بلونت سنگھ کو افسانوی ادب کا گمشدہ فنکارقرار دینا اردو ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے بالعموم اور فکشن پر تنقید لکھنے والوںکے لئے بالخصوص کسی بڑے المیہ سے کم نہیں ہے۔جن افسانہ نگاروں نے آزادی سے قبل افسانہ نگاری میں خاصی شہرت پائی ،اُن میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری اوراحمد ندیم قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ فنکاروںسے قبل افسانہ نگاروں کا ایک جم غفیر تھاجس میں ایک دو نہیں بلکہ بہت سے ایسے لکھنے والے تھے جنھوں نے افسانوی ادب میں اپنے لئے مستقل جگہ بنائی تھی۔ان میں غلام عباس، خواجہ احمد عباس، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، قرۃالعین حیدر، مہندر ناتھ ممتاز مفتی، بلونت سنگھ، دیوندر سیتار تھی اورقدرت اللہ شہاب وغیرہ جیسی شخصیات نمایاں تھیں۔ جن میں کئی لکھنے والوںنے بعد میںتھکن محسوس کی جیسے کہ ممتاز مفتی،لیکن بعض لکھنے والوں نے ایسا قلم چلایاکہ صفحات در صفحات سیاہ کرتے چلے گئے۔ان افسانہ نگاروں نے بہترین اور مؤثرکن افسانوں کی تخلیق کر کے قارئین کے حلقے میںخوب شہرت حاصل کی۔ بلونت سنگھ بھی انہی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔جنھوں نے اردو کے چھ افسانوی مجموعے، چار ناول، تین ناولٹ ، ڈرامے اور کئی طنز و مزاحیہ مضامین لکھے ہیں۔ ان کا تخلیقی سرمایہ صرف اردو میں ہی نہیںہے بلکہ ہندی میں تو ان کے دس افسانوی مجموعے اور چوبیس ناول شائع ہوچکے ہیں۔ اردو میں لکھے گئے افسانوی مجموعوں میں ’جگا‘(اپریل ۱۹۴۴ء)’تاراپود‘(سنہ اشاعت درج نہیں ہے:ڈاکٹر جمیل اختر کی تحقیق کے مطابق یہ کتاب ۱۹۴۵ء کے اواخر میں یا ۱۹۴۶ء کے اوائل میں شائع ہوئی ہے)’ہندوستان ہمارا‘(۱۹۴۷ء)’سنہرا دیش‘(سنہ اشاعت ندارد:ڈاکٹر جمیل اختر کی تحقیق کے مطابق یہ کتاب ۱۹۵۰ء کے دہے میں شائع ہوئی ہوگی)’پہلا پتھر‘(دسمبر۱۹۵۳ء) اور ’بلونت سنگھ کے افسانے‘(سنہ اشاعت ندارد)قابلِ ذکر ہیں۔اُن کے اردو ناولوں میں’رات ،چور اور چاند‘(۱۹۶۱ء)’چک پیراں کا جسّا‘(سنہ اشاعت کا اندراج نہیں)اور’کالے کوس‘(سنہ اشاعت درج نہیں ہے)ناول ہیں ۔ جبکہ ایک ’معمولی سی لڑکی‘،’عورت اور آبشار‘اور ’راوی بیاس‘ ان کے ناولٹ تصور کیے جانے چاہئے۔ان سب پر سنہ اشاعت کا اندراج نہیں ہے۔
بلونت سنگھ کے سارے افسانوی مجموعے پاکستان سے شائع ہوئے ہیں۔ ماسوائے افسانوی مجموعہ’ہندوستان ہمارا‘ کے، جس کو الہٰ آباد سے سنگم پبلشرز نے شائع کیا تھا۔یہ سب افسانوی مجموعے ان کی زندگی اور ان کی نگرانی میں ہی شائع ہوئے۔لیکن اس کے بعد سے ان کتابوںکے دوسرے ایڈیشن شائع کرنے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔ہمیں احسان ماننا چاہے ڈاکٹرجمیل اختر کا جنھوں نے بلونت سنگھ کے افسانوی مجموعوں اور ناولوں کو تحقیق،تدوین اور ترتیب کے بعد آٹھ جلدوں میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان سے شائع کیا۔جمیل اختر صاحب ہمیشہ ایسے کاموںپر ہاتھ ڈالتے ہیں جن سے لوگ یا تو خوف کھاتے ہیں یا نام سنتے ہی سر دُھنتے ہیں۔تحقیقی سطح پر کام انجام دینے کا ان کا ہر طریقہ نرا لا ہوتا ہے۔انھوں نے بلونت سنگھ کے افسانوی مجموعوں میںپہلے سے شامل ۶۵کہانیوں کے علاوہ نئے دریافت شدہ۶۷ کہانیوں کو بھی کلیات میں شامل کیا ہے۔جن سے بلونت سنگھ کے افسانوں کی مجموعی تعداد۱۳۲ قرا رپاتی ہے اور اگر اس فہرست میں ہندی کے دس افسانوی مجموعوں کی۱۱۲ کہانیوں کو بھی جوڑا جائے تو یہ تعداد ۲۴۴ تک پہنچتی ہے۔اُن کی کہانیوں کی یہ فہرست حتمی نہیں ہے ۔اس میں اور بھی اضافہ کی گنجائش ہو سکتی ہے۔بہرحال بلونت سنگھ کے حوالے سے جمیل اختر کی تحقیق معتبر اور مستند قرار دی جا سکتی ہے۔مواد کی فراہمی میں انہیں کِن دشوار گزار اور جاں توڑمراحل سے گزرنا پڑاہوگا اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔جمیل اخترموضوعِ بلونت سنگھ کے ساتھ اپنی دلچسپی اور محرک کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’بلونت سنگھ کے کلیات کو مرتب کرنے کا خیال میرے دل میں کئی وجہوں سے پیدا ہوا۔ جس میں سب سے بڑی وجہ اس عظیم افسانہ نگار کوناقدوں کے ذریعے نظر انداز کیا جانا تھا۔ اردو اور ہندی میں ملا کرتین درجن سے زائد کتابوں کا مصنف اور بقولِ اوپندر ناتھ اشک تقریباً’’تین سو کہانیوں کا خالق‘‘ہونے کے باوجود ان کے انتقال کے بعد نہ ہی اخبارات میں ان کے موت کی خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی اور جب ارتھی اُٹھی تو اردو، ہندی کے ادیبوں میں سے کوئی وہاں موجود نہیں تھا۔ یہ کیسی درد ناکی تھی۔نہ ہی کسی رسالے نے اس کے شایانِ شایان کوئی نمبر ہی شائع کیا۔سوائے چند ایک کے۔مضامین لکھنے والے لوگوں کی بھی بے حد کمی رہی ۔ زیادہ تر مضامین رسائل نے ایک دوسرے سے نقل کیے۔شاید کسی ناقد نے لکھنے کی حامی نہیں بھری۔یہ ناانصافی اور دردناکی مجھ سے دیکھی نہ گئی اور یہیں سے یہ خیال پختہ تر ہواکہ پرانی پیڑھی نے جو کیاسو کیا۔ میں نئی پیڑھی سے ان کو متعارف کراؤں تاکہ اس ناانصافی کی تلافی ہوسکے۔یہ سوچ کر قدم آگے بڑھایا۔‘‘
(کلیات بلونت سنگھ’افسانے‘،جلد چہارم،مرتب: جمیل اختر،قومی کونسل ،دہلی،۲۰۱۰ء،ص۸)
ڈاکٹر جمیل اختر سے پہلے بلونت سنگھ پر سب سے پہلی کتاب ’’بلونت سنگھ کے بہترین افسانے‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی لکھی ہوئی ہے۔اس میں بلونت سنگھ کی شخصیت اور فن پر گوپی چند نارنگ نے بالغانہ اور مفکرانہ انداز میںبہت ہی عمدہ ، بسیط اور بلیغ مقدمہ بعنوان’’سائیکی، ثقافت اور شکست رومان‘‘۷۰ صفحات پر مشتمل تحریر کیا ہے۔موصوف نے اب تک جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے اُس میں اپنی تحقیق و تنقیدی صلاحیت، علمی ذکاوت و ادراکی قوت ، عالمانہ سُوجھ بُوجھ اور بصیرت افروز معلومات کی بنیاد پرنئے نئے گُل بوٹے کھِلائے ہیں۔ان کے بلیغ ذہن اور روشن ضمیری کی بہ نسبت ہی بلونت سنگھ سے آج پوری اردو دنیا متعارف ہوچکی ہے۔انہی کی تحریک پر کتاب نما، جامعہ، سوغات اور آجکل میں بلونت سنگھ پر خصوصی گوشے شائع کئے گئے۔’’بلونت سنگھ کے بہترین افسانے‘‘ کتاب کے ہندی اور انگریزی تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ اس میں بلونت سنگھ کے اکیس بہترین افسانوں کا انتخاب شامل ہے۔
ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کے بعد اور جمیل اختر سے پہلے یعنی درمیان میں بلونت سنگھ پر ہندوستان کی جن جامعات میںتین تحقیقی مقالے لکھے گئے ان میں ایک مقالہ دہلی یونی ورسٹی میں، دوسرا جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور تیسرا کلکتہ یونی ورسٹی میں تحریر کیا گیا ہے۔ممتاز آرا کو دہلی یونی ورسٹی میں’’بلونت سنگھ :شخصیت اور فن ’‘‘ پر پی ۔ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ہے۔ جوپھر کتابی صورت میں ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔تینوں مقالات میں کوئی نئی اور پُر مغز تحقیق نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ بلونت سنگھ کے تئیںناقدینِ ادب کے ادبی یا ذاتی تعصبات کارفرما ہوسکتے ہیں۔ دوسری وجہ مواد کی عدم دستیابی ہے۔لیکن پھر بھی ان کی تحقیق برحق قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ کُھلے میدان میں گھوڑے دوڑانا تو آسان کام ہے جبکہ ہجوم سے بھرے میدان میں انتہائی مشکل۔
بلونت سنگھ کے تخلیق کردہ ادبی سرمایے پراتنا کم لکھا گیا ہے کہ چند سطروں میں پوری داستان بیان ہوسکتی ہے۔پرانے تو پرانے آج کے ادبا اور ناقدین حضرات بھی تنگ نظری کے شکار نظر آتے ہیں۔ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ ادبی دائرہ کو وسعت بخشنے اور کشادگی عطا کرنے کے بجائے ادب کو سمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بلونت سنگھ پر نہ لکھنے کے کیا وجوہات ہوسکتے ہیں؟ اس کا خلاصہ اس مضمون کی آئندہ سطور خود بخود واضح ہوتاجائے گا۔
بلونت سنگھ جون ۱۹۲۱ء میںضلع گوجرانوالہ موضع بہلول، مغر بی پنجاب(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں کے پریپریٹری اسکول میں ہوئی۔ ان کے والد لال سنگھ دہرہ دون کے ملٹری کالج میں لکچرر تھے۔ کچھ برسوں بعد انہیں بھی والد کے پاس دہرہ دون جانا پرا۔ یہیں سے انھوں نے میٹرک کیا۔ بعد میں الہ آباد یونی ورسٹی سے ایف ۔اے اورپھر اس کے بعد یہیں سے بی۔اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۱۹۴۸ء میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ایک سال بعد ہی طلاق ہوگئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بقول دوسری شادی اکیس برس بعد منجھو سے ہوئی۔ جن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی۔ان کی دوسری بیوی ان سے ۲۵ سال چھوٹی تھی۔بلونت سنگھ جولائی ۱۹۴۸ء سے جنوری ۱۹۵۰ء تک پبلی کیشنز ڈویژن، وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند کے رسائل ’آجکل‘،’بساطِ عالم‘اور’نونہال‘ کے ادارتی عملے سے وابستہ رہے۔ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد مستقل طور پر الہ آباد منتقل ہوگئے ۔ اسی زمانے میں ان کے والد کا انتقال بھی ہو گیا ۔ابتدا میںوالد کے قائم کردہ ’’امپیریل ہوٹل‘‘ کو سنبھالا۔ لیکن بعد میں عدم توجہی کے باعث ہوٹل کو فروخت کر دیا۔ آخرمیں کینسر جیسی موزی بیماری لاحق ہوئی ۔ بالآخر ۲۷/ مئی ۱۹۸۶ء کو ان کا انتقال ہوا۔
بلونت سنگھ بڑے بڑے اعزازات کے مستحق تھے لیکن ان کی زندگی میں انہیں صرف اترپردیش سرکار ادبی ایوارڈ، بھاشا و بھاگ حکومتِ پنجاب کا ادبی ایوارڈاور پنجاب سے ہی شرومنی ساہتیہ کار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی اردو اور ہندی زبانوں میں مجموعی طور پر چالیس سے زائد تصانیف شائع ہوئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر ہندی کتابیں ہیں۔ اردو میں غیر معمولی لیاقت رکھنے کے باوجود اردو میں کم لکھنے کی بلونت سنگھ کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اس کو جمیل اختر کے درج ذیل اقتباس سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے:
’’ہندوستان ہمارا ‘‘کوچھوڑ کر بلونت سنگھ کے باقی تمام افسانوی مجموعے پاکستا ن میں شائع ہوئے ہیں۔ ’’ہندوستان ہمارا‘‘الہ آباد سے شائع ہوا ہے۔تمام مجموعوں کی اشاعت دوم کی نوبت نہیں آئی۔قاری نے بھی نہ جانے کیوں ایسی بے رُخی برتی کہ بلونت سنگھ یا تو دل بدل ہوگئے یاانھوں نے اس جانب توجہ نہیں دی اور صرف ہندی میں کتابیں چھپوانے میں مشغول رہے۔ کیونکہ تقسیم کے کچھ دنوں بعداردوکی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ہندی میں لکھنا شرع کردیاتھا۔ اردو میں برائے نام لکھتے تھے۔‘‘
(کلیات بلونت سنگھ ازمرتب کردہ جمیل اختر،جلد۱،ص۲۲)
بلونت سنگھ نے اردو میں کئی لازوال کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے پہلی کہانی’سزا‘میٹرک میں لکھی تھی۔ جو ماہنامہ’ساقی‘ دہلی میں شائع ہوئی تھی جس کو پڑھ کر کرشن چندر بھی بے حد متاثر ہوئے تھے۔بلونت سنگھ نے نریش کمار شاد کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ نذیر احمد چودھری کے بقول’’کرشن چندرتو لاہور بھر میں ’ساقی‘ کے اس شمارے کو گھماتا پھرا اور اپنے ہر ملنے والے سے کہتا رہا کہ دیکھو افسانے یوں لکھے جاتے ہیں۔‘‘اس کے بعد بلونت سنگھ کا قلم نہیںرُکا بلکہ مسلسل لکھتے گئے۔ان سے پہلے بیدی، کرشن چند، عصمت ،منٹووغیرہ اردو ادب میں اپنا مقام متعین کر چکے تھے۔ لیکن جب بلونت سنگھ نے افسانوی دنیا میں اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ تو ان افسانہ نگاروں کے ہم پلہ ان کے بھی افسانے شائع ہوتے رہے۔بلونت سنگھ نے جن ملکی اور غیر ملکی افسانہ نگاروں سے اثر قبول کیا ہے ۔ ان میں اردو میں کرشن چندر، سدرشن، نیاز فتحپوری، سجاد حیدر یلدرم، حجاب امتیاز، اور غیر ملکی افسانہ نگاروں میں چیخوف، کیتھرین، مینس فیلڈ،ڈی۔ایچ۔لارنس،ٹامس مان، ٹالسٹائی وغیرہ اہم ہے۔
بلونت سنگھ نے بہت لکھا اور اعلیٰ درجے کا لکھا۔ ان کے لکھے ہوئے افسانے نامور رسائل ساقی، ادبی دنیا، آجکل، سوغات، نقوش،ہمایوں،فسانہ،مسیحی دنیا، نئی دنیا،تیج ویکلی وغیرہ وغیرہ میں شائع ہوئے۔بلونت سنگھ نے اس زمانے میں لکھا جب ترقی پسندی کا دورہ دورہ تھا۔ ادب میں افادیت ترقی پسندی کے لئے نزدیک ناگزیر تھی۔ ہر ادیب ترقی پسندی کی حمایت میں لکھتا تھا۔کرشن چندر، عصمت، بیدی، منٹو، خواجہ احمد عباس،غلام عباس وغیرہ سب ترقی پسند کہانیاں لکھتے تھے۔ قطع نظر اس کے بلونت سنگھ کی کہانیوں میں بظاہر کوئی ایسی افادیت نہ دکھائی دیتی تھی۔شاید اس لئے کہ کسی نقاد یا ادیب نے اعلیٰ درجے کے افسانہ نگاروں کی فہرست میں بلونت سنگھ کا نام نہیں لیا۔اس کا ایک سبب بلونت سنگھ کی انا بھی تھی۔جو انہیںاپنے زمانے کے دوسرے ادیبوں سے دور کر رہی تھی۔ وہ اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کو اپنے سے کم تر تصور کرتے تھے۔ ابتدا سے آج تک ادب مختلف ادبی گروہوں، ادبی تحریکوں اور دبستانوں کے زیر اثر وجود میں آتا رہا ہے اور ہر زمانے میں ادبا ان ہی حلقوں اور گروہوں کے بنائے ہوئے اصولوں کے کاربند اور پیروی کرتے رہے ہیں۔ بلونت سنگھ کے دورمیں بھی ترقی پسندی کی تحریک عروج پر تھی ۔اکثر و بیشتر ادبا اسی کے بنائے ممورینڈم اور بینر تلے لکھتے۔افسانہ نگاروں کے اپنے اپنے گروہ تھے جو اپنے اپنے لوگوں کا نام اچھالتے تھے۔ لیکن بلونت سنگھ نے نہ کبھی کسی حلقہ کا اثر قبول کیا، نہ کسی گروہ کے ساتھ اپنی وابستگی قائم کی،نہ کسی نقاد کو پٹایا اور نہ کبھی کسی سے لکھنے کی فرمائش کی۔یہاں تک کہ رسائل کے مدیران ان کی کتابوںپر خود انہی سے مضمون لکھوانے کی پیش کش کرتے۔یہ کیا کسی المیہ سے کم ہے کہ شخصیت کی آڑ میںادب کو قربان کیا جاتا رہاہے۔بلونت سنگھ کواپنے معاصرین سے شاذ ہی ملنے کا اتفاق ہوتا تھا۔ دوست و احباب انھوں نے بنائے ہی نہیں۔انھوں نے بالکل گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کی تھی۔ کہیں جا نا ہوتا تو اکیلے ہی جاتے۔ان کی شخصیت نمایاں ہونے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ ملنا جلنا انہیں پسند نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’اَن سوشل‘‘ کہا گیا۔بلونت سنگھ پر مضامین اور دوسری لکھی ہوئی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اندرون بین شخص تھے ۔انھوں نے دنیا کی باتوں سے بے پروا ہو کر لکھا اور بہت لکھا۔ یہاں تک ان کے لکھنے کی رفتا بڑھتی گئی اور وہ اپنے تخئیل کی خلق کی ہوئی دنیا میں مگن ہوگئے۔ ان کی کہانیوں کی مہک اور نگا رنگی سے ان کی زندگی کا اصلی حسن نمایاں طور پر نظر آتاہے۔پرفیسر گوپی چند نارنگ بلونت سنگھ کے افسانوی جہات کا ان الفاظ میں کاکہ کھینچتے ہیں:
’’اردو افسانہ تنوع کے اعتبار سے ایک قوس قزح کی طرح ہے، جس کے رنگ ایک کے بعد ایک تنے ہوئے ہیں۔ ہر چند کہ بلونت سنگھ کو ان کی زندگی میں بھی کوئی اہمیت نہ دی گئی ، اور موت کے بعد تو فراموش ہی کر دیا گیا۔ لیکن اردو افسانوں کے رنگوں میں ایک رنگ بلونت سنگھ کا بھی ہے، جو خاصا خوشنما ہے اور دوسروں سے الگ بھی ہے، افسانوں کے افق پر اس وقت منٹو، بیدی، کرشن چندر اور عصمت چھائے ہوئے تھے۔ جس سے بلونت سنگھ کی مہک پھیلی تو لیکن اتنی نہ پھیلی جتنا اس کا حق تھا۔ اس میں کچھ خود بلونت سنگھ کی کم آمیزی کا بھی دخل تھا اور کچھ یہ بھی کہ بعد میں ان کی زیادہ تر کتابیں، ناول اور افسانے ہندی میں بھی شائع ہوتے رہے اور اردو نے اپنے ایک البیلے فنکار کو فراموش کردیا۔‘‘
(بلونت سنگھ کے بہترین افسانے از مرتبہ گوپی چند نارنگ،ص۶۸)
بلونت سنگھ شریف النفس، خود ار، خود پسند، بیباک،صاف گو اور تنہائی پسندآدمی تھے۔ان کی سادگی ، بے ساختگی اور نرم مزاجی کا اثر ان کے افسانوں پر بھی پڑا ہے۔بلونت سنگھ کی طرف اگر چہ ابتدا سے ہی کم توجہ مبذول فرمائی گئی لیکن ان کے تخلیق کیے گئے افسانوں کوہمیشہ پسند کیا گیا۔ بلونت سنگھ اردو کے معروف اور بلند پایہ کے افسانہ نگار تھے اور ہمیشہ رہیںگے۔اردو کے مایہ ناز افسانہ نگارکرشن چندر نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ’’بلونت سنگھ ان خوش نصیب افسانہ نگاروں میں سے ہیں جو صرف ایک افسانہ لکھ کر بقائے دوام حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’سزا‘ ان کی پہلی کوشش ہے لیکن اس قدر کامیاب، اس قدر خوبصورت، اس قدر جامع کہ حرفِ اول حرفِ آخر معلوم ہوتا ہے۔‘‘راجندر سنگھ بیدی نے بھی ان کے افسانوں کی تنوع اور شگفتگی کی داد دی۔ پروفیسر وقار عظیم بلونت سنگھ کے متعلق یوںلکھتے ہیں کہ:
’’ بلونت سنگھ کے متعلق میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ انھیں دیکھ کر افسانہ کا گمان تو ہو سکتا ہے، افسانہ نگار کا نہیں۔ جب یہ بات لکھی گئی تھی اس کے بعد سے بلونت سنگھ نے اپنے اور بھی زیادہ افسانہ نگار ہونے کا ثبوت دیا ہے، اور اپنی افسانہ نگاری کی بہت تھوڑی عمر میں اپنے آگے چلنے والوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔‘‘
(نیا افسانہ از وقار عظیم ،ص۱۹۰)
ان سب کی صف میں عہد حاضر میں اردو کے بہت بڑے نقاد تصور کیے جانے والے شمس الرحمٰن فاروقی بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے بلونت سنگھ کو ابتدا سے ہی پڑھا اوربعد میں ایک مبسوط مقالہ تحریر فرماکر اردو والوں کی بلونت سنگھ کے تئیں ناحق شناسی کی بازیافت کی ہے۔ ان کے مطابق:
’’ آج کے لوگوں میں سے اکثر نے بلونت سنگھ کا نام ہی نام سنا ہوگا، ان کی کوئی تحریر پڑھی نہ ہوگی۔ ہاں جب ہم لوگ ادب کی دنیا میں داخل ہو رہے تھے، اور ہر نو آمدہ ادیب کی جیب میں ایک دو افسانے ہر وقت پڑے رہتے تھے، اور ہر شخص، منٹو ، بیدی، کرشن چندر کے تازہ افسانوں کو جلد از جلد پڑھ ڈالنا چاہتا تھا، ان دنوں میں بلونت سنگھ کے بھی جاننے والے، ماننے والے اور چاہنے والے بہت تھے۔ ‘‘
(افسانے کی حمایت میں از شمس الرحمٰن فاروقی،ص۷۶)
بلونت سنگھ اردو کے ایک مقبول افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کو اُس وقت بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ،اور دلچسپی سے پڑھاگیاجس وقت اردو کے شہرۂ آفاق افسانہ نگاروں کا سورج طلوع ہوچکا تھا۔ مندرجہ بالا میں پیش کی گئی مختلف مشاہیر کی آرا ؤںسے اس کا ندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
بلونت سنگھ کثیر التصانیف اور کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ ناولوں کے برعکس ان کے افسانوی کتابوں کی تعداد کم ہے لیکن جتنی بھی ہے ان کے ناولوں پر باری پڑتی ہے۔بلونت سنگھ نے پنجاب کے دیہات، دیہات میں رہنے والے کسانوں، ان کسانوں کی جفا کش زندگیوں،نچلے اور درمیانہ طبقے کے دیہاتیوں،ان دیہاتیوں کی معاشی اور اخلاقی اقدار کی صورتِ حال، ان کی مظلومیت،بھوک، بیکاری ،ذہنی اور نفسیاتی مسائل،دیہات میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں،ان کے فکرو احساسات،جذبات اور خیالات،رشتوں، ان کی جرائم پیشہ زندگی ، تند مزاگی،وغیر ہ کو اپنے افسانوں کے موضوعات بنا کر پیش کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں سکھ اور خصوصاً جاٹ سکھ کو بنیاد ی کردار بنانے کی بے حد عمدہ کوشش ہے۔مشکل سے ہی کوئی افسانہ ایسا ہوگا۔ جس میںجاٹ سکھ کے کردار کا استعمال نہ کیا گیاہو، اور جس خوبی سے اس کردار کو افسانوں میں پیش کیا ہے وہ انہی کی تخلیقی صلاحیت کی مہمیز ہیں۔
ہندوستان کی سماجی زندگی دیہات سے عبارت ہے۔اس لئے ہمارے بیشتر ابتدائی افسانہ نگاروں کے یہاں دیہات سے جڑ ے بہت سارے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ان افسانہ نگاروں میں پریم چند،کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی،سہیل عظیم آبادی،سدرشن،علی عباس حسینی،بیدی،عصمت چغتائی وغیر ہ شا مل ہیں۔ بلونت سنگھ سے پہلے بھی ہمارے بعض افسانہ نگاروں نے پنجاب کے دیہات کو زندگی دی تھی۔لیکن جب بلونت سنگھ اس میدان میں آئے۔ ان کے افسانوں کو پڑھکر یوں محسوس ہونے لگا کہ ہم نے اب تک پنجاب کے دیہات کو یا تو دیکھا نہیں تھا یا دیکھا تھا تو بہت دورسے دیکھا تھا۔ پنجاب کے دیہات سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ بدحال کسانوں اور ظالم زمینداروں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جاگیردارانہ معیشت،جہالت،مفلسی اور ان سب کے پیدا کردہ حالات جن کا دباؤ آدمی کو جرائم پیشہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتا ہے۔’بابا مہنگا سنگھ‘، ’کالی تیتری‘،’پنجاب کا البیلا‘،’تین چور‘ اور ’گرنتھی‘جیسے افسانوں میں کم و بیش انھیں موضوعات کو بنیاد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب’’بلونت سنگھ کے بہترین افسانے‘‘ میں جن افسانوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں ’جگا‘،’گرنتھی‘،’سزا‘،’راستہ چلتی عورتیں‘،تین باتیں‘،’کالے کوس‘،’لمحے‘،’ہندوستان ہمارا‘،’دیبلے۳۸‘،’پہلا پتھر‘ دیش بھگت‘،’سورما سنگھ‘،’کالی تیتری‘،’گمراہ‘،نہال چند‘،’خوددار‘،’سمجھوتہ‘،’پیرویٹ‘،’دیمک‘اور’کٹھن ڈگریا‘خاص طور قابلِ ذکر ہیں۔ان سب کا شمار بلونت سنگھ کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب بلونت سنگھ ان کے بہترین افسانوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بھی’گرنتھی‘، ’دیوتا کا جنم‘ ،’سزا‘اور’چکوری‘وغیرہ کا ذکر کیا۔جب گوپی چند نانگ نے ان کے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا تھا تب ان کے سامنے محض وہی چھ افسانوی مجموعوں میں شامل ۶۵ کہانیاں رہی ہوں گی۔ لیکن اب صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔ جمیل اختر صاحب کی بہترین تحقیقی صلاحیت سے مزید ۶۷ کہانیوں کااس میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ اب اگر بلونت سنگھ کے بہترین افسانوں کی بات کی جائے گی۔ تو یقیناً اس میں اور بھی کہانیاں شامل کی جاسکتی ہیں۔
’’جگا‘‘کو بلونت سنگھ کے بہترین رومانی افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یوں تو ان کی بہت ساری کہانیوں میںرومان،حقیقت اور تخلیقی حِسیّت کے آہنگ کا امتزاج بالعموم نظر آتا ہے۔ لیکن ’’جگا‘‘ ان میں سے بالکل ایک منفر د کہانی ہے۔ اس کہانی میں بھیکن نام کا ایک چھوٹا سا غیر معروف علاقہ صرف سکھوں کی آبادی پر مشتمل ہوتاہے۔اس گاؤں میں حسین لڑکیوںکا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں اور پھر ان خوبصورت لڑکیوں کے دورِ شباب میں پُر لطف عشقیہ کہانیاں جنم لیتی۔گورنام اسی گاؤں کی ایک حسین، شیتل، کومل، نرمل، چنچل، نازک، معصوم الھڑ لڑکی ہے۔ جس کے کئی دیوانے ہوتے ہیں ۔جس میںشنگارا سنگھ اور دلیپ سنگھ بھی ہیں۔ شنگارا سنگھ کے ہوتے ہوئے گاؤں میں کوئی بھی گورنام کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ایک دن دلیپ اس سے مار بھی کھاتا ہے۔لیکن ایک روز’جگا‘ نام کا ایک خوفناک ڈاکو جس کا اصلی نام سردار جگت سنگھ وِرک ہوتا ہے،رات کی تاریکی میں سانڈنی پر سوار اس گاؤں سے گزرتے ہوئے رہٹ پر پیاس بجھا نے کے لئے رکتا ہے۔بلونت سنگھ نے ’جگا‘ کے کرادر کو بڑے خوفناک اور وحشت ناک انداز میں پیش کیا ہے۔آس پاس کے علاقوں کے سبھی لوگ جگا کے نام سے کانپے اور لرزتے ہیں۔ لیکن رہٹ پر اچانک اس کی حسنِ اتفاق سے گرنام سے ملاقات ہوتی ہے۔ گرنام اس کی اصلیت سے واقف نہیں ہوتی۔’جگا‘ گرنام سے پوری واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس کے ساتھ اسی کے گھر جاتا ہے۔جہاں وہ گرنام کے گھروالوں سے اجازت حاصل کرنے کے بعدرات بھر ٹھہرتا ہے۔وہ شام کے وقت گرنام کو اکیلے میں کھیتوں میں ملنے کو کہتا ہے۔ گرنام معصومانہ انداز میں ملنے جاتی ہے۔ جہاں باتوں باتوں میں ’جگا‘ کے ہاتھوں سے زیور گر تے ہیں۔بالآخر سمجھانے بجھانے کے بعد دونوں ایک دوسرے کی چیزیں بدل دیتے ہیں۔صبح کو جب’جگا‘ نکلنے کی تیاری میں ہوتا ہے تو گرنام کے باپو اس سے نام پوچھتے ہیں،جواب ملتا ہے کہ کسی سے مت کہناکہ آج رات’جگا‘ تمہارا مہمان تھا۔ ورنہ انجام سب کی موت ہے۔ اس کے بعد سے ’جگا‘ گرنام کو رات کے اندھیرے میں روز ملنے آتا ہے۔ آہستہ آہستہ ’جگا‘ کو گرنام سے محبت ہوتی ہے ۔لیکن اس محبت سے گرنام انجان تھی۔ اسی اثنا میں لوگوں کو بھی پتہ چلتا ہے کہ گرنام کی محبت میں ’جگا‘ نے ڈاکہ زنی ترک کر دی ہے اور وہ اپنے آپ کو گرنام کے قابل بنانا چاہتا ہے۔ اور سچ بھی یہی ہوتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے وہ کبھی گرنام سے اپنے پیار کا اظہار نہیںکرپاتا۔ایک دن جب گرنام کے گھر والے اس کی کسی انجان لڑکے سے شادی طے کرتے ہیں تو وہ ’جگا‘ سے مدد مانگتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ دلیپ سنگھ سے پیار کرتی ہے۔ جس سے سن کر ’جگا‘ چونک اُٹھتا ہے اور ایک دن دلیپ سنگھ پر قاتلانہ حملہ کربیٹھتا ہے۔ مگر دلیپ سنگھ اس حادثے میں بچ جاتا ہے۔ ایک مرتبہ’جگا‘ کوحقیقی محبت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور بالآخرمیںدونوں کی شادی کرواتا ہے اور خود پھر سے خونخوار ڈاکو کی شکل اختیار کرتا ہے۔
یہ کہانی بہت اچھا پیغام دیتی ہے۔ ’جگا‘ ایک بڑی قد کاٹھی کا، تندرست، لحیم شحیم،بدصورت، ظالم،سخت گیر نوجوان ہے۔ امیروں کے یہاں ڈاکہ ڈال کر غریبوں میں فراخدلی سے تقسیم کرتا ہے۔ ہر غریب کی دعا اس کے ساتھ ہے۔ کوئی اس کے خلاف گواہی دینے کو تیار نہیں۔ کیونکہ یہ سب کا ان داتا ہے۔لیکن ’جگا‘خون کی ہولی بھی کھیل سکتا ہے۔گرنام سے محبت کے بعد اس میں بہت بدلاؤ آنے لگتا ہے۔ کچھ وقت تک خون خرابے سے دور بھی رہتا ہے۔ لیکن جب اس کو پتہ چلتا ہے کہ گرنام کسی اور سے پیار کرتی ہے۔ تب طیش میں آکر مرنے مارنے پر دوبارہ آمادہ ہوجاتا ہے۔آخر کارسچی محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتا ہے، اوردونوں گرنام اوردلیب سنگھ کی شادی کی رسم اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا ہے۔ بلونت سنگھ نے یہاں پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک ڈاکو میں بھی انسانیت کا جذبہ موجودہوتا ہے۔ جو جابر اور ظالم سرمایہ داروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ جس کے دل میں محبت کا جذبہ بھی ہے۔جو غلط کاموں سے باز بھی آ سکتا ہے۔جو عاشق ہے لیکن محبت کو قربان کرنے کا سلیقہ بھی رکھتاہے۔اگر ’جگا‘ چاہتا تو دلیب سنگھ کا قتل بھی کر سکتا تھا ۔لیکن وہ گرنام کو دکھی یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔دراصل ایک اچھا انسان بننے کی ہرخوبی’جگا‘ ڈاکو میں موجود ہوتی ہے۔ تو پھر اس سے ڈاکہ زنی ، لوٹ مار، خون خرابہ جیساراستہ اختیار کرنے پر کس نے مجبور کیا؟۔اس کا پورا دارومدار ہمارے معاشرے پر ہے جو ’جگا‘ جیسے ڈاکوؤں کو جنم لینے سے پر مجبور کرتے ہیں۔اوپندر ناتھ اشک اس کہانی کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
’’جگا، تخئیلی، رومانی اور فارمولا کہانی ہے۔ نک چڑھے ساتھی، ادیب یا نقاد اس پر ناک بھون چڑھاتے ہوئے لاکھ اسے ہوائے اڑائیں۔ لیکن جب یہ دنیا بنی ہے اور نامرادی عاشقوں کے قصّے مشہور ہوئے ہیں ایسی کہانیاں لکھی اور پڑھی جاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی لکھی اور پڑھی جاتی رہیں گی، اور اگر بلونت سنگھ جیسے کسی فنکار کے سدھے ہوئے ہاتھوں کا لس اُنہیں مل گیا تو زندہ جاوید بھی ہو جائیں گے۔‘‘
(بلونت سنگھ: شخصیت اور فن از اوپندر ناتھ اشک،ماہنامہ آجکل ،جنوری ۱۹۹۵ء،ص۸)
اس کہانی میں ماحول، واقعات، فضا، مکالمے کردار سب جیتی جاگتی دنیاکے معلوم ہوتے ہیں۔ غرض کہ پوری کہانی حقیقی اور تجرباتی زندگی سے قریب تر نظر آتی ہے۔
’’آزادی کے بعد اردو افسانہ: ایک انتخاب‘‘ میں بلونت سنگھ کا ایک افسانہ’’دیش بھگت‘‘ بھی شامل کیا گیاہے۔ان کے کم و بیش افسانوں میں سکھ کردار وںکے ساتھ ساتھ مسلمان کردار بھی نظر آتے ہیں۔ مذکورہ افسانہ میں بھی یہ خوبی ہے۔’دیش بھگت‘ ان کی حاضر راوی کہانی ہے۔ جس میں راوی صرف حالات سے واقف کراتا ہے۔ تبصرہ نہیں کرتا۔’راوی‘ نے ایک ادھیڑ عمرکے سردارجی کو ’چچا‘ کہا ہے۔جن کی عمر تقریباً ۴۵ ہیں لیکن اپنے آپ کو بائیس کی عمر کا ٹھہراتے ہیں۔’چچا‘ راوی کا کچھ نہیں لگتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں ایک ہی گاؤں کے ہیں۔ ’چچا‘ راوی کو ایک روز شام کو اپنے ساتھ کسی کام کے واسطے لے جاتا ہے۔ راستے میں انہیںتیرہ چودہ برس کی ایک کم سِن، لاچار، بے بس، غریب، مظلوم عورت دھول میں لپٹی ہوئی ملتی ہے۔ اپنے سامنے لحیم شحیم مردوں کو پاکر یہ کم سِن لڑکی خوفزدہ ہوتی ہے اس کو اپنی عزت خطرے میںمحسوس ہوتی ہے۔ ‘چچا‘ دیکھتا ہے کہ ایک عورت جو ایک چالاک لومڑی جیسی بڑھیا کے قریب ٹاٹ پر بیٹھی ہے ۔جس میں سوائے اس کے کہ جوان تھی، اور کوئی خوبی نہ تھی۔بڑھیا اس کا سودا آٹھ آنے کر رہی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ پھرچلتے چلتے کئی گلیوں سے گزرتے ہوئے آخر کار مجید کے گھر پہنچے۔ مجید نے خوب آؤ بھگت کی۔ ’چچا‘ اور مجید کے درمیان کانا پھوسی ہوتی ہے اور کچھ منٹوں بعد وہی لڑکی بڑھیا کے ساتھ آتی ہے اب پانچ لوگ موجود ہوتے ہیں۔ جہاں سب کے سامنے لڑکی کو ’’چچا‘ کو سپرد کیا جاتا ہے۔ چچا اس لڑکی کو بہلا پھسلا کرگھر لے جا نے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعد میں اپنی ہوس کا شکار بناناچاہتا ہے۔ کچھ دنوں بعدجب راوی چچا کے گھر سے گزرتا ہے تو لڑکی کے چلانے کی آواز سے لگتا ہے کہ چچا لڑکی کے ساتھ زور زبردستی کر رہا ہوتا ہے۔ جہاں کرب کی حالت میں لڑکی اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوتی ہے۔اس کے بعد انہی دنوں میں جواہرلال نہرو کی آمد میں جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ جہاں چچا اور مجیدبھارت ماتا کی جے، پنڈت جی کی جے،مہاتما گاندھی کی جے وغیرہ کے نعرے لگاتے ہیں۔اس افسانہ میں چچا جیسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اُٹھایا گیا ہے جو ایک طرف محبِ قوم کے نعرے بلند کرتے ہیں تو دوسری طرف عورتوں کی آبرو کے ساتھ کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔اس کھیل میں صرف ایک سکھ چچا مجرم نہیں ہے بلکہ مجرم ہے مجید، مجرم ہے بڑھیا، مجرم ہے راوی جو مظلوم کی مظلومیت کا نظارہ کرتے ہیں اس کی چیخے سنتے ہیںاور بے غیرتی کے ساتھ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک گھنوونے کاموں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔دراصل یہ سب ملک و قوم کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ جو معاشرت کو پلیدہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جن کی پہنچ ہر چھوٹے بڑے شخص تک ہے۔یہاں جرائم پیشہ افراد کسی ایک مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔اس افسانے کی منظر کشی کمال کی ہے اور اس کا بیانیہ بھی مؤثر ہے۔
بلونت سنگھ نے افسانہ ’’ہندوستان ہمارا‘‘ میںایک ہندوستانی سکھ فوجی کی داستان پیش کی ہے۔ جگجیت سنگھ جو فوج کی نوکری کرتا ہے اورجس کی شادی کو صرف چار پانچ مہینے ہی ہوئے ہوتے ہیں ۔ بیوی کو پہاڑی کی سیر کرانے کی غرض سے چھٹی لے کر گھرآتا ہے۔ گھر میںماں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی ’جوڑ‘میلے میں اس کے بہنوں کے ساتھ چلی گئی ہے۔ چونکہ اس کی تازہ تازہ ہی شادی ہوئی تھی اس لئے اُتاؤلے پن میں بیوی کو دیکھنے کا زیادہ ہی اشتیاق پیدا ہورہا تھا۔ جلد ی سے میلے میں پہنچ گیا اورمیلے کی ہر تفریح کن جگہ چھان ماری لیکن بیوی کو نہ پایا۔اس دوران اسے میلے کے کئی پرکشش مناظر دیکھنے کو ملے۔لیکن آخر کار تھک ہار کار من ہی من میں بیوی کو کو ستا رہا۔بالآخر میلے میں بہن کو دیکھ کر بیوی کے پاس پہنچ ہی جاتا ہے اور اپنی آپ بیتی سنا تا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد اپنی بیوی کو سیر پر لے جانے کی تیاری کرتا ہے۔ لیکن ماں اشاراً کنایاً سمجھاتی ہے کہ اس کی بیوی ماں چار مہینے کے پیٹ سے ہیں۔ اس لئے جانے کی اجازت نہیں دے گی۔لیکن بیٹے کی ضدکے آگے اس کی ایک نہیں چلتی۔ دونوں میاں بیوی سفرکے لئے سامان باندھتے ہیں۔ چونکہ جگجیت سنگھ کو ترقی ملی ہوتی ہے اوروہ اب لفٹننٹ بن گیا ہوتا ہے۔ اسی خوشی میں جگجیت اپنی بیوی ایک مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلاتا ہے۔ اس دن جنگ کی وجہ سے پلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ ان دونوں کے پہنچنے پر سکنڈ کلاس کے ایک ڈبہ میں صرف ایک انگریز بیٹھا تھا۔ جو انہیں بھی ڈبہ میں چڑھنے سے منع کرتا ہے ۔ ابتداً جگجیت نے ہر اصول کی پیروی کی ۔اس کے بعد بھی کچھ نہ چلا۔چونکہ جگجیت سنگھ بڑا نڈر ہے اوربہادر فوجی بھی۔انگریز کی آنا کانی کرنے پر اُسے فلیٹ فارم پر دھکیل دیا۔ ’’جونہی جگجیت سنگھ نے پائیدان پر پاؤں رکھا۔گاڑی چل دی۔‘‘
اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح غیر ملکی ہونے کے باوجود انگریز نے جگجیت کو ڈبے میں بیٹھنے سے منع کیا۔مادرِ وطنی کے باوجود انگریزیہاں کے لوگوں کے ساتھ کس قدر استحصال کر رہے تھے۔ اس کہانی میں انگریز سامراج سے نفرت اور عوام میں آزادی کے احساسات کی بھر پورترجمانی کی گئی ہے۔ سکھ مذہب کے رسم و رواج کی اس کہانی میں خوب عکاسی کی گئی ہے۔ سکھوںمیںجوش، جذبہ، محبت،بھائی چارگی بیان کر کے ساتھ ساتھ ان کی بہادری کے قصے بھی اس کہانی میں سنائے گئے ہیں۔
بلونت سنگھ کی دیگر کہانیوں میں’پردیسن‘، ’ماتا ہری‘،’خدا کی وصیت‘،’بھول بھلیاں‘،’خلا‘،’تین باتیں‘،’تلچھٹ‘،’رقیب‘،’آشیانہ‘،’کلی کی فریاد‘،’حدِ فاصل‘،’بازگشت‘،’اعتراف‘،’ایک ہی ناؤ میں‘،’چالان‘،’بھیک‘،’سکوت‘،’ڈاکو‘ اور’موت‘ وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
بلونت سنگھ نے اپنی کہانیوں کو کسی ایک موضوع محدود نہیں رکھا، بلکہ انہیں تو ہر موضوع کو برتنے میں فنی اختصاص حاصل ہے۔ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے صرف سکھ جاٹ کے لوگوں پر مبنی کہانیوں کو ہی اہمیت دی ہو۔ بلکہ انھوںنے ہر طبقے، فرقے اور مذہب کی برابر نمائندگی کی ہے۔انھوں نے پنجاب کے دیہات کو خصوصاً اپنے افسانے کا بنیادی موضوع بنا کر پیش کیا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہری ماحول کی عکاسی نہ کی ہو۔ بلونت سنگھ نے ہندو مسلم ، سکھ ،امیر، غریب، بچے، بوڑھے، مرد، عورت،خواندہ، ناخواندہ، کسان، فوجی، کلرک،ڈاکو،کمزور، طاقتور، ظالم و جابر،سیاست دان، سرمایہ دار، زمیندار، بھوک، جنس، دیہات، درمیانہ اور متوسط طبقہ،آزادی،حق پرستی،چوری، عشق و محبت، نفسیات، رومانیت و غیرہ سب کو اپنے افسانوں میں گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ان کے افسانوں میں قصبوں کی فضا اور مٹی کی بوباس تو ہے ہی، لیکن فقط کھیت کھلیان یا سرسوں کا پھول ہی نہیں، طور طریقے، رہن سہن، پوجا پاٹھ، شبد کیرتن، میلے ٹھیلے، تیج تہوار، گانا بجانا،رسمیں عقیدے، سبھی کچھ ہے جس سے پوری معاشرت اور ثقافت عبارت ہے۔
بلونت سنگھ کے افسانوں میں منظر نگاری، جذبات نگاری، واقعات نگاری، کردار نگاری ،مکالمہ نگاری اور حقیقت نگاری وغیرہ عروج پر نظر آتی ہے ۔ان کے اکثر افسانے طربیہ انجام پر ختم ہوتے ہیں۔ان کے یہاں افسانوں میںمعنوی پہلو، فکری عنصر،تخلیقی ہیجان،ادب اور آرٹ کو برتنے کا فنکارانہ حسن،جدت اور ندرت، شگفتگی اور تنوع بھی پائی جاتی ہے۔بیدیؔ نے تقسیم سے چند برس پہلے بلونت سنگھ کے پہلے افسانوی مجموعے پرلکھا تھا کہ’’بلونت سنگھ اپنے موضوع میں تنوع، تحریر میں شگفتگی اور ہر لحظ ایک ایسا نیا پہلو پیش کرتے ہیں کہ پڑھ کر ہماری جمالیاتی حِس کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘بیدی ؔ صاحب کی رائے ہر اعتبار سے صحیح ثابت ہوئی۔غرض کہ بلونت سنگھ کے افسانوں کو ہر اعتبار اور ہر نوعیت سے شرفِ قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔
کتابیات
۱)نیا افسانہ،وقار عظیم،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،۱۹۷۳ء
۲)بلونت سنگھ کے بہترین افسانے،گاپی چند نارنگ،ساہتیہ اکاڈمی، نئی دہلی،۱۹۹۵ء
۳)آزادی کے بعد اردو افسانہ:ایک انتخاب(جلد اول) مرتبہ:گوپی چند نارنگ،ارتضیٰ کریم،اسلم جمشیدپوری،این۔سی ۔پی۔یو۔ایل،نومبر۲۰۰۳ء
۴)بلونت سنگھ:فن اور شخصیت،مُمتاز آرا،تخلیق کا پبلشرز، نئی دہلی،۲۰۰۳ء
۵)اردو افسانے کی حمایت میں،شمس الرحمٰن فاروقی،مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، نئی دہلی ،۲۰۰۶ء
۶)کلیات بلونت سنگھ:جلد اول،مرتبہ:جمیل اختر،این۔سی۔پی۔ایل،۲۰۰۹ء
رسائل
۱)بلونت سنگھ نمبر: ماہنامہ آجکل جلد،۵۳، شمارہ،۶ جنوری ۱۹۹۵ء
Gh Nabi Kumar, p-98, 4th floor, lane-2,batla house ,jamia
nagar, oakhla, new delhi-110025,