16؍فروری 1933*
پاکستان کے اہم نظم گو شاعر” آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
آفتاب اقبال شمیمؔ اردو نظم کے موجودہ شعراء میں بلا مبالغہ سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ وہ جہلم میں ١٦؍فروری ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے اور تمام عمر تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ دورانِ ملازمت ان کا قیام چین کی ایک یونیورسٹی میں بھی رہا جہاں انہوں نے چین کی ثقافت کا بغور مطالعہ کیا۔ چین کی ثقافت نے ان کی شخصیت اور ان کے فن پر گہرے نقش چھوڑے۔ 1995ء میں وہ گورڈن کالج راولپنڈی سے تقریباً چار عشرے پڑھانے کے بعد ریٹائر ہوئے اور آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ’’زید سے مکالمہ‘‘، ’’گم سمندر‘‘ اور ’’فردا نژاد‘‘ شامل ہیں، اس کے علاوہ 2013ء میں ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’’سایہ نورد‘‘ کے نام سے بھی سامنے آیا۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر آفتاب اقبال شمیمؔ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین…
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
ذرا سی غیب کی لکنت زبان میں لاؤ
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
نہیں تو تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا
مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
کھلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا
حجاب ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا
ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے
کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا
جو چاہو تو زمانے کا زمانہ واژگوں کر دو
مگر پہلے حدود جاں میں ہنگامہ اٹھاؤ نا
سبک دوش زیاں کر دیں زیاں اندیشیاں دل کی
ذرا اسباب دنیا راہ دنیا میں لٹاؤ نا
لئے جاتے ہیں لمحے ریزہ ریزہ کر کے آنکھوں کو
نہایت دیر سے میں منتظر بیٹھا ہوں آؤ نا
✧══════════════✧
اک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامۂ دنیا پر
اور کانِ سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
کیفیت بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
میں کون ہوں، ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اسی دلی کے مٔےنوش پہ رکھتا ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
آفتاب اقبال شمیمؔ