افسانچہ لکھتے ہو ئے ٹیکنیکل باتوں پر سوچنا چاہئے۔ :عارف نقوی
کم وقت میں زیادہ افسانچے لکھنا کمال نہیں ہے۔:رونق جمال
اچھا افسانچہ وہی ہوتا ہے جس میں اچھی کہانی ہوتی ہے:ڈاکٹر تنویر اختر رومانی
شعبۂ اردو میں ادب نما کے تحت ’’اردو افسانچہ کی روایت‘‘موضوع پر آن لائن پروگرام کا انعقاد
میرٹھ16؍فروری2023ء
’’افسانچہ لکھنے کی ترغیب مجھے ادب نما پروگرام سے ملی۔ افسانچہ کے ساتھ ہمیں کہاں تک انصاف پسند ہونا چاہئے، ہمیں یہ سوچ کر افسانچہ نہیں چھوڑ دینا چاہئے کہ یہ ایک مختصر کہانی ہے اس سے ہم محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جیسے پچاس یا سو الفاظ کی کہانی میں افسا نچہ نگار پھنس کر رہ جاتا ہے۔ کبھی کبھی غزل کے ایک شعر میں ایسی بات ہو تی ہے جو پوری غزل میں نہیں ہو پاتی۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ کا مو ضوع آپ کے لیے سب سے اہم ہے۔یہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کے جو شعبۂ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد ہفتہ واری ادب نما پروگرام میں’’اردوافسانچہ کی روایت‘‘ موضوع پر اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے آن لائن افسانچوں میں خوب غلطیاں ملتی ہیں۔ ان کو ہم کس زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ اس میں انسان کہنا کچھ چاہتا ہے اور شائع کچھ اور ہورہا ہے۔ افسانچہ لکھتے ہو ئے ٹیکنیکل باتوں پر سوچنا چاہئے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازایم ۔اے سال اول کے طالب علم محمد طلحہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہ نعت ایم ۔اے سال اول کی طالبہ نزہت اخترنے پیش کیا۔ پروگرام کی سرپرستی صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔ جب کہ مقرر ین کی حیثیت سے آ یوسا کی صدر ڈاکٹر ریشما پروین ، لکھنؤ، ڈاکٹر ریاض توحیدی ،کشمیر،تنویر اختر رومانی،جمشید پور،ارشد منیم،پنجاب اور علیم اسماعیل ،نانڈیر نے شرکت کی ۔خصوصی مقرر کے بطور معروف افسانچہ نگاررونق جمال نے شرکت کی۔ استقبالیہ کلمات ڈا کٹر آصف علی، نظامت کے فرائض ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور شکریے کی رسم ڈاکٹر شاداب علیم نے ادا کی۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ اختصار میں وہ خوبی ہے جو افسانچہ کو منفرد بنا تی ہے۔ ناول سے ہم ناولٹ کی جانب آ ئے پھر ناول سے افسا نہ اور افسانچہ کی جانب آ ئے۔ اردو میں افسا نچے کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ منٹو نے سب سے پہلے افسانچے’’سیاہ حاشیے‘‘ لکھے۔ ایم ۔اے حق، رونق جمال وغیرہ نے بچوں کے لیے بھی افسانچے لکھے۔ آج بہت سے لوگ افسانچوں کے نام پر لطیفے لکھ رہے ہیں۔ یہ افسانچے کے ساتھ مذاق ہے۔ اختصار، قصہ پن اور چونکانا افسانچے کی بنیادی خوبیاں ہیں۔
معروف افسانچہ نگار علیم اسماعیل نے کہا کہ آج بہت سے افسانچے ایسے بھی پڑھنے میں آتے ہیں جن میں کہانی پن دکھائی نہیں دیتا۔ بہت کم افسانچے ایسے ہو تے ہیں جنہیں معیاری کہا جاسکتا ہے۔مگر آج افسانچہ ایک صنف تسلیم کی جارہی ہے۔
پنجاب سے ارشد منیم نے کہا کہ آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں لوگ افسانچوں میں خوب دلچسپی لے رہے ہیں۔ افسانچہ اور افسانوں میں فرق کرنا نہایت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ افسانچے لکھ رہے ہیں مگر وہ افسانچوں اور کہانیوں میں فرق نہیں کر پارہے ہیں۔ میں ایسے افسانچہ نگاروں سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ اس کا حق ادا کریں اور افسا نچہ کو افسا نچہ ہی رہنے دیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کہا جس طرح شاعری میں انسانی زندگی کی ترجمانی ہو تی ہے اسی طرح فکشن میں سماجی، سیاسی، اقتصادی مسائل کو پیش کیا جاتا ہے۔ فکشن میں دیگر اصناف کی مانند افسا نچہ نگاری میں بھی سماجی، سیاسی مسائل کی تصاویر ملتی ہیں۔ افسا نچہ ایک طرح سے افسانے کا چھوٹا روپ ہے۔ افسانچہ لکھنے کے لیے لگن، محنت تکنیک، پلاٹ، کردار وغیرہ پر نظر رکھنی ضروری ہے اور اس میں زبان و بیان کا خیال رکھنا بھی ضرور ہے۔
ڈاکٹر تنویر اختر رومانی نے کہا کہ آج افسانچے نے اپنے فن میں اضا فہ کردیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس صنف کی ترقی کس طرح ہوسکتی ہے۔ افسانہ نگاروں نے اس صنف کو الگ الگ ناموں سے پکارا ہے مگر افسانچے کی بنیاد کہانی پر ہوتی ہے۔ اچھا افسانچہ وہی ہوتا ہے جس میں اچھی کہانی ہوتی ہے۔
رونق جمال نے کہا کہ منٹو کے بعد افسا نچہ کچھ دن تک آ رام کرتا رہا اس کے بعد رتن سنگھ جو گندر پال نے اسے آ گے بڑھایا اور ہم تک پہنچایا2019ء میں کرو نا نے بہت سی اصناف کو متا ثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانچہ ایکسپریس وے پر دوڑنے لگا۔ نئے قلم کار سامنے آ ئے اور اس سے کافی فائدہ ہوا۔مگر کہیں کہیں نقصان بھی ہوا۔ کم وقت میں زیادہ افسانچے لکھنا کمال نہیں ہے۔
ڈاکٹر ریشما پروین نے کہا کہ بہت سے ادبا کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آ تی ہیں مگر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کتابیں کتنی معتبر ہوں گی، کب تک باقی رہیں گی۔ ہمیں افسا نچے پر تہہ داری سے نظر ڈالنی چاہئے کیونکہ آج افسانچوں میں کہانی کم نظر آ رہی ہے۔
پروگرام میں سعید احمد سہارنپوری، محمد شمشاد، فیضان ظفر، عظمی پروین، وغیرہ موجود رہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...