ناول پڑھنے میں وقت لگتا ہے، افسانہ پڑھنے میں تھوڑا کم وقت لگتا ہے، افسانچہ پڑھنا بس Twenty-Twenty میچ کی طرح ہے، مزہ بھی لینا اور میچ بھی دیکھنا۔ ایک کہاوت ہے ’’دیکھن میں چھوٹا لگت اور گھاؤ کرے گمبھیر‘‘ بس یوں سمجھ لیں، چند سطروں میں افسانچہ نگار اپنی بات کہہ دیتا ہے جس پر صفحہ در صفحہ لکھا جا سکتا ہے۔ افسانچہ نگاروں کی ٹولی بہت تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسی میں ایک ابھرتا ہوا نام محمد علیم اسماعیل کا ہے۔
علیم اسماعیل افسانوں کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اردو ادب کی ترویج و ترقی میں لگے ہیں۔ اردو رسائل اور اخبارات میں چھائے رہتے ہیں۔ آپ علیم اسماعیل کے افسانچوں یا افسانوں میں وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جو آج کل ہو رہا ہے، آج جن مسائل سے سماج کا ہر طبقہ متاثر ہے۔ سماجی و معاشرتی واقعات کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرنا ان کے فن میں شمار ہوتا ہے۔ علیم کے یہاں خیالات کا بہاؤ ہے۔ وہ بہت سی باتوں کو مختصرسے افسانچے میں سمونے کا ہنر جانتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے افسانے ’چھُٹّی‘ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سلام بِن رزاق فرماتے ہیں:
’’شعُور کی رو کے تحت اکہرے بیانیہ میں کہانی بُننا آسان نہیں ہوتا تاہم علیم نے اپنی رواں اور شستہ نثر کے سہارے کہانی کو بچالیا ہے۔ علیم اسماعیل ایک ہونہار ذہین اور محنتی قلمکار ہے۔ ان کی تحریروں کا میں بھی مداح ہوں۔‘‘
علیم اسماعیل نے افسانے لکھے، افسانچے تحریر کیے، مگر ان سب کے علاوہ بھی ایک بہترین کام کیا ہے۔ انھوں نے ایک کتاب ترتیب دی، جس کا نام ’افسانچے کا فن‘ ہے۔ انھوں نے لکھا ہے، ’’افسانچے کے فن پر اپنی نوعِیّت کی پہلی کتاب‘‘ اب یہ پہلی ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر کام اچھا ہے۔ اس طرح کی کتاب میری نظروں سے پہلی بار گزری ہے۔ اس کتاب میں افسانچے کے فن پر بات کی گئی ہے۔ موصوف نے اس میں بہت سے قلم کاروں کی آراء شامل کی ہیں جس کا تعلق افسانچے کے فن سے ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ سے شروع یہ کہانی آج علیم سے لے کر کس کس تک پہنچی ہے، یہ تو ادب کا قاری بتائے گا۔ احمد کلیم فیض پوری کہتے ہیں:
’’علیم اسماعیل نے ثابت کیا ہے کہ کچے پھُلوں میں بھی خوشبو ہوتی ہے۔ اس جہانِ افسانہ میں علیم کی ریاضت ان کے ہم عصروں کے مقابل کچھ زیادہ ہی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔‘‘
علیم اسماعیل اپنے ہم عصروں کے درمیان کیوں نہ نمایاں دکھائی دیں، اردو سے محبّت اور اردو کی ترویج و ترقی میں جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ ادب کے آسمان کو چھونے کی کوشش ہے۔ اب جو لوگ ’سیاہ حاشیے‘ کے بارے میں نہیں جانتے یا اس کا مطالعہ نہیں کیا ہے وہ کہیں گے افسانچہ بالکل ابھی ابھی وارد ہوا ہے جبکہ افسانچے کب سے لکھے جا رہے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ چند برسوں میں افسانچے کثرت سے منظرِ عام پر آئے اور مقبول بھی ہوئے۔ علیم اسماعیل نے افسانچوں پر جس طرح کا کام کیا ہے اسے آپ تحقیقی نوعیت کا کام بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ کہا جانا بھی چاہیے۔ علیم اسماعیل خود لکھتے ہیں:
’’افسانچوں سے مجھے دلی لگاو ہے۔ اس لیے فنِ افسانچہ کی باریکیوں کو جاننے کی خواہش دل میں لیے، اپنے تشنہ لبوں کے ساتھ ڈاکٹر ایم۔اے۔حق صاحب سے موبائل پر دورانِ گفتگو، میں نے افسانچے کے فن پر کُرید کُرید کر کئی سوالات کیے اور انھوں نے ہر بار بڑے اچھے طریقے سے میرے ہر سوال کا جواب دیا اور میری الجھنیں دور کیں۔ واٹس ایپ پر میرے افسانچوں پر کھُلے دل سے رائے دی، ورنہ آج کل کے ادیب نئے لکھنے والوں سے بات کرنا بھی کہاں پسند کرتے ہیں؟ جو ادیب نئے لکھنے والوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ غالب کی شہرت میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے شاگردوں کا ہی رہا ہے۔‘‘
علیم اسماعیل کی تحریر دیکھ کر یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر صلاحیت ہے۔ غور و فکر اور تخیل کی اڑان کا کیا کہنا!! تبھی تو انھوں نے ایک اہم موضوع کو ایک لائن میں کہہ ڈالا، ’’آج کل کے ادیب نئے لکھنے والوں سے بات کرنا بھی کہاں پسند کرتے ہیں۔‘‘ اس میں سچائی ہے، حالانکہ سب ایسے نہیں ہیں، مگر ہاں! زیادہ تر شاعر و ادیب اس طرح کے ہیں۔ نہ وہ نئے لکھنے والوں سے بات کرتے ہیں اور نہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ علیم اسماعیل کو چھوٹے سے لے کر بڑے قلمکاروں تک سبھی نے سراہا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہاں! کچھ ہو سکتے ہیں جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میرا اپنا مانتا ہے کہ اردو کی گاڑی کے پہیے کو آگے بڑھانا ہے تو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ آپ کے بعد آپ کی جگہ خالی ہی رہ جائے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد بشیر مالیر کوٹلوی فرماتے ہیں:
’’علیم اسماعیل خالص بیانیہ افسانے تخلیق کرتا ہے۔ اگر میں کہوں کہ علیم اردو افسانے کا مستقبل ہے تو شاید درست ہی ہوگا۔ جب ہم اس جہاں سے چلے جائیں گے تو اردو ادب کی خدمت یہی نوجوان نسل کرے گی۔ ادب کی ذمہ داری ان ہی کے کاندھوں پر ہوگی۔‘‘
اس اقتباس سے جہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ علیم افسانے کا مستقل ہیں تو وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے ادب کی ذمہ داری نئی نسل پر ہے۔ تو نئی نسل کیسے آگے بڑھے گی؟ تو پھر وہی علیم کی باتیں کانوں میں گونجتی ہے۔ اس لیے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
علیم اسماعیل کے فن اور افسانوں یا افسانچوں کو سمجھنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ ملک اور بیرون ملک کے بیشتر قلمکاروں نے کچھ نہ کچھ ان پر تحریر کیا ہے۔ علیم نے کئی موضوعات کو اپنے افسانوں میں سمویا ہے۔ اپنے افسانچوں سے قاری کے ذہن کو روشن کیا ہے اور کہیں کہیں غور و فکر کے لیے اُکسایا بھی ہے۔ متوسط طبقہ کے مسائل کو بھی قاری کے سامنے پیش کیا۔ علیم کا افسانچہ ’خاموش دھماکا‘ سماج کے لیے ایک بڑا دھماکا ہے۔ جس میں سماج کی ایک گھناؤنی تصویر پیش کی گئی ہے۔ افسانہ ’سودا‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مخدوم عرفان ظاہر (پاکستان) نے لکھا ہے:
’’سودا، افسانے میں علیم اساعیل نے سماج کی بے بسی اور افسردگی کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی معاشرے کی کج روی کے خلاف آواز بھی اٹھائی ہے۔ علیم اسماعیل کے یہاں زندگی کی کڑوی حقیقت اور اس کے منفی نتائج بھی بڑی بے باکی سے بیان ہوئے ہیں۔ وہ معاشرے کی غلط پالیسیوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں۔‘‘
علیم اسماعیل کے یہاں مطالعہ و مشاہدہ نہایت ہی وسیع ہے جس میں علیم اسماعیل سماج کے سلگتے مسائل، بے یقینی، دکھ، درد، غربت، سماجی، اخلاقی اور متعدد پہلوؤں کی طرف اپنے ذہن کے رڈار کو گھماتے ہیں اس سے علیم کے افسانے کا کینوس کافی وسیع ہو جاتا ہے۔ سماجی بے راہ روی کو شعُوری طور پر اپنے افسانے میں پیوست کرتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے متعلق تنویر اختر رومانی رقم طراز ہیں:
’’اتنی کم عمری میں انہیں انسانی معاشرت کا اچھا خاصا مشاہدہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں اور افسانچوں میں انسانی نفسیات، جذبات، حالات، ضروریات کے بہت فطری عکس نظر آتے ہیں۔ وہ سیاست اور معاشرت کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں اور افسانچوں کی زبان نہایت سیدھی سادی ہوتی ہے۔ طرزِ نگارش تصنع سے پاک ہوتی ہے۔ اپنی تحریر میں قارئین کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر نہیں لاتے بلکہ زمینی حقائق سے دوچار کرتے ہیں۔‘‘
لفظوں میں درد پرونا، عصری پیچیدگیوں سے قاری کو آگاہ کرانا یہ سب علیم کے یہاں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی باتوں کو اپنے افسانچوں میں لطیف پیرائے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ رسائل کے صفات سے ہوتا ہے جہاں علیم کے افسانے تیرتے نظر آتے ہیں۔ آج فکشن میں محمد علیم اسماعیل کا نام ایک اہم نام بن گیا ہے۔