– 15؍فروری 1995*
نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور معروف شاعر” افسرؔ ماہ پوری صاحب “ کا یومِ وفات…
ظہیر عالم صدّیقی نام اور افسرؔ تخلص تھا۔ یکم؍دسمبر۱۹۱۸ء کو ماہ پور، ضلع سیوان(سابق چھپرا) بہار میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے گاؤں سے متصل گاؤں فرید پور میں ہوئی۔۱۹۳۸ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کا امتحان دیا اور درجہ اول میں کامیاب ہوئے۔ افسر ماہ پوری نے ۱۹۳۶ء میں رومانی افسانے لکھنے کی ابتدا کی۔ بعد ازاں نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ افسانے اور شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے اردو اور انگریزی میں تنقیدی مضامین لکھے۔آپ نے قاضی نذرالاسلام کی پچیس اسلامی نظموں کا منظوم ترجمہ کیا جو بنگال اکیڈمی، ڈھاکے کی طرف سے ’’جام کوثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد بنگالی نظموں اور بنگالی افسانوں کے تراجم اردو کے مؤقر رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
۱۵؍فروری۱۹۹۵ء کو افسر ماہ پوری، کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’غبارِ ماہ‘، ’نگارِ ماہ‘، ’طور سے حرا تک‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:90
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
معروف شاعر افسرؔ ماہ پوری کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
نہ جانے اس قدر کیوں آپ دیوانے سے ڈرتے ہیں
چراغِ انجمن ہیں اور پروانے سے ڈرتے ہیں
—
بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی
جہاں اہلِ جنوں ہوں گے وہاں زنجیر بھی ہوگی
—
وہ ہماری سمت اپنا رخ بدلتا کیوں نہیں
رات تو گزری مگر سورج نکلتا کیوں نہیں
—
داغ دل کے ہیں سلامت تو کوئی بات نہیں
تیرگی لاکھ سہی صبح کا امکاں رکھنا
—
یہ ارتقائے بشر کی ہے کون سی منزل
کہ اس کی زد میں خدا بھی ہے کائنات بھی ہے
—
ہم کہاں ہوں گے نہ جانے اس تماشا گاہ میں
کس تماشائی سے پہلے کس تماشائی کے بعد
—
ہم تو اس وقت سمجھتے ہیں کہ آتی ہے بہار
دشت سے جب کوئی جھنکار سی آ جاتی ہے
—
کہاں تھی منزلِ مقصود اپنی قسمت میں
کسی کی راہ گزر بھی ملی ہے مشکل سے
—
ان سے ہر حال میں تم سلسلۂ جنباں رکھنا
کچھ مداوائے غم گردشِ دوراں رکھنا
—
غمِ حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا
یہ دور وہ ہے جو شعر و ادب نہیں پڑھتا
—
خوب ہے افسرؔ ہمیں اپنی حقیقت کی خبر
کیا ہمارا نالۂ دل ان کی شہنائی کے بعد
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
افسرؔ ماہ پوری