محمد علیم اسماعیل نئی نسل کے ان قلم کاروں میں سے ہیں جن کے قلم کی سیاہی صفحہ قرطاس پر بکھرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ ادبی حلقے میں ایک جواں فکر قلمکار خصوصاً افسانہ اور افسانچہ کے میدان میں انھوں نے بہت کم وقت میں اپنی مستحکم شناخت قائم کی ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’الجھن‘ 2018ء میں اور دوسرا ’رنجش‘ کے نام سے 2020ء میں شائع ہوا۔ ادبی دنیا نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی پزیرائی بھی کی۔
افسانچہ سے انھیں خاص رغبت ہے۔ اسی رغبت نے انھیں ’افسانچے کا فن‘ کتاب مرتب کرنے پر آمادہ کیا۔ 2021ء میں ان کی یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ فنِ افسانچہ کے متعلق اپنے آپ میں یہ ایک شاندار کوشش ہے۔
علیم اسماعیل کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ بہت کم وقت میں انھوں نے اس کتاب کو مرتب کر کے 30 صفحات پر مشتمل طویل مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ کتاب میں افسانچہ اور افسانچہ نگاری کے حوالے سے آٹھ مضمون، پندرہ اقتباسات، نو تاثرات، ساتھ ساتھ پاکستان کے مشہور کہانی کار پرویز بلگرامی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں اردو ادب کے 58 شاہکار افسانچوں کا شاندار انتخاب بھی شامل ہیں۔
اس بھاگ دوڑ بھری زندگی سے فراغت غالباً غائب ہو چکی ہے۔ وقت کی قلت ہے۔ اس کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر پڑا ہے۔ ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اسی وقت کی قلت کے سبب اردو فکشن نے طویل داستانوں کے بعد ناول، ناول سے افسانہ اور افسانے سے منی کہانی اور افسانچہ تک کا سفر طے کیا۔ اب جب کہ ادب میں افسانچہ داخل ہو چکا ہے اور اپنی شناخت مستحکم کرنے کی جد وجہد میں لگا ہوا ہے۔ ایسے میں اس کے خد و خال کا تعین ضروری امر ہے۔ اسی مقصد کے تحت علیم اسماعیل نے ’افسانچے کا فن‘ ترتیب دی۔ بقول مرتب:
’’یہ بات کافی عرصے سے ذہن میں تھی کہ ایک ایسی کتاب معرض وجود میں آئے یا ترتیب دی جائے جس سے افسانچے کے فن کو سمجھنے میں آسانی ہو۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 10)
مرتب نے مقدمہ میں افسانچے کی ہیت، خدوخال، اس کے موضوعات، اور اجزائے ترکیبی کے تعلق سے مفید بحث کی ہے۔ ان کا مقصد افسانچے کے ہر جز پر گفتگو کر کے ایک ایسی راہ ہموار کرنا ہے جس پر چل کر نئے قلمکار اپنی منزل کی طرف بڑھ سکیں۔ افسانچہ اور غزل کا موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’شاعری میں جو حیثیت غزل کی ہے نثر میں وہی حیثیت میں افسانچے کی سمجھتا ہوں۔ غزل میں ہر قسم کے موضوعات کو اپنانے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح افسانچے میں بھی ہر قسم کے موضوعات بیان کیے جا سکتے ہیں اور بیان کیے جا رہے ہیں۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 28)
علیم اسماعیل افسانچے کی ادبی شناخت مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی صنفی حیثیت پر نکتہ چینی کرنے والے ادبا اور ناقدین کو بھی دلائل کی بنیاد پر آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قلمکار افسانچے لکھ رہے ہیں، قارئین بڑے شوق سے پڑھ رہے ہیں اور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس پر مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں اس صنف پر مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ افسانچہ قارئین کی پسندیدہ صنف بن گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جو صنف عوام میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے، اسے پھر کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 32)
سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ علیم اسماعیل نئ نسل کے قلم کاروں میں ایسا جوش و جذبہ بھر دینا چاہتے ہیں۔ جس سے نئے لکھاری تنقید کے طنز کو آسانی سے برداشت کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’نقاد یہ شکایت کرتے ہیں کہ نئے قلمکار سہل پسند ہوتے ہیں، شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں، عجلت پسند ہوتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ اس طرح وہ نئے قلم کاروں کی ہمت پست کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ مگر میری سوچ ان سے مختلف ہے۔ میں ان تمام باتوں کو نئے قلمکاروں کی تڑپ، لگن، تجسس اور دلچسپی کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ غلطیاں کر کے سیکھ رہے ہیں کیوں کہ انھیں کوئی سیکھانے والا نہیں۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 34)
کتاب میں شامل پہلا مضمون ’افسانچہ‘ مشہور افسانچہ نگار جوگندر پال کا ہے۔ مختصر لیکن فنِ افسانچہ کے تعلق ہے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا مضمون ’افسانچہ کیاہے؟‘ کے عنوان سے ہے۔ اسے ڈاکٹر ایم اے حق نے رقم کیا ہے۔ قریب تیرہ صفحات پر پھیلے ہوئے اس مضمون میں افسانچہ کی ابتدا، خوبی و خامی اور اس کے دیگر لوازمات کے متعلق بڑی مدلل بات کی گئی ہے۔ یہ مضمون فنِ افسانچہ کو سمجھنے میں معاون و مدد گار نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر ایم اے حق افسانچہ کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتے:
’’غیر ضروری تفصیلات، مکالمے اور تکرار سے بچتے ہوئے قارئین تک افسانے کے پیغام کی ترسیل کرتے ہوئے، کہانی پن کو مجروح کیے بنا، بونسائی کی طرز پر افسانے کے تمام لوازمات کو سمیٹتے ہوئے وجود میں آنے والی تحریر کو ‘افسانچہ’ کہتے ہیں۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 55)
مشہور افسانچہ نگار محمد بشیر مالیرکوٹلوی کا مضمون ’کامیاب افسانچے کی خوبیاں‘ دلچسپ اور جامع مضمون ہے۔ اس میں انھوں نے طنز بھی کیا ہے اور اصلاح کی کوشش بھی۔ ان کا خیال ہے بسیار نویسی سے معیار مجروح ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے وہ بسیار نویسوں سے بے زار نظر آتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کو تنبیہ دیتے ہیں تو سینئر ادبا کو وضع داری اور بے جا تعریف و توسیف سے بچنے کا مشورہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وہ رقم طراز ہیں:
’’ایسے سینئر ادبا جو شرافت اور وضع داری کی وجہ سے بے معنی افسانچوں پر تعریفی مضامین لکھتے ہیں۔ وہ افسانچے کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 67)
ان کا ماننا ہے کہ ناقد کو کھل کر کمیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہیے۔ ان کی اس بات سے میں بھی متفق ہوں کہ صحیح تنقید کر کے آپ افسانچہ اور افسانچہ نگار دونوں کا بھلا کریں گے۔
ڈاکٹر عظیم راہی نے اپنے مضمون ’اردو افسانچے کے مسائل‘ میں بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔ افسانچے کو رواج دینے میں رسائل و جرائد کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا ماننا ہے شاعر، انشاء، قرطاس، اسباق اور بیباک جیسے رسالوں نے افسانچے کو فروغ دینے میں نمایا کردار ادا کیا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ افسانچہ وجود میں آنے سے اب تک ایک لمبا سفر طے کر چکا ہے لیکن ابھی بھی اس کے سامنے شناخت کا مسئلہ برقرار ہے۔ اس کے مخالفین مسلسل اس پر حملہ ور ہیں۔ ڈاکٹر عظیم راہی اس ضمن میں عبدالعزیز خان، مقصود الہی اور مناظر عاشق ہرگانوی پر الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ ادیب افسانچے کی صنفی حیثیت کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
مشہور و معروف ادیب پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ’اردو میں افسانچہ نگاری‘ نامی مضمون میں افسانچہ نگاری کی مختصر تاریخ پیش کی ہے۔ اس میں انھوں نے منٹو، جوگندر پال، رتن سنگھ، بشیر مالیرکوٹلوی، ڈاکٹر ایم اے حق، عارف خورشید، عظیم راہی اور نذیر فتح پوری کے افسانچوں کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ منٹو اور اس کے بعد کے تمام اہم افسانچہ نگاروں کی افسانچہ نگاری کو پیش نظر رکھتے ہوئے موصوف نے افسانچہ نگاری کی مختصر تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے بیان کر دیا ہے۔ مضمون کے آخر میں ’افسانچے کے فروغ کے لیے مشورے‘ کے ذیلی عنوان سے چند سطور رقم کیے ہیں۔ لیکن مواد کے اعتبار سے عنوان مناسبت نہیں رکھتا۔ جس میں افسانچہ کے فروغ میں اخبار، رسائل و جرائد کے کردار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شاید مرتب کی نظر بھی اس پر نہ پڑ سکی۔
سرور غزالی کا مضمون ’افسانچہ نگاری‘ مختصر لیکن پر مغز مضمون ہے۔ اس میں انھوں نے افسانچے کے سامنے پیش آنے والے مسائل اور اچھے افسانچے کی علامات کو زیر بحث رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے:
’’افسانچوں کو افسانچے کے اوزان پر پورا اترنا چاہیے۔ افسانچوں کو مختصر افسانے کی پٹری سے اتار کر لطیفہ گوئی کے سمندر میں غرقاب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
(افسانچے کا فن، ص 100)
معروف افسانچہ نگار رونق جمال کا مضمون ’اردو افسانچہ اور زندگی کے مسائل‘ ان ناقدین کو جواب دیا گیا ہے۔ جن کا خیال ہے کہ افسانچہ زندگی سے دور ہے۔ موصوف نے عظیم راہی کا افسانچہ ’مداوا‘ اور اپنا افسانچہ ’جورو کا غلام‘ کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور دلائل کی بنیاد پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ افسانچہ میں زندگی کے تمام مسائل پیش کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ کچھ لوگ افسانچہ کے نام پر لطیفہ پیش کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے ناقدین کو افسانچہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ جس پر وہ تنقید کر رہے ہیں وہ واقعی افسانچہ ہے بھی یا نہیں۔
کتاب میں شامل آخری مضمون محمد فاروق کا ’افسانچہ نگاری کے خد و خال‘ عنوان سے ہے۔ 17 صفحات کے اس طویل مضمون میں دس ذیلی عنوان افسانچے کا سائز، موضوع، پلاٹ، منظر نگاری، جزئیات نگاری، مکالمہ نگاری، نقطہء عروج، اختتام یا انجام یا کلائمکس اور زبان و بیان کے تحت افسانچے کے خد و خال پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ موقع محل کے اعتبار سے کرامت، دعوت عمل، کہانی اور وارننگ جیسے افسانچوں کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ مضمون افسانچہ کے خد و خال کو سمجھنے میں معاون و مددگار نظر آتا ہے۔
افسانچہ اور اس کے فن کے متعلق کتاب میں شامل تاثرات و اقتباسات بھی قابل ذکر ہیں۔ ان میں مشہور و معروف ادبا جیسے جوگندر پال، دیپک بدکی، مناظر عاشق ہرگانوی، نذیر فتح پوری اور پروفیسر حمید سہروردی وغیرہ کے تاثرات و اقتباسات درج ہیں۔ پاکستان کے مشہور کہانی کار پرویز بلگرامی سے مرتب نے کافی دلچسپ گفتگو کی ہے۔ اس انٹرویو سے ہند و پاک میں افسانچہ نگاری کی سمت و رفتار پر روشنی پڑتی ہے۔ کتاب کے آخر میں 58 شاہکار افسانچے پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں منٹو کا سوری، جوگندر پال کا آمد، سلام بن رزاق کا دیٹس گڈ، ایم اے حق کا میں، بشیر مالیرکوٹلوی کا ناقابل برداشت اور رتن سنگھ کا ‘افسانچہ نمبر 20 وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...