::: آج {19 ستمبر 2017} میرے پسندیدہ پنجابی کے دانشور، ادیب اور ناول ناگار افضل احسن رندھاوا کا انتقال ہوگیا۔ ان پر میرا یہ مضمون 11 اکتوبر 2016 کے دن فیس بک پر لگایا گیا تھا۔
::: افضل احسن رندھاوا کا ناول ۔۔۔ "دل اور دریا " ۔۔۔ :::
اردو کے قاری پنجابی ناول سے قدرے کم آگاہ ہیں۔ مجھے جب بھی پنجابی { شاہ مکھی اور گرمکھی} سے اردو یا انگریزی میں کوئی ناول پڑھنے کو ملتی ھے تو اس کو ضرور پڑھتا ھوں، اور یا مجھے جتنی بھی ٹوٹی پھوٹی شاہ مکھی پنجابی آتی ھے۔ ان پنجابی کی تخلیقات سے محظوظ ھوتا ھوں۔ میں نے محسوس کیا ھے کا ان پنجابی ناولز میں پنجابی فرد اور سماج کی یاسیت، رجائیت، مزاحمت، سادگی سے بھرا لہجہ، تاریخ کاجبر، سامراج سے بیزاری، اور پنجابی ثقافت کی نفسیاتی و عمرانیاتی اور معاشی آفاق کی تغیر پذیری کے سبب اصل پنجابی معاشرے کی معدوم ھوتی ھوئی ثقافتی شناخت کا اندوہناک المیہ ھے۔ میں نے کچھ پنجابی ناولز کے تراجم پڑھے ہیں اور ان سے متاثر بھی ھوں۔ جیسے سوندر سنگھ اپل، اوتار سنگھ بلنگ، جتندد پال سنگھ، عرف جولی، گردیال سنگھ، شہزاد اسلم، فخر زمان، زاہد حسن، فرزند علی اور منشا یاد وغیرہ کی پنجابی ناولین پنجابی کی اچھی ناولز میں شمار کی جاسکتی ہیں۔ ناول " دیا ور دریا" کے خالق افضل احسن رندھاوا ، شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ اردو، انگریزی اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ اس ناول کا کا ترجمہ زاہد حسن نے کیا ھے۔ یہ ناول زاہد حسن نے مارچ ۲۰۰۵ نے ڈاک سے ارسال کی تھی۔ اس ناول میں متحدہ پنجاب کے دہقانی معاشرت کے کربوں کو بڑی خوش اسلوبی اور منفرد افسانوی لہجے میں اور بیانیے کوبڑی ہنرمندی کے ساتھ بیاں کیا ھے۔ اس ناول کا نفسیاتی اور عمرانیاتی مخاطبہ خارج سے دستبردار ھوکر موضوعی مکالمہ قائم کرتا ھے۔ جس میں لوک کہانیاں گیتوں اور ثقافتی مرکذیت کو بڑی خوب صورتی سے لکھا گیا ھے۔ اس ناول مِیں سات /۷ کردار، اجاگر سنگھ رندھاوا، شمشیر سنگھ، ہربچن سنگھ، روپو، راجند سنگھ ، اندر سنگھ ، او رسوداگر سنگھ،,… سکھ ہیں۔ ۔۔۔ اور تین /۳ کردار دین محمد، چوہدری، حاکم خان، احمد کھرل، مسلمان ہیں۔ اس ناول کو متحدہ پنجاب کا سیکولر اور کسی حد تک قوم پرستانہ خواب پوشیدہ ھے۔۔ یہ ناول رومانی بھی ھے اور سوانحی اور المیاتی بھی ھے۔ اکیاسی/۸۱ صفحات کی یہ ناول پنجاب میں پائی جانے والی محبت، نفرت اور انتقام کی اجتماعی سائیکی حاوی ھے۔ جہاں محبت اپنے آپ کو سارے جنموں میں مار لینے کا نام ھے اور انتقام دوسروں کو ایک ھی جہنم میں مار دینے کا ۔۔۔۔۔ ناول کا اختتامیہ بڑا المناک اوور درناک ھے:
"شمشیر سنگھ نے آنکھیں بند کرلیں اور پورے زور سے ہاتھ مارا۔ تلوار روپو کی گردن سے لے کر چھاتی کے نیچے تک گزر گئِ اور روپو کے منھ سے صرف ایک چیخ نکلی اور گر پڑی۔ شمشیر نے لہو سے بھری تلوار دور پھینک دی اور وہ ہر بچن سنگھ کے گلے لگ کے بچّوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا"۔۔۔۔۔۔ افضل احسن رندھاوا کی شخصیت اور فن و فکر پر یہ حوالے قارئیں کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔{
== پاکستانی اہلِ قلم کی ڈائریکٹری ،فرید احمد، حسن عباس رضا ،مُرتّبین، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان ،1979ء ، ص 52
== پاکستانی اہلِ قلم کی ڈائریکٹری ، نگہت سلیم ، اسلام آباد ، اکادمی ادبیات پاکستان ، ت ن ، ص 249
== پاکستانی پنجابی شاعری ، شریف کُنجاہی ، لاہور، محکمہ اطلاعات ، ثقافت و امورِ نوجوانان ، حکومتِ پنجاب ، 1999ء ، ص 257 – 256
== اہل قلم ڈائریکٹری 2010ء ،علی یاسر،مرتب، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان 2010ء ، ص 39 / حوالہ ببلوگرافی۔ڈاٹ کام {احمد سہیل} ۔۔۔ :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔