حجاج! تو نے یہ کیا کیا؟ افسوس! تو نے کیا کر دیا!
ایک خاتون کے دہائی دینے پر اتنا طوفان کھڑا کیا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، سری لنکا سے آنےوالے جہاز کو قزاقوں نے لوٹا، کچھ کو قیدی بنایا، ایک عورت نے دہائی دی۔ یا حجاج! اور تم نے بصرہ سے لےکر دیبل تک…. عراق سے لےکر سندھ تک…. زمین کو اس بے یارو مددگار عورت کی دہائی سے بھر دیا۔ تم نے جواب میں ”لبیک“ کہا اور پھر سینکڑوں ہزاروں کوس پر پھیلے ہوئے کوہ و دشت اور صحرا و دریا پر اور آبادیوں اور ویرانوں پر اپنے لبیک کی گواہی کو چادر کی طرح تان دیا۔ ایک تنی ہوئی چادر، افق تا افق، شہر تا شہر— ہر اس عورت کو ڈھانپتی ہوئی جو دہائی دے اور حجاج لبیک کہتا ہوا، لشکروں کو روانہ کر دے!
ضائع کیا تم نے اپنے لشکروں کو اے حجاج! ریاست کے لاکھوں درہم اور دینار خرچ کر ڈالے، راجہ کی حکومت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، صرف ایک عورت کی فریاد پر! افسوس ہے حجاج! تم پر افسوس ہے!
اور تمہاری تشویش— اور بے تابی— اور راتوں کی بے خوابی اور دنوں کا پیچ و تاب— یوں کہ لشکر دیبل روانہ ہوا تو ایک ایک کوس کی رپورٹ طلب کی، ایک ایک پڑاﺅ کا محاسبہ کیا، ہراول دستے بھیجے اور معلوم کیا کہ وہاں کا پانی کیسا ہے اور کھجور کس معیار کی ہے اور گھوڑے کیسے ہیں؟
حجاج! تم نے یہ سب ایک عورت کی فریاد پر کیا؟ افسوس حجاج! افسوس!
کاش تم آج ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ عورتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوتیں ذلیل و رسوا ہوں۔ عورت جس کے بارے میں اللہ کے آخری رسول نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں تلقین کی تھی کہ ان کا خیال رکھنا— عورت — ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو یہ باور کرائے کہ مملکت خداداد میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں!
وہ عورت تو ان پڑھ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کےساتھ معاملہ اسی طرح کیا گیا جیسے ان پڑھ عورتوں کےساتھ ونی کی جاتی ہے اور اسوارہ کیا جاتا ہے اور کاروکاری کی جاتی ہے۔ وہ ایک یونیوسٹی میں پروفیسر تھی۔ اپنی گاڑی پر جا رہی تھی۔ اسے ایک مرد نے غلط اوورٹیک کیا اتنا غلط کے اس عورت نے مشکل سے اپنی گاڑی کو اور اپنے آپ کو بچایا۔ اس نے مرد ڈرائیور سے احتجاج کیا اور بحث کی۔ اس گستاخی کی سزا اسے یوں ملی کہ پوری رات تھانے میں گذارنا پڑی، اسے کسی ایف آئی آر— کسی مقدمے کسی جرم کے بغیر رات بھر محبوس رکھا گیا۔یہ سب کچھ جائز تھا‘ اس لئے کہ یہ اقلیم ان حکمرانوں کی ہے جو ملک میں خونیں انقلاب کی نوید سناتے ہیں جو اپنے لئے محلات نہیں، محلات کے شہر بساتے ہیں۔ جو اپنی کھانسی، اپنے زکام اور اپنی چھینک کے علاج کےلئے بھی سات سمندر پار جاتے ہیں جہاں انکے سرمائے ہیں اور انکی سلطنتیں ہیں۔
جب پولیس آفیسر سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے غیر قانونی طور پر خاتون کو رات بھر کیوں محبوس رکھا تو اخباری رپورٹ کے مطابق وہ مسکراتا ہے اور جواب میں صرف اتنا کہتا ہے کہ مجھے حساس ادارے کے اہلکار نے کہا تھا سبحان اللہ کیا منطق ہے اور کیا اختیار ہے!
ہاں، درست ہے کہ حساس ادارے کے افسر اور اہلکاروں نے غلط کام کیا‘ انہوں نے اپنے دائرے سے تجاوز کیا۔ حساس اداروں کے اصحاب قضا و قدر کو یہ امر یقینی بنانا چاہئے کہ کسی فرد واحد کے ذاتی جھگڑے یا ذاتی انا کےلئے شعبے کا استعمال بند ہو لیکن کیا ایک پولیس افسر اتنا چھوئی موئی، اتنا بے بس اور اتنا ڈرپوک ہوتا ہے کہ کسی بھی حساس ادارے کے اہلکار اس سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے افسر اعلیٰ کو بھی صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا؟ تو پھر کل کو رینجرز، ایف سی، سکاﺅٹ اور ملیشیا بھی تھانوں میں اپنی مرضی چلائیں گے پھر پرسوں واپڈا تھانوں کو دھمکی دے گا کہ اگر اس کے کہنے پر فلاں عورت کو محبوس نہ کیا گیا تو وہ تھانے کی بجلی کاٹ دینگے۔ واہ! کیا اسلوب حکمرانی ہے۔ سچ کہا تھا اہل دانش نے کہ جب صوبوں کے سربراہ اداروں کو پامال کر کے ہر کام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور مجوزہ طریق کار کے بجائے ”حکم“ چلے گا اور ہر بازار سے نظر گھنٹہ گھر ہی پر پڑے گی تو اہلکار کام کرنا چھوڑ دیں گے اور ادارے خاک کا ڈھیر بن جائیں گے اور پوری مشینری صرف ایک شخص کا امیج تعمیر کرنے میں لگ جائےگی۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو پھر لوگ قانون کے محافظوں پر تین حرف بھیج کر طالبان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ لاقانونیت کے اس جنگل میں خلق خدا کو دہشت گرد بھی بھلے لگنے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو بھی بغیر کسی جرم کے رات رات بھر تھانوں میں رکھا جائےگا۔ تو لوگ وفاداریاں بدل لیں گے۔ وہ اپنی حفاظت کےلئے اپنی عزت بچانے کیلئے پگڑیوں اورداڑھیوں والوں کو بھی خوش آمدید کہیں گے اور سفید چمڑی والوں کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگ جائینگے۔
کہاں کی سیاست اور کہاں کے تجزیے! کون سے بجٹ اور کیسی فی کس شرح آمدنی! خدا کے بندو، ایک بڑے، بہت بڑے شہر میں ایک بے گناہ خاتون کو رات بھر پولیس سٹیشن میں بند رکھا جاتا ہے اور تم اسمبلیوں میں اپنے استحقاق کی تحریکیں جمع کراتے پھرتے ہو۔ بس گنے جا چکے تمہارے دن او ر ہو چکا فیصلہ تمہاری کھڑپینچی کے بارے میں …. جعفر برمکی نے آنکھوں کو خیرہ کرنےوالا محل بنوایا اور اس میں داخل ہونے کیلئے ستارہ شناسوں سے مبارک گھڑی پوچھی۔ ایک راہ گیر نے سنا تو اس نے ساری ستارہ پرستی اور دولت کا گھمنڈ چٹکی میں اڑا دیا۔ اس نے کہا ….
تدبر بالنجومِ ولست تدری
و رب النجم یفعل ما یشائ
تو ستاروں کی مدد سے تدبیریں کرتا ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ ستاروں کو پیدا کرنےوالا جو چاہے کر لیتا ہے! افسوس ہے حجاج! تم پر تم نے ایک عوت کی فریاد پر دھرتی ہلا ڈالی اور جواب میں ایسی لبیک کہی کہ آسمانوں نے سنی، تم زندہ ہوتے تو مملکت خداداد میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھتے۔ ہائے حافظ شیرازی کہاں یاد آ گیا….
خون ما خوردند، ایں کافر دلان
ای مسلمانان! چہ درماں الغیاث
یہ کافر دل تو ہمارا خون بھی پی چکے ۔ اے مسلمانو! آخر علاج کیا ہے؟ الغیاث— الغیاث۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_06_01_archive.html
“