دنیا کی قدیم ترین صنف سخن کہانی ہے،کہاجاتا ہے،کہ جب انسان غاروں میں رہتا تھا،تو رات کے وقت وقت گزاری کے لیے،دن بھر کے واقعات نمک مرچ لگا کر ساتھیوں کو سناتا،پھر باقاعدہ کہانی سنانے والے یعنی داستان گو وجود میں آۓ۔۔یہیں سے انسان کا تخیلاتی سفر اساطیر میں ڈھل گیا
اساطیر یا داستانیں قدیم سومیریوں کے ہاں بھی پاٸ جاتی تھیں،یونانیوں رومیوں اور بابلیوں سے لیکر یہ داستانیں سامی نسلوں تک جاپہنچیں…ہندوستان میں بھی داستانیں موجود تھیں،چنانچہ پنج تنتر جانوروں کی زبانی معاشرے کے حالات بیان کرتے ہیں،پنج تنتر کا ترجمہ پہلوی میں کلیلہ و دمنہ کی شکل میں نوشیروان عادل نے کروایا،جنہیں بعد میں وسعت دے کر عربوں نے الف لیلا ولیل کے قالب میں ڈھالا
جدید کہانی کا آغاز یورپ سے ہوا،چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی وغیرہ میں اس کا اغاز ہوا،پھر شیکسپیر سے لیکر ایڈگر ایلن پو تک کہانی افسانہ کے روپ میں جلوہ گر ہوا،برصغیر میں ڈرامہ اور داستان تو موجود تھی،مگر افسانے کی جدید شکل بعد میں مرتب ہوٸ۔سید انشا۶ نے خالص اردو زبان میں کہانیاں لکھیں،میرامن اور سرور نے نیم داستانی قصے لکھے
الف لیلا کے ترجمے انگریزی اور لاظینی کے ساتھ اردو پشتو میں بھی ہوے،جدید افسانہ انگریزی فرانسیسی اور روسی زبانوں میں عروج کو پہنچا،اردو میں پریم چند اور پشتو میں راحت زاخیلی نے اس فن کو جلا بخشی…ان کے بعد اردو میں ان گنت افسانہ نگار پیدا ہوے،مگر پشکن اور دوستووسکی کی قدر کم نہ ہوٸ۔۔۔پشتو میں بھی اچھے خاصے افسانہ نگار پیدا ہوے
ناول جو کہانی سے زیادہ وسیع کینوس رکھتا ہے،اردو میں توسینکڑوں لکھے گیے،لیکن معیاری ناول اردو میں بہت کم لکھے گیے،پشتو زبان میں ناول کی نشوونما نہ ہوسکی،اگر چہ ناول لکھے گیے ہیں،مگر عالمی معیار کے ناولز پشتو میں عنقا ہیں،لاطینی امریکہ میں فرانس کے زیراثر،تنہاٸ کے سوسال،لکھا گیا،مصر میں ڈاکٹر نجیب نے پاے کے ناول لکھے
اردو میں افسانہ نگار تو سینکڑوں گزرے ہیں،مگر منٹو ایسے افسانہ نگار ہیں،جن سے ہرکوٸ متاثر ہوا،پشتو میں ارباب رشید احمد ماسٹر خان گل زیتون بانو اور طاھر بخاری کے بغیر افسانہ کی تاریخ مکمل نہیں کہلای جاسکتی…..
اب نہ افسانہ و ناول پڑھنے کا وقت ہے کسی کے پاس..اور نہ پشتو افسانہ اردو کا مقابلہ کرسکتا ہے،اسی طرح دیگر زابانوں میں بھی افسانہ پلا بڑھا۔ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے،کہ اساطیر قدیم انسان کے تخیلات کے بہترین نمونے ہیں،افسانہ میں کہانی چھوٹی اور زمینی کرداروں سے وابستہ ہوتی ہے
افسانہ کی بہت سی قسمیں ہیں،جدید نفسیات وجودیت،افلاس،جنگ اور استحصال نے افسانہ کو نٸ جہتوں سے روشناس کروایا،تاریخی افسانے بھی کچھ کم نہیں،مگر ناول و افسانہ میں تاریخ کو سمونا ذرا مشکل ہوتا ہے،مارشلاٸ دور میں متصوفانہ افسانے بھی وجود میں آۓ۔اردو میں غلام عباس حیات اللہ انصاری وغیرہ نے بے مثال افسانے لکھے ہیں
افسانوں کے تراجم بھی ہوے،مگر ان وہ اصلیت مفقود ہے،جو اصل مصنفین کے ہاں لذت کام و دہن ہے،سجاد حیدر نے ترکی افسانہ کو اردو قالب میں ڈھالا..کنہیا لال،بھیدی،کرشن چندر وغیرہ اردو کے بڑے نام ہیں،علاوہ ازیں امرتا پریتم ،قرة العین،خدیجہ مستور نے بھی اردو افسانہ میں اضافے کیے،پشتو میں خواتین نے افسانہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی،وہ شاعری پر اکتفا کرتی رہیں،افسانہ لکھنا ایک مشکل فن ہے،اور معیاری افسانہ تو اور بھی مشکل تخلیق کاری ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...