افسوس! میاں محمد نوازشریف کا کوئی خیرخواہ نہیں! اور وہ عورت سخت خطرے کا باعث ہے۔
ہائے افسوس! کسی کو میاں نوازشریف کی پروا نہیں! ہر کوئی اپنا پیچ درمیان میں رکھے ہوئے ہے۔ اکیلے رہ گئے! ہیہات! ہیہات! میاں صاحب اکیلے رہ گئے۔
ابھی کچھ ہی دیر میں وہ عورت خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی ہے۔ اس فقیر کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سب اُن سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔ اللہ نہ کرے‘ سودا گھاٹے کا سودا بن جائے۔
وہ عورت آنے والی ہے۔ نور فاطمہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کسی کو پروا نہیں!
کابینہ کے ارکان کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ انہیں مجبوری بھی کوئی نہیں کہ ساتھ دیں۔ یہ جو میاں صاحب کے بل بوتے پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور اُڑتے پھر رہے ہیں‘ یہ سب غائب ہونے والے ہیں۔
اسحاق ڈار صاحب‘ جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے گھروں میں چولہے بجھا دیے ہیں‘ جو کھرب پتی نہیں‘ کھرب ہا پتی ہیں‘ جو متحدہ عرب امارات کے ارد گرد کے سمندروں کو اپنے کوزے میں بھر سکتے ہیں‘ انہیں بھی غرض ہے نہ فکر کہ میاں صاحب کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
عابد شیر علی جو زبان کھولتے ہیں تو لگتا ہے فضا میں کسی نے ہزاروں ٹن پٹرول پھیلا کر دیا سلائی دکھا دی ہے‘ جو حسنِ اخلاق اور حسنِ تکلم کا روئے زمین پر بہترین نمونہ ہیں‘ انہیں بھی میاں صاحب کی پروا نہیں‘ حالانکہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں‘ اپنے قریبی رشتہ دار میاں نوازشریف ہی کی وجہ سے ہیں۔
جن تیس سے زیادہ خواتین کو میاں صاحب نے اپنے شہر سے پارلیمنٹ کے لیے نامزد کیا ہے وہ بھی کسی کام نہیں آنے والی!
صدر ممنون حسین ہی کو لے لیجیے! کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ اس منصب پر فائز ہوں گے۔ کہاں بھارت‘ سنگاپور اور ایران کے صدور… جن کی زندگیاں سیاسی تجربوں اور علمی پس منظر سے بھری ہوئی ہوتی ہیں‘ جو غیر ملکی سفیروں سے بات کرتے ہیں تو اپنی ذہانت اور قادرالکلامی کی دھاک بٹھا دیتے ہیں اور کہاں ہمارے صدر جن کا کوئی Exposure ہے نہ ان کے تھیلے سے کوئی کبوتر یا خرگوش نکل سکتا ہے‘ ان کی صدارت پوری کی پوری‘ مکمل طور پر میاں صاحب کی شفقت اور کرم فرمائی کی مرہونِ منت ہے۔ کیا جناب ممنون حسین میاں صاحب کا احسان اُتار سکتے ہیں؟ کبھی نہیں! لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے‘ ابھی جب وہ عورت آئے گی تو جناب ممنون حسین بھی دوسری طرف دیکھنے لگ جائیں گے۔
میاں صاحب کا برادر زادہ جو میاں صاحب ہی کی مہربانی سے آج بغیر کسی استحقاق کے سب سے بڑے صوبے کا عملاً بادشاہ ہے۔
میاں صاحب کا جاں نثار بھائی جو پرویز مشرف کے بہلانے پھسلانے کے باوجود اپنے بھائی کا وفادار رہا اور جو آج ایک صوبے کا حکمران ہونے کے باوجود وفاقی معاملات میں‘ اپنے دیگر ہم منصبوں کے برعکس‘ پوری طرح دخیل ہے۔
میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اور ان کے سعادت مند اور فرماں بردار صاحبزادے!
سب سے بڑھ کر ان کی اہلیہ محترمہ‘ جو میاں صاحب کے ایامِ اسیری میں کمال جرأت سے میدان میں اتری تھیں‘ جن کی ساری زندگی اپنے نامور شوہر کی محبت اور اطاعت میں گزری ہے۔
افسوس! ان میں سے کوئی بھی میاں صاحب کے کام نہیں آنے والا۔
’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آن پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘۔
ابھی کچھ ہی دیر میں جب میدان میں سب اکٹھے ہوں گے تو یہ عورت آ دھمکے گی۔ اسے ٹالنے کی‘ اسے روکنے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس اڑتیس سالہ عورت کے ساتھ اس کی نوزائیدہ بچی نور فاطمہ ہوگی۔ یہ اُٹھ کر بلند آواز سے (واذالصحف نشرت۔ جب صحیفے نشر ہوں گے) اپنا معاملہ اٹھائے گی۔
’’میں نور فاطمہ کی ماں حاملہ تھی۔ میں نے اس بچی کو نو ماہ پیٹ میں رکھا۔ اُن تکلیفوں کا جو میں نے دورانِ حمل اٹھائیں‘ اللہ کی کتاب میں باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ میں اس بچی کو جنم دوں‘ میرا میاں مجھے رکشے میں بٹھا کر ہسپتال لے جا رہا تھا۔ دردِ زِہ شروع ہو چکا تھا۔ درد… ایسا درد جو جسم کو شل اور دماغ کو سُن کر رہا تھا۔ یوں کہ کراہنے کی ہمت بھی نہ تھی۔ بس ایک ہی دُھن تھی کہ ہسپتال پہنچ جائوں اور ڈاکٹر میری زندگی کی اس مشکل ترین ساعت میں میری مدد کریں۔
لیکن ابھی ہم ہسپتال پہنچے نہ تھے کہ ہمیں راستے میں روک لیا گیا‘ ساری ٹریفک روک لی گئی۔ اسلامی مملکت پاکستان کے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف کی سواری گزرنے والی تھی۔ پولیس کے اُن اہلکاروں نے‘ جو میرے میاں کی حلال کی آمدنی سے کاٹے گئے ٹیکسوں سے تنخواہ پا رہے تھے‘ ہماری ایک نہ سنی۔ ہم ان کے آگے روئے‘ ہم گڑگڑائے ہم نے ہاتھ جوڑے لیکن حکمرانِ اعلیٰ کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت تھی۔ ہم کیڑے مکوڑوں سے بھی گئے گزرے تھے۔ ٹریفک وارڈن نے‘ جس کے سامنے ہم منت اور زاری کر رہے تھے‘ مدد کرنے کے بجائے ہمارے ہاتھ میں چالان پکڑا دیا۔ وہ چالان اب بھی میرے ہاتھ میں ہے۔ پھر مجھ پر وہ وقت آ پہنچا جو ایک بدّو کی بیوی پر آیا تھا تو امیر المومنین عمر فاروقؓ اس کی مدد کے لیے اپنی زوجہ محترمہ کو لے کر آ گئے تھے۔ وزیراعظم کی سواری جانے کس وقت گزری لیکن میں نے بچی کو سڑک کے کنارے سترہ جنوری 2014ء کو رکشے میں جنم دیا۔ رکشے میں جنم لینے والی بچی نور فاطمہ گواہی کے لیے موجود ہے‘‘۔
افسوس! میاں محمد نوازشریف کا کوئی خیرخواہ نہیں۔ یہ فقیر مسمی محمد اظہار الحق ولد حافظ محمد ظہور الحق قوم اعوان سکنہ جھنڈیال تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک محترم میاں صاحب کو متنبہ کر رہا ہے کہ یہ عورت خطرے کا باعث ہے اور ٹلنے والی نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2014_01_01_archive.html
“