ٹرین اپنی پوری رفتار پکڑ چکی تھی۔ جنرل بوگی مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ میری سامنے والی برتھ پر ایک برقعہ پوش لڑکی آس پاس کے ماحول سے بے پروا بڑے انہماک کے ساتھ اپنے موبائل فون پر جھکی ہوئی تھی اور میری نظریں اس لڑکی کا طواف کر رہی تھیں۔کبھی کبھی موبائل سے نظریں ہٹا کر وہ میری طرف دیکھتی تو ہماری نگاہوں کے تصادم سے میں ہڑبڑا جاتا اور جھینپ کر نگاہیں دوسری جانب پھیر لیتا تووہ بھی دوبارہ اپنے فون میں مشغول ہو جاتی۔
اس لڑکی کے بغل میں ایک چچا غالباً اپنی بیوی اور آٹھ بچوں کی مختصر فیملی کے ساتھ براجمان تھے۔ ’غالباً‘اس لئے کہ چچا اور چچی کی عمر میں کافی فرق نظر آرہا تھا۔چچی تو بچوں میں الجھی ہوئی تھیں،مختصر سی جگہ میں وہ بچوں کو اِدھراُدھر ٹھونسنے کی چکر میں ہلکان ہوئے جا رہی تھیں مگر چچا عجیب نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔میں جب بھی اس لڑکی کی طرف نگاہ کرنے کی کوشش کرتا تو انہیں اپنی طرف متوجہ پاتا۔
”اپنے سارے کام تو نپٹا چکے ہو،اب میری راہ میں روڑا کیوں بن رہے ہو؟“جی چاہا کہ کہہ دوں مگر صرف سوچ کررہ گیا۔چچا یوں ہی مجھے گھور رہے تھے کہ اچانک ایک پلاسٹگ گیند اُن کے چشمے پر آ لگی۔چچا نے آؤ دیکھا نا تاؤ۔بچوں کے جھنڈ میں سے ایک سات یا آٹھ سالہ لڑکے کو کالر پکڑ کر کھینچا اور اسے پیٹنے لگے۔
”میں نے کچھ نہیں کیا ابو،وہ فیضان نے گیند پھینکی ہے۔“بچہ روتے روتے کہنے لگا۔
”ستیاناس ہو اُس کم بخت کا۔“ چچی نے روتے ہوئے بچے کو سینے سے لگالیا۔”ہر وقت میرے منے کو مار کھلاتاہے۔“
چچی پان چباتے چباتے غصے سے لال ہو رہی تھیں اور میں نے دل ہی دل میں فیضان کو ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں۔اس کی گیند کا نشانہ بالکل صحیح جگہ پر تھا۔
”رہنے دو بہن، بچے شرارتیں تو کرتے ہی رہتے ہیں۔“ بازو والی برتھ پر ایک اور بزرگ خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔
”بچہ نہیں،یہ شیطان کا پلا ہے۔“ چچی کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔
ایسا نہیں کہتے بی بی۔وہ بھی آخر آپ ہی کی اولاد ہے۔“وہ بزرگ خاتون بھی جانے کیوں بات کو طول دے رہی تھیں۔
”ہنہ۔میری اولاد۔“چچی نے حقارت سے کہتے ہوئے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔میرے سامنے بیٹھی لڑکی ہنوز موبائل فون پر مصروف تھی۔چچا سونے کی ایکٹنگ کر رہے تھے۔مگرمیں جانتا تھا کہ ان کی نظریں میرے ہی تعاقب میں ہیں۔چچا کی آدھی فوج سو نے کی کوشش کر رہی تھی اور باقی آدھی فوج کو آج کل کے حکمرانوں کا شوق چرایا تھا،دوسروں کی نیندیں حرام کرنے کا۔ چچی بدستور پان چبائے جا رہی تھیں۔کچھ دیر بعدوہ نارمل نظر آنے لگیں تو اُن بزرگ خاتون نے ایک بار پھر مورچہ سنبھال لیا۔
”معاف کرنا بہن،یہ سارے بچے کیا آپ ہی کے ہیں؟“
”نہیں تو! آدھے میرے ہیں اور آدھے اُن کے۔“ یہ کہتے ہوئے چچی کے چہرے پر جو لجا کی سرخیاں ابھر رہی تھیں وہ دیکھنے کے قابل تھیں۔
”مجھے پہلے سے ہی شک ہو رہا تھا۔پھر تم کون سے نمبر کی بیگم ہو۔ بڑے میاں تو خاصی عمر کے لگ رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ ساٹھ پینسٹھ بہاریں تو دیکھ ہی چکے ہیں اور تم بمشکل چالیس کی لگ رہی ہو۔“
”جی چوتھی۔“یہ کہتے ہوئے چچی اٹھیں اور کھڑکی کے قریب منہ لے جا کر پان کی پیک کو کھڑکی کے باہر تھوک دیا۔میں اُن بے چاروں کی حالت کے بارے میں سوچنے لگا جو سیٹ نہ ملنے کے سبب دروازوں میں کھڑے ہوئے تھے۔
”ما شاء اللہ،بڑے میاں سنت کے بہت پکے لگتے ہیں۔“ان بزرگ خاتون نے مزاحیہ انداز میں کہا تو چچی شرم سے دوہری ہونے لگیں۔
”اب سمجھا، اپنا راستہ بند ہو چکا ہے اس لئے دوسروں کے معاملات میں چودھری بنے بیٹھے ہیں۔“اس بار بھی میں صرف سوچ کر رہ گیا۔
اتنے میں ایک کم بخت چائے والا ’چائے چائے چائے‘ کی صدا لگا تے ہوئے چائے کی کیتلی کو بالکل میرے منہ کے قریب لانے لگا۔گویا اگرمیں چائے نہ خریدوں تو گرم کیتلی میرے گال پر لگا دے گا۔
”ایک چائے دینا۔“میں نے اس ڈر سے چائے خریدی کہ بے چارہ کہیں بے روزگار ہو کرسیاست میں نہ چلا جائے اور کل کلاں کو ملک کی باگ دوڑ کہیں اس کے ہاتھ میں نہ آجائے۔پھر جیسے آج اس نے میرا گال جلانے کی کوشش کی،کل دیش کو جلانے کی کوشش نہ کرے۔
”آپ کی میڈم کے لئے نہیں لوگے چائے؟“چائے والے نے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا،یہ سن کر لڑکی تلملا اٹھی۔
”باہر نکلنے کا راستہ اُدھر ہے۔“
لڑکی کے انداز سے اُس کا غصہ صاف جھلک رہا تھا۔چائے والاسر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔میں بمشکل اپنی ہنسی روکے ہوئے تھا۔
ٹرین کسی اسٹیشن پر رک کر جب دوبارہ چلنے لگی تو ٹرین میں کچھ اوباش قسم کے لڑکے آگئے۔ جب ان کی نظر میری سامنے والی برتھ پر موجود لڑکی پر پڑی تو وہ اُس پر فقرے کسنے لگے۔
”کیا حال ہیں میڈم جی؟“
”چاند سے چہرے کو بادل میں کیوں چھپائے بیٹھی ہو؟“
”بادل میں چھپا ہی لیا ہے تو کم از کم کچھ برسات ہم پر بھی ہو جائے۔“
سارے بدمعاش لڑکے لڑکی کو ہراساں کر رہے تھے مگر بوگی میں موجود سارے لوگ ڈر کے مارے خاموش تھے۔ چچا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل سی سی ٹی وی کا کام کر رہے تھے،ڈر کے مارے جھوٹ موٹ کی گہری نیند سو رہے تھے۔چچی دبی زبان میں شاید ’جل تو جلال تو‘ پڑھ رہی تھیں۔ ان بدمعاشوں کے مکروہ قہقہے بلند ہورہے تھے اورمیرا خون کھول رہا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا،لڑکی کی کڑک دار آواز نے مجھے چونکا دیا۔
”برسات میں بھیگنے کا شوق رکھنے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ان پر بجلی بھی گر سکتی ہے۔“
”آپ تو برا مان گئیں۔ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی گرمی میں یہ کالے کپڑے آپ کو اور پریشان کر سکتے ہیں۔کیوں ان کے پیچھے خود کو قید کرلیاہے؟“ایک بدمعاش نے لڑکی کے برقعے کو کھینچتے ہوئے کہا تو لڑکی نے اُس کے گال پر ایک زناٹے دار چانٹا جڑ دیا۔
”تاکہ تم جیسوں کی کالی نظر سے محفوظ رہ سکیں۔سمجھ گئے؟“
لڑکی کی قوت دفاع دیکھ کر سارے لڑکے سہم گئے اور پیچھے ہٹنے لگے۔اوباش لڑکوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑکی کا پر اعتماد لہجے میں منہ توڑ جواب دینا مجھے بہت بھاگیا۔فی زمانہ لڑکیوں کو ایسے ہی اپنی حفاظت کی ذمہ داری خودلینی چاہئے۔مگر یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا اور میں خاموش تماشائی نہیں بن سکتا تھا۔
”اگر اورکچھ کہا تو تم سب کے ہوش ٹھکانے لگا دوں گا۔۔۔“میں نے آستین چڑھاتے ہوئے غصیل لہجے میں کہا۔ مجھے طیش میں آتا دیکھ کر اُس لڑکی نے میری بات کاٹ دی۔
”آپ رہنے دیں بھائی صاحب،میں ایسوں سے نپٹنا بخوبی جانتی ہوں۔“تیز لہجے میں لڑکی نے کہا تومیں ایک بار پھر اُس دلیر اور باہمت لڑکی کو ستائش بھری نظروں سے دیکھنے لگا مگر اس کا مجھے’بھائی‘ کہنا دل پر چھریاں چلا گیا۔
”کوئی بات نہیں میڈم جی۔گرم کیوں ہو رہی ہو؟یہ سارے کالے رنگ بہت جلد کیسری ہونے والے ہیں۔“
”میرے کپڑوں کا رنگ نہیں،اپنی سوچ بدلو۔اور اُس سے پہلے اپنی نظروں کے کالے پن کو دور کرو۔“
لڑکی ترکی بہ ترکی جواب دینے لگی تو بدمعاشوں کے حوصلے پست ہونے لگے اور ایک لڑکی کے ہاتھوں خود کو ذلیل ہوتا دیکھ کر وہ سارے ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک گئے۔
”شاباش میری بچی۔“بدمعاشوں کے جاتے ہی چچی نے آگے آ کر اس کی پیشانی چوم لی۔”کیا دیدہ دلیری کا کام کیا ہے تم نے۔ جی خوش ہو گیا دیکھ کر۔“
چچی کی آواز سنتے ہی چچا کی نیند مکمل ہوگئی اور وہ کسمساتے ہوئے آنکھیں کھولنے کی بھدی ایکٹنگ کرنے لگے۔
”کس بات کی شاباشی دی جا رہی ہے بیگم؟“
”کچھ نہیں چچا۔ کچھ غنڈے گھس آئے تھے،چلے گئے۔اب آپ پوری طرح سے اپنی آ نکھیں کھول سکتے ہیں۔“میں نے ہنستے ہوئے چٹکی لی۔
”تو مجھے جگا دیا ہوتا۔کم بختوں کی ہڈیاں توڑ کر انہیں ہی گنوا دیتا۔“چچا مٹھیاں بھینچ کر کہنے لگے۔ میں جل کر رہ گیا۔
”نہیں چچا،ایسوں کے لئے تو میری سینڈل ہی کافی ہے۔“لڑکی نے موبائل فون پر نظریں گڑائے ہوئے کہا۔
”ہاں بیٹی۔گھر میں بیلن اور باہر سینڈل۔یہ دو ہتھیار عورت کی حفاظت کے ضامن ہیں۔“یہ کہتے ہوئے جانے کیوں چچا کن انکھیوں سے چچی کو دیکھنے لگے۔شاید چچا کی پیٹھ پر بیلن کے نشانات موجود تھے۔
”ویسے تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی بیٹی۔“چچی نے توصیفی انداز سے اس لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”آج کے اس بے حیا دور میں بھی تم نے اسلامی معاشرے کے لازمی جزکو اپنائے رکھا ہے۔ورنہ آج کل تو آزادی کے نام پر لڑکیاں بے پردہ ہو کراپنی آبرو کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔ان لڑکیوں کے لئے تم ایک مثال ہو بیٹی۔“
”جی۔میں بھی عورتوں کے حقوق کی علم بردار ہوں مگر پردے میں،میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ میری ماں بھی ہمیشہ گھونگھٹ میں رہتی ہیں۔ میرے پاپا کہتے ہیں کہ عورت کی حیا ہماری ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور عورت اگر لب و لہجے میں سختی کے ساتھ بات کرے تو اجنبیوں کے ناپاک عزائم پست ہو جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے پردے کو اپنایا ہے۔اور آج یہاں جو ہوا وہ میرے فیصلے کو صحیح ثابت کرتا ہے۔“
اس لڑکی کی متاثرکن باتیں سن کر میں سوچنے لگا کہ کاش ہر ماں باپ اپنی لڑکیوں کو ایسی ہی تربیت دیں تو بے پردگی کے طوفان ِ بد تمیزی کو روکا جا سکتا ہے کیوں کہ بے پردگی ہی عورت کی تباہی کی پہلی سیڑھی ہے۔
”ماشاء اللہ۔بہت اچھی تربیت دی ہے آپ کے والد نے۔کیا نام ہے بیٹی آپ کے والد کا؟“چچا نے پوچھا تو اس لڑکی کی آنکھوں میں عجیب سی فخریہ چمک ابھر آئی۔
”میرے پاپا کا نام روہت شرما ہے اور وہ یونیورسٹی میں سنسکرت کے پروفیسر ہیں اور میرا نام پریتی شرما ہے۔‘‘
لڑکی کی بات سن کر ہم سب دم بخود رہ گئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔چچی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کبھی اُس لڑکی کو،تو کبھی چچا کو دیکھ رہی تھیں۔میں بھی ساکت ہو کر بیٹھا رہا۔کچھ دیر بعد لڑکی نے موبائل فون کو پرس میں رکھا اور پھر پرس کو کندھے پر ڈال لیا۔ شاید اُس کا اسٹیشن آ گیا تھا کیوں کہ ٹرین رینگنے لگی تھی۔
”کیا آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اچھائی کی پرکھ رکھتے ہیں؟“میں بار بار خود سے یہ سوال کر رہا تھاکیوں کہ میں ابھی بھی یقین اور بے یقینی کے پیچ میں الجھا ہوا تھا۔
ٹرین پلیٹ فارم پر رکی تو لڑکی ٹرین سے اتر کر چلی گئی مگر اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی اور میں اُن عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں سوچنے لگا جو کلمہ گو ہو کر بھی پردے کو معیوب سمجھتی ہیں اور گھر کے مردوں کی غیرت کو پیروں تلے روند کرسڑکوں،بازاروں اور شادیوں میں دندناتی پھرتی ہیں۔
٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...