(Last Updated On: )
فکشن کی بات کریں تو کئی زبانوں کے فکشن کی طرح اردو فکشن خصوصاََ افسانہ ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے جو کہ اس کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے۔ ابتدا میں پہلے افسانے کا دائرہ مختصر افسانے (Short story) کے اردگرد گھومتا رہتا تھا اور پھر افسانچہ سامنے آیا جوکہ منٹو کے سیاہ حاشیے سے اپنی شناخت ظاہر کرنے لگا۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد افسانچہ لکھنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اب تو اردو افسانے کی ذیلی اصناف افسانچہ، نینو فکشن، مائیکرو فکشن، فلیش فکشن، فینٹسی فکشن وغیرہ کسی بھی باشعور ادب نواز قاری کے لئے کوئی اجنبی شے نہیں رہے ہیں۔ البتہ ان ذیلی اصناف کے فنی حدود اور لوازمات سے کئی لوگ بے خبر ہیں۔ اس تناظرمیں پیش نظر کتاب ’’افسانچے کا فن‘‘ (اشاعت2021) فن افسانچہ نگاری پر معلومات افزا روشنی ڈال رہی ہے۔ کتاب کے ترتیب کار محمد علیم اسماعیل (مہاراشٹر) خود بھی افسانہ نگاری کا اچھا ذوق رکھتے ہیں اور ان کی دو کتابیں ’’الجھن۔۔۔ افسانے وافسانچے‘‘ اور ’’رنجش۔۔ افسانے‘‘ سامنے آئی ہیں۔ اس طرح انہوں نے ارادتاً فن افسانچہ نگاری کی طرف توجہ مرکوز کی ہے۔ جس کا ثبوت یہ کتاب ہے۔ کتاب میں فن افسانچہ نگاری کے تعلق سے ایک تو ان کا قابل توجہ مضمون بصورت ’’مقدمہ‘‘ موجود ہے۔ اس کے علاوہ فن افسانچہ نگاری سے متعلق کئی اہم علمی و ادبی شخصیات کے مضامین، تاثرات اور افسانچے، بعنوان مضامین، افسانچے کا فن اور اقتباسات، افسانچے کا فن اور تاثرات، انٹرویو اورچند منتخب افسانچے، بھی شامل ہیں۔ اس طرح سے شامل کتاب مضامین فن افسانچہ نگاری پر معنی خیز بحث چھیڑتے نظر آتے ہیں۔
افسانچہ افسانے کی ذیلی صنف ہے تو اس کی تخلیق بھی ایسی ہونی چاہے کہ قاری کو ایسا محسوس ہو جائے کہ وہ کوئی افسانچہ/فکشن پڑھ رہا ہے نہ کہ کسی اخبار کی سرخی یا کوئی لطیفہ۔ جس طرح شاعری کے اقسام میں نظم، غزل، قصیدہ، رباعی، قطہ وغیرہ ہیں لیکن فنی طور پر رباعی کے نام پر پیش ہوئے کلام کو اسی وقت رباعی کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جب وہ فنی طور پر رباعی کے چار مصرعوں پر مشتمل ہوگا، یہ نہیں کہ کوئی ایک مصرع لکھ کر اسے رباعی کہنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگائے۔ اسی طرح ایک جملہ تحریر تو خیال کی پیش کش ہو سکتی ہے لیکن افسانچہ نہیں۔ افسانچہ چند جملوں اور ایک سے ڈیڑھ صفحے پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ جیسے فن افسانچہ کے تعلق سے پروفسیر اسلم جمشید پوری کا یہ اقتباس کتاب میں پیش ہوا ہے:
”اختصار، جامعیت، طنز اور قصہ پن افسانچے کی خوبی ہے۔ اب وہ چار، چھ، دس سطروں کا ہو یا ایک ڈیڑھ صفحے کا۔‘‘(ص: 26)
افسانچہ کی چند سطور میں خیال کو جامع انداز سے سامنے آنا چاہے کہ قاری کسی بھی پہلو سے متعلق سوچنے کے لئے مجبور ہوجائے، جیسے بشیر مالیر کوٹلوی کا افسانچہ ’’وارننگ‘‘:
”یہ کیا کیا تم نے۔۔۔۔؟…..داڑھی رکھ لی…..؟
ہاں بھئی داڑھی رکھنا سنت ہے…اور ثواب بھی۔۔۔۔
یہ شرعی معاملہ ہے میاں…یہاں اگر مگر کی گنجائش نہیں…
لیکن…؟ آپ جہاں جاؤ، اپنا آئی کارڈ جیب میں رکھ لینا…“
اگر ان پہلوؤں پر غور کیا جائے تو افسانچے کے نام پر جو غیر افسانوی سطور یا تحریریں سامنے آرہی ہیں، ان سے افسانچہ محفوظ بھی رہے گا اور اس سے فن افسانچہ نگاری کے معیار کو مزید تقویت ملے گی۔ اس تعلق سے کتاب میں اہم باتیں کہی گئی ہیں، جیسے چند اقتباس دیکھیں جن میں افسانچے کے فنی اور تکنیکی پہلوؤں پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے:ـــ
”افسانچہ نگاری پلاٹ اور خیالات کے بوجھ کے ساتھ ساتھ لفظوں کے پل صراط سے گزرنے کا عمل ہے، افسانچہ نگاری کا فن دودھاری تلوار پر چلنے کا عمل ہے۔ ایک ایک لفظ کا انتخاب ایک ایک امتحان ہوتا ہے۔“
(نورالحسنین:ص 17)
”ایک کامیاب افسانچہ میں اسے ہی مانتا ہوں جسے پڑھ کر محسوس ہو کہ اس افسانچہ کو بنیاد بنا کر ایک طویل افسانہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔“
(بشیر مالیر کوٹلوی: ص 17)
”کم سے کم لفظوں میں کسی واقعہ کو افسانوی لوازمات کے ساتھ ہنرمندی سے برتنے پر افسانچہ وجود میں آ سکتا ہے۔“
(معین الدین عثمانی:ص 18)
”افسانچہ دراصل افسانے کی بونسائی(Bonsai) شکل ہے۔ پلاٹ، کردار، مکالمے، کلائمکس، پیغام وغیرہ اجزائے ترکیبی کو افسانچے میں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔“
(ڈاکٹر ایم اے حق: ص 19)
”افسانچہ افسانے کی تصغیر ہے یعنی بہت چھوٹا سا افسانہ۔“ (ڈاکٹر ارشد عبدالحمید: ص 13)
”کہانی پن افسانچے کی روح ہے اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ آج کل کے بیشتر افسانچے اس روح سے بے نیاز ہوتے جارہے ہیں۔“
(افسانچہ کیا ہے؟ ڈاکٹر ایم اے حق۔ ص 53)
”افسانچہ ایک مکمل کہانی پن کے ساتھ قاری کو جھنجوڑنے والی کیفیت چاہتا ہے۔ اختصار اس کی پہچان ہے۔ موضوع کا اچھوتا پن اور ڈرامائی صورتحال، اختتام پر پڑھنے والے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔“
(ڈاکٹر عظیم راہی: ص 71)
”افسانچوں میں وہ ساری بات پوشیدہ ہو جو ایک افسانچے کا خاصہ ہے۔ چند جملوں میں پوری کہانی پیش کرنے کا نام ہی افسانچہ نگاری ہے۔ اس کے علاوہ ان میں بیان کرنے کا ہنر ہو تو مختصر افسانچوں کا فن ابھر کر سامنے آتا ہے۔“
(سرور غزالی:ص 101)
”افسانچے میں یہ کمال ہے کہ چند سطروں میں ایک مسئلے پر قلم کار بہت بڑی، بہت گہری اور نہایت تیزی سے چوٹ کر کے دھماکہ کر دیتا ہے۔“
(رونق جمال: ص‘ 105)
”افسانچے کو اگر افسانے کا بچہ تصور کیا جائے تو ایک بڑے انسان کی طرح بچے کا ڈھانچہ تو ہونا ہی چاہے۔ البتہ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا قد کاٹھ ابھی کتنا ہے لیکن آنکھ، ناک، ہاتھ پیر وغیرہ کا ہونا تو ضروری ہے۔ یا ہم کسی کو بچے کی ناک یا آنکھ یا بازو دکھا کر کہیں کہ یہ ہے بچہ ….“
(ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری: ص 27)
کتاب میں شامل مضامین کے کئی اور اقتباس بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اب اگر ذرا فن افسانچہ یا افسانہ لکھنے سے متعلق مذکورہ اقتباسات میں پیش ہوئے خیالات پر ہی اکتفا کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ افسانچہ کے لئے فنی لوازمات کا اہتمام ضروری ہے۔ ایک مختصر جملے یا سطر میں کہاں یہ چیزیں آئیں گی اور وہ سطر کونسا افسانچہ کہلائے گا۔
چند برس قبل پروفیسر مجید بیدار کا فن افسانچہ نگاری پر ایک اہم مضمون ”افسانچہ کا فن اور اس کی تخلیقی حیثیت“ غالباََ رسالہ ”کتاب نما“ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور مضامین بھی اس موضوع پر نظر سے گزرے ہیں۔ پچھلے برس پاکستان سے ایک کتاب ”اردو افسانے کی جدید اصناف“ سامنے آئی ہے۔ جس پر میرا ایک مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ اس میں فن افسانچہ سے متعلق ایک باب بھی ہے۔ علاوہ ازیں افسانچہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر عظیم راہی کی کتاب ”اردو افسانچہ کی مقبولیت اور پیش رفت“ (2015) اور بشیر مالیرکوٹلوی کی کتاب”افسانہ، افسانچہ…تنقیدی تناظر میں“ (2015) شائع ہوئی ہیں۔ پیش نظر کتاب ”افسانچے کا فن“ کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف افسانچہ نگاری کی تاریخ یا تبصروں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کے کئی مضامین میں فن افسانچہ نگاری کے اسرار و رموز اور افسانچہ لکھنے کے فنی لوازمات پر مفصل و مدلل گفتگو ہوئی ہے۔ کتاب کا ایک مضمون ”افسانچہ نگاری کے خدوخال“ (محمد فاروق) اور چالیس صفحات کا مقدمہ (محمدعلیم اسماعیل) بڑے اہم ہیں کیونکہ ان میں فن افسانچہ نگاری کے سبھی لوازمات پر شاندار بحث ہوئی ہے۔ افسانچے کے لوازمات سے متعلق محمد علیم اسماعیل ’مقدمہ‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”افسانچے میں کہانی پن، مکالمے، منظرنگاری، کردار نگاری سب کچھ ہوتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ تمام اجزا ایک افسانچے میں موجود ہوں۔ افسانچے کی سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ اس میں کہانی بیان کی گئی ہو۔“ (ص: 24)
فن افسانچہ نگاری سے متعلق دوسرے کئی لوگوں کے تاثرات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مضامین یا تاثرات ایسے لوگوں کے ہیں جو خود بھی افسانے یا افسانچے لکھتے آئے ہیں۔ کتاب کا ایک حصہ منتخب افسانچوں پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب فن افسانچہ نگاری کو سمجھنے اور افسانچہ لکھنے کے لئے ایک اہم کتاب قرار دی جاسکتی ہے اور ہر افسانچہ نگار کے لئے اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔