(Last Updated On: )
اس کی آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے اشک جب کاغز پر پڑے تو ایک تصویر ابھر کر سامنے آنے لگی۔ ورق پر پڑے سوکھے گلاب کے پنکھڑیاں اس میں ڈوبتی چلی گئیں۔میں نے دیکھا جیسے جیسے وہ روتی جارہی تھی ویسے ویسے ایک چہرہ بنتا جارہا تھا۔پہلے تو وہ مجھے کسی مرد کا چہرہ لگا۔لیکن جب اس کی آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگا تو وہ لہو اس کی مانگ میں سندور اور ہنٹوں پر لپسٹک بن کر کر جم گیا۔کمرے کی کھڑکی زور زور سے ہل رہی تھی۔ باہر دیکھا توآسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔اور چائے کی دکان پر ایک نغمہ بج رہا تھا "کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا"۔۔۔
“