صوبوں کی صورت میں فوج بھی ہوتی تھی۔نومفتوحہ علاقوں میں انتظامی عملے کی بحالی تک سپہ سالار ہی جملہ امور کی نگرانی کرتاتھا۔بیت المال کاابھی تک کوئی باقائدہ نظام نہ تھا،آمدن میں اگرچہ بہت زیادہ اضافہ ہوگیاتھالیکن خراج و دیگر ذرائع سے آنے والی رقوم میں سے سرکاری اخراجات نکال کربقیہ مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں چنانچہ وفات صدیقی کے بعد بیت المال میں کل ایک درہم ہی نکلاتھا۔اسی طرح فوجی نظام نے بھی ابھی تک کوئی باقائدہ شکل اختیارنہیں کی تھی اور قتال کے لیے لڑنے کے قابل مردان جنگی ایک دینی جذبے کے تحت اکٹھے ہوجاتے تھے اور حکومت وقت انہیں کسی خاص مہم پر روانہ کردیتی۔افواج میں اتنی اصلاحات ضرور ہوئی تھیں کہ سپاہیوں کی ایک خاص تعدادکوکسی ایک کماندار کے تحت کر دیاجاتااور پوری فوج کا بھی ایک سپہ سالاراعظم مقررکردیاجاتا۔مجتہدوفقیہ اصحاب رسولﷺکو قاضی مقررکیاجاتاتھااور وہ شریعت محمدیہ کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔عدلیہ کی معاونت کے لیے محکمہ افتاء کاقیام بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کاایک کارنامہ گناجاتاہے جس میں حضرت عمرفاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت معاذبن جبل،حضرت ابی بن کعب اور حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالی عنھم جیسے جید صحابہ کرام اپنے فرائض منصبی اداکرتے تھے۔
7جمادی الثانی 13ہجری کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بیمار پڑ گئے۔پندرہ دنوں بعد غسل فرمایا کہ شاید طبیعت سنبھل جائے لیکن بخارمیں شدید اضافہ ہو گیااور21جمادی الثانی 13ھ کو یہ آفتاب خلافت راشدہ تریسٹھ برس کی سنت عمر میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جسمانی اعتبارسے ایک پر کشش شخصیت کے مالک تھے،رنگ سفید،میانہ قد،دبلابدن،شگفتہ چہرہ،کشادہ پیشانی اور روشن آنکھیں تھیں۔آواز نسبتاََ بھاری تھی جس سے شخصیت کے جلال کا اندازہ ہوتاتھالیکن طبعاََنرم خو،رقیق القلب اوررحم دل اور شفیق انسان تھے۔محسن انسانیت ﷺکی سادگی میں سے ایک بہت بڑاحصہ آپ کوبھی عطا ہواتھا چنانچہ دولت کی کثرت اور اقتدارواختیارات کے باوجود آپ نے اپنے معیارزندگی میں اضافہ نہ کیااوربہت تھوڑی اجرت پرتاحیات درویشی و فقر کو ہی ہم سفرجانااور وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے پرانی چادر میں ہی دفنا دینا کہ نئے کپڑوں کے حق دار زندہ لوگ ہوتے ہیں۔اسلام لانے سے پہلے اشعار بھی کہاکرتے تھے لیکن بعدازاسلام فنا فی القرآن ہی ہو گئے۔طبیعت و ذوق کا بہت بڑا حصہ حب نبویﷺ سے پر تھاچنانچہ ہجرت کے دوران اس کے بے شمار مناظردیکھنے کو ملے،اونٹنی پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوتے لوگ پوچھتے تو آپ ﷺ کی طرف اشارہ کرکے کہتے یہ میراراہنما ہے،لوگ سمجھتے کہ اگلی منزل تک راستہ بتانے والاہے۔قبا پہنچنے کے بعد جب لوگوں کو پتہ نہ چلتاتھا کہ رسول اکرم ﷺاورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میں سے نبی کون ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی علیہ السلام پرسایہ کی غرض سے ایک چادر تان لی جس سے لوگوں کو نبی اور امتی کی پہچان میسرآگئی۔وصال نبوی کے وقت فرمایاکہ آپ ﷺ کو دوسری موت نہیں آئے گی،گویادنیاسے آپ ﷺ کا ذکر کبھی ختم نہ ہوگا۔جس جگہ محسن انسانیت ﷺدوران سجدہ اپنی پیشانی مبارک جماتے تھے اسے بندکرادیاکہ مباداکسی کاپاؤں آجائے اور شان نبوی ﷺ میں گستاخی واقع ہوجائے اورجس جگہ آپﷺ کے قدمین مبارکین ہوتے تھے اسے بحیثیت پیش امام اپنی سجدہ گاہ مقررکیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کادورحکومت دوسالوں کی مختصرترین پر ہی محیظ ہے۔اوریہ عرصہ بھی اندرونی و بیرونی خلفشاروں میں گزرااور ریاست کو مکمل استحکام نصیب نہ ہو سکا۔اس کے باوجود بھی آپ نے اسلامی سیاست کو بہت مضبوط اور ناقابل فراموش بنیادیں فراہم کیں۔اختیارات کے استعمال میں اپنے پیش رو نبی ﷺکے فیصلوں کی اس حدتک پابندی کہ یک سرمو یمین و یسارکاانحراف بھی ناقابل برداشت تھا،بیت المال کے استعمال میں امانت داری کا تصور قبیلہ بنی نوع انسان میں سب سے پہلے آپ نے ہی متعارف کرایا،اختیارات کلی کا مرقع ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مشاروت کا پابندبنانا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے طرزحکمرانی کا ہی خاصہ ہے،اہم سرکاری مناصب پراپنے رشتہ داروں اور چہیتوں کو تعینات کرنے کی بجائے امانت و دیانت و شرافت کے پیمانوں کو ملحوظ خاطر رکھنا اورسب سے بڑھ کر یہ کہ انتقال اقتدارکے مرحلے میں انتہائی امن و احتیاط اور معیارمطلوب کاحد درجہ تناؤچندایسے امور ہیں جن کے باعث مسلمان اپنی اولین تاریخ میں آج کی نام نہادمہذب دنیاکے سامنے بھی یکتاوممتاز ہیں۔آپ چاہتے تو دنیاکی مروجہ روایات کے مطابق اپنے کسی بیٹے یا کسی رشتہ دارکو اپنا جانشین نامزد کر جاتے لیکن اس کے برعکس محض تقوی و انتظامی صلاحیتوں میں مقابلتاََبہترفردکویہ ذمہ داریاں سونپناانسانیت میں واقع ہونے والا سب سے پہلا اورکامیاب ترین تجربہ تھا۔
خلافت راشدہ کے بعدمسلمانوں سمیت دنیائے انسانیت نے سیاست کے کتنے ہی نظام تجربہ کرلیے،ملوکیت،خاندانی وگروہی ونسلی و علاقائی بادشاہت،شخصی آمریت،اداراتی حکمرانی(پولٹ بیورو)اور عصرحاضر میں یورپی سیکولرتہذیب کی پروردہ حیوانی جمہوریت،لیکن امن وآشتی اور عدل اجتماعی و عادلانہ نظام معیشیت کی جوآسودگی و راحت خلافت راشدہ میں انسانیت کو میسرآئی اس کی مثال بعد کے ادوارمیں تادم تحریرنہیں ملتی۔خلافت راشدہ میں نافذشدہ کئی قوانین آج کی دنیا میں بھی صف اول کے کئی ممالک میں نافذ ہیں،خاص طور پر یورپی ممالک میں محتسب کا منصب خالصتاََدور خلافت راشدہ کے سیاسی و انتظامی نظام کاایک اہم باب ہے اور عدلیہ کوانتظامہ سے علیحدگی کا اولین تصور بھی خلافت راشدہ کے نظام ہی ملتاہے وغیرہ۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ جس کا ذکرعلامہ اقبال ؒنے بھی کیاہے کہ ہم اپنی تاریخ کے حوالوں کے لیے بھی مغرب کے محتاج ہو چکے ہیں اوراتناشاندارماضی اور اس ماضی میں چھپے ہوئے ہیرے موتی اور لعل و گوہر کو تلاش کرنے کی بجائے سیکولرمغربی تہذیب کے بدبوداراور سڑاندسے بھرے ہوئے بوسیدہ،فرسودہ اور مرقع جہالت وانسان دشمن نظریات و معاشی و سیاسی نظاموں کو درآمدکرتے ہیں جس کے نتیجے میں سوائے تباہی و بربادی اور خون خرابے کے کچھ بھی میسر نہیں آتا۔پس اب غلامی کے یہ منحوس بادل اب چھٹنے کو ہیں کہ خلافت علی منہاج نبوت کاشہنشاہ خاور ایک بار پھر اپنی پوری آب و تاب سے عالم انسانیت پرطلوع ہواچاہتاہے،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...