افطاریوں کا سیزن ہے‘ اس کے باوجود اگر آپ بہترین افطاری سے محروم ہیں تو یہ آپ کا قصور ہے۔ افطاری کرنا اور افطاری کھانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ جن لوگوں کو اس باریک فرق کا پتا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کہاں افطاری کرنی اور کہاں کھانی ہے۔ ایک مسلمان بھائی کی حیثیت سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو افطاری کھانے کے چند وہ نسخے بتائوں جو میں نے آج تک اپنے لاکر میں چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ان نسخوں کو طشت از بام کر دیا جائے۔ تو لیجئے نسخے پڑھئے اور بھائی کو دعائیں دیجئے اور حتی الامکان کوشش کیجئے کہ یہ نسخے کسی اور کے ہاتھ نہ لگنے پائیں…!!!
افطاری کے وقت ایسی شکل بنا لیں گویا آپ روزے سے بالکل ہی نڈھال ہو گئے ہیں۔ ہو سکے تو تھوڑا سا لڑکھڑا کر سنبھلنے کی کوشش بھی کریں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے‘ ایک تو کنفرم ہو جائے گا کہ آپ روزے سے ہیں‘ دوسرے سب لوگ آپ کے لیے جگہ چھوڑ دیں گے؛ تاہم اس دوران حد درجہ احتیاط کریں کہ آپ کے حلق سے ڈکار نہ نکلنے پائے۔ عموماً افطاری میں سب سے پہلے دودھ سوڈا‘ یا شربت پیش کیا جاتا ہے۔ لے لیں… لیکن ذہن میں رہے کہ جونہی آپ نے شربت کا گلاس پیا‘ آپ کے معدے کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب میزبان گلاسوں میں شربت انڈیل رہے ہوں تو آپ نہایت ہوشیاری سے چٹنی والا برتن اپنی طرف سرکا لیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں سموسوں پکوڑوں کی بجائے چٹنی سرکانے پر کیوں زور دے رہا ہوں۔ اچھا سوال ہے۔ بات یہ ہے دوستو! سموسے پکوڑے تو پھر بھی مل جاتے ہیں‘ چٹنی بار بار نہیں ملتی۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے 'چٹنی چٹنی کردی نی میں آپے چٹنی ہوئی‘۔
افطاری کے دوران کسی کو صلح مارنے کی کوشش نہ کریں ورنہ گئے آپ کے سموسے… لیکن اگر کوئی اور آپ کے سامنے سموسوں کی پلیٹ کرے تو یہ سنہری موقع جانے نہ دیں۔ ایک اور بات… جب افطاری سج جائے تو حاضرین پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر اندازہ کر لیں کہ دو سموسے فی کس کے حساب سے پورے بھی آئیں گے یا نہیں‘ اگر حساب ٹھیک بیٹھے تو یہ اور بھی خطرناک بات ہے کیونکہ محض دو سموسے حصے آنا کوئی اچھی علامت نہیں‘ لہٰذا سموسوں کی لمبائی چوڑائی ذہن میں رکھیں۔ افطاری کے وقت سموسے اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھنے کی بجائے پلیٹ کو ٹرے کے قریب کریں اور دو انگلیوں کی مدد سے سموسے پلیٹ کی طرف دھکیلیں‘ اگر آپ کا نشانہ اچھا ہے تو چار سموسے کہیں نہیں گئے…!!! عموماً لوگ پہلے کھجور‘ پھر شربت اور پھر پکوڑے کھاتے ہیں۔ آپ نے تھوڑی سی ترتیب بدلنی ہے یعنی پہلے کھجور‘ پھر پکوڑے‘ پھر سموسے… پھر اور سموسے۔ ظاہری بات ہے پیاس بھی لگے گی‘ اس کے لیے آپ 'چاچے تاتاری‘ کا طریقہ آزما سکتے ہیں۔ چاچا بیک وقت چھ افطاریاں بھگتاتا ہے اور جس طرح افطاری پر ٹوٹتا ہے اس کی وجہ سے اس کا نام 'تاتاری‘ پڑ چکا ہے۔ چاچا افطاری شروع ہوتے ہی سب کی نظر بچا کر قریب پڑے شربت کے جگ میں ایک پکوڑا پھینک دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ سارا جگ چاچے کا ہو جاتا ہے۔
فروٹ چاٹ اور دہی بڑے بھی افطاری کا اہم جزو ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ باری باری یہ دونوں چیزیں پلیٹ میں ڈالتے ہیں۔ غلط طریقہ… آپ نے ایسا نہیں کرنا۔ اگر آپ نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو چمچ ڈھونڈتے ڈھونڈتے افطاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سیدھا سا کام کریں‘ فروٹ چاٹ والی ڈش اٹھائیں اور اپنی پلیٹ کے قریب لا کر اس میں انڈیل دیں‘ یہی کام دہی بڑوں کے ساتھ بھی کریں۔ کوشش کریں کہ فروٹ چاٹ کا وہ حصہ آپ کا نصیب بنے جس میں سیب‘ انگور اور انار وغیرہ شامل ہوں… امرود ‘ کیلے وغیرہ
دوسروں کے لیے چھوڑ دیں۔ اگر آپ بال بچوں والے ہیں تو افطاری کے لیے کم از کم دو بچے بھی ساتھ لے جائیں‘ انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھا دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ کیسے 'حملہ آور‘ ہونا ہے۔ افطاری میں بریانی کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ ایسی صورت میں نہایت عاجزانہ انداز میں اٹھ کر سب کی خدمت میں پہلے سے ہی ایک ایک سموسہ پیش کر دیں تاکہ سب کی بھوک مر جائے اور بریانی صرف ایک شخص کا مقدر بنے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو خود میزبانوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘ بریانی والے بھائی سے کہیں کہ لائیے میں آپ کی مدد کروا دیتا ہوں۔ اس کے بعد سب سے پہلے اپنے بچوں کی پلیٹوں میں بوٹیاں بھریں۔ وقت کم اور بوٹیاں زیادہ ہوں تو ایک ایک 'چک مار‘ کے پھینکتے جائیں۔ چونکہ افطاری کے کچھ ہی دیر بعد نماز مغرب شروع ہو جاتی ہے لہٰذا بچوں کے ہمراہ گھر سے ایک عدد تھیلا بھی ساتھ لائیں تو زیادہ مناسب ہے۔
اکثر 'افطاری داروں‘ کا خیال ہے کہ بہترین جگہ حاصل کرنے کے لیے افطاری سے کم از کم دو گھنٹے پہلے مقررہ جگہ پہنچ جانا چاہیے لیکن یہ کلیہ ناکام ہو چکا ہے‘ کیونکہ اکثر ایسی صورت میں پلیٹیں اور دستر خوان بھی آپ ہی کو لگانا پڑتے ہیں۔ بیس منٹ پہلے پہنچنا کافی ہے۔ روزانہ ایک ہی جگہ افطاری نہ کریں بلکہ آب و ہوا تبدیل کرتے رہیں۔ گوگل میپ کی مدد سے چیک کریں کہ کہاں افطاری میں قورمہ یا چکن بروسٹ دیا جا رہا ہے۔ اگر آپ افطاری کے شوقین ہیں تو بس یہ یاد رکھیں کہ آپ نے ہر افطاری آخری افطاری سمجھ کر کھانی ہے۔ جیب میں ہاضمے کی چھ سات گولیاں رکھیں اور ہر پانچ منٹ بعد ایک گولی پھانکتے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رکھیں کہ افطاری کی جگہ آپ کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہونی چاہیے‘ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ افطاری کھانے والے افراد بعد میں دیوانہ وار گھروں کی طرف بھاگتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔
آپ نے اکثر ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو رمضان میں مزید صحت مند ہو جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت افطاری کے انہی زریں اصولوں پر عمل کرتی ہے۔ میرے ایک دوست نے تو واٹس ایپ پر اپنا سٹیٹس ہی یہ لگا رکھا ہے کہ 'مجھے دعوتِ افطاری سے پیار ہے‘۔ کیسی کمال کی بات ہے کہ بھوکا رہنے کے اس مہینے میں کھانے ہی کھانے‘ دعوتیں ہی دعوتیں۔ کچھ لوگ کھانے کے لیے زندہ ہیں اور کچھ مزید کھانے کے لیے۔ عام دنوں میں 'بھک منگے‘ اور رمضان میں 'بھوک منگے‘ جابجا نظر آتے ہیں۔ روزہ دار تو اتنا نڈھال ہو چکا ہوتا ہے کہ تھوڑی سی بھوک اور پیاس بھی اس کا پیٹ بھر دیتی ہے… لیکن جو لوگ اس کیفیت سے نہیں گزر رہے ہوتے وہ روزہ نہ بھی رکھیں تو انہیں بہت زیادہ لگتا ہے۔ افطاریوں میں ایسی شخصیات صاف نظر آجاتی ہیں‘ ان کی پہچان کا ایک بڑا آسا ن سا طریقہ ہے‘ یہ مسجد میں تو آتے ہیں‘ ڈٹ کے افطاری بھی کرتے ہیں لیکن جونہی جماعت کھڑی ہوتی ہے یہ غائب ہو جاتے ہیں۔ بھوک پیٹ میں نہیں نیت میں ہوتی ہے‘ پیٹ بھر جاتا ہے نیت نہیں بھرتی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔