آفتاب اب مغرب میں طلوع ہوتا ہے ۔۔۔
قرطبہ کی عظیم مسجد جمعہ کے نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ پاؤں دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے والے منقش ستون سے ایک سیانی عمر کا شخص رسوں سے کس کر باندھ رکھا گیا تھا۔ مسجد قرطبہ میں داخل ہونے والوں کے لئے یہ ایک عجیب منظر تھا۔ اس لئے کہ یہ شخص قرطبہ کا قاضی القضاء تھا ۔ ایک راست گو، پکا مسلمان، دیانت دار، دین و دنیا کا پابند، اور اس قدر درگریز کرنے والا کہ جب کسی فیصلے میں کوئی موت کی سزا پانے کا جرم دار بھی ٹہرتا تو وہ اس سزا کو دینے کے فرائض کسی دوسرے قاضی کی ایما پر چھوڑ دیتا۔ اس نے تمام عمر کسی کو موت کی سزا نہیں دی۔ قرطبہ کے اس قاضی کا جرم بھی قدرے عجیب تھا۔ وہ علم و عقل کی باتیں کرتا تھا۔
مسجد قرطبہ میں خلیفہ کی ہدائت کے مطابق اسے ایک مجرم کی حیثیت سے علمائے شہر کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ قرطبہ کا قاضی بصد حیرت و احترام اس کونسل کی باتیں سنتا رہا ۔ اس اسلامی کونسل کے علماء کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کی نا سمجھ آنے والی غیر اسلامی باتوں کی بنیاد پر ، رواج کے مطابق، اس شخص کو در بدر کر دیا جائے۔ ۔۔ مسجد قرطبہ سے باہر نکلتے ہوئے ہر نمازی کو اس کے منہہ پر تھوکنا چاہیئے۔۔۔ یاد رہے کہ عربوں میں، آج بھی کسی کے منہہ پر تھوک دینا کسی کی رذالت اور توہین کا انتہائی درجہ ہے ۔
قرطبہ کا قاضی القضاء ، جس کی تعلیمات یورپ کو ایک مذہبی بالادستی، تنگ نظری، اور علم و عقل کے نئے زاویئے دینے اور سکھانے والا عظیم عالم ابن رشد ہی تو تھا۔جس کی علم و عقل کو مغرب نے دل کی گہرایؤں سے قبول کیا۔ مغرب آج بھی ابن رشدکو پیر و مرشد ماننے میں کبھی انکاری نہیں رہا۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ابن رشد کے فلسسفے کو جانتے ہیں۔۔۔۔
انسانوں میں غور و خوض کی خواہش ایک عالمگیر سچائی ہے۔ سوچ پر کبھی بھی پہرے نہیں بٹھائے جاسکتے ۔ فلسفے نے اپنی بنیاد قدیم یونان میں رکھی تھی۔ افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات نے اپنے دور میں نئے مدرسہ فکرکو قائم کیا۔ جو ایک سلسلے میں مربوط ہو کر آگے بڑھتا رہا۔ اسی یونانی علم و عقل کی ترویج و ترقی میں کئی مدرسے، جامعات، ادارے اور لائبریریاں قائم ہوئیں۔ لیکن پھر چھٹی صدی عیسوی تک یونانی فلسفہ معدوم ہوتے ہوتے ناپید ہو گیا۔ اگلے کئی سو سالوں تک ، مذہبی اجارہ داری نے ، یورپ کو جہالت کی اتھاہ گہرایؤں میں دھکیل دیا۔ قرون وسطیٰ کے اس دور کو آج بھی ’’یورپ کے تاریک دور ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
لیکن نویں صدی عیسوی میں انسانی علم و عقل نے اپنے احیاء کو ایک تحریک کی صورت میں مذہبی قیدو بند سے نکال باہر کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ احیائے علم کی اس تحریک کے ڈانڈے اسلامی بغداد سے ہوتے ہوئے قرطبہ تک جا پہنچتے ہیں۔ مسلمان مفکرین نے، اپنے علمی عروج میں، یونانی فلسفیوں کی کتابیں کھوج نکالی تھیں اور ان کے عربی، عبرانی ترجمعے کر دئے تھے۔ خاص طور پر ارسطو کی تعلیمات کو اسلام سے منطبق کرنے کی کاوش شروع کی گئی۔ .اس طرح کئی صدیوں کے لئے، ایک سلسلہ کے طور پر ، شاندار فلسفیوں اور سائنسدانوں نے بغداد کو دنیا کے دانشورانہ مرکز میں تبدیل کر دیا۔ علم و حکمت کا یہ مرکز سب سے پہلے شمالی افریقہ ، پھر جنوبی سپین میں، اور بالآخر پھر عیسائی یورپ کے شمال تک پہنچ گیا۔ ہم جسے آج مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، اسلامی دنیا نے یہیں فلسفہ اور سائنس کا عظیم کلاسیکی دور .دیکھا تھا۔ تاہم کئی صدیوں کے بعدتک ، فلسفہ اور سائنس کا مطالعہ دوسرے مسلم ممالک میں بھی پھیل گیا تھا۔
مگر پھر آخر ہوا کیا؟؟؟ مسلمانوں کے عروج کا سورج جو ان کے مشرق سے ابھرا تھا ، اسی مشرق میں غروب ہونے لگا تھا۔ مگر دوسری طرف صدیوں کی محیط تاریکی میں ڈوبے مغرب سے سورج ابھر آیا تھا۔ مغرب میں سائنس ایک نئی کروٹ لے کر اٹھ بیٹھی تھی۔ یوں تو یورپ کی نشاط ثانیہ میں کئی عوامل کی شان دہی کی جا سکتی ہے لیکن اگر علم و عقل کی آبیاری کرنے کی بات کی جائے تو مسلمان عالموں کی ایک فہرست نظر آتی ہے۔ ان میں کچھ واقعی قدآور تھے۔ انہی میں سے ایک ابوالحسن محمد بن احمد بن محمد بن رشد تھا جسے مغرب نے ایک لاطینی نام دیا۔۔۔ آورروز، . (Averro235s) ابن رشد آخری عظیم اسلامی فلسفیوں میں سے ایک تھا جس کی زندگی ، کام ، اور فلسفہ کی مضبوط دلیلوں نے یورپ کو علم عقل کی ایک پٹڑی مہیا کی جہاں وہ اس کی توقع مسلمانوں سے کبھی نہیں کرسکتے تھے.
ابن رشد نے ہمیشہ سے ایک ایک متنازعہ زندگی گزاری ہے۔ وہ قرطبہ ، سپین ، جو اسلامی دنیا کا مشرقی کنارہ تھا، میں 1126 ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد اور دادا اپنے زمانے کے مشہور عالم اور مذہبی شخص تھے۔ دونوں قاضی القضا کے عہدوں پر بھی فائض رہے تھے۔ باپ دادا کی خدمات کو پیش نذ ر رکھتے مو حد خلفاء کے دربار نے ابن رشد کو پہلے سویل میں اور پھر قرطبہ کا قاضی مقرر کیا۔ ابن رشد ایک دانا طبیب بھی تھا اور مراکش میں ٖخلیفہ کے دربار میں شاہی طبیب کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔
(جاری)
الیکس علی کی کتاب "نامعلوم سے معلوم کا سفر" سے ایک اقتباس
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔