"خاندان میں ایک تُو ہے منزہ جس نے اپنے بابا کی ناک کٹوانے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔۔۔۔۔۔!” آج سے پہلے میں نے کبھی دادی جان کو اس قدر غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا تھا
"میں بھلا ابّا جان کی پگڑی کیوں اچھالنے لگی۔۔۔۔؟؟” منزہ پھوپھی بھی طیش میں آ گئیں
"تُو نے ایسی حرکت کی ہوتی تو تیری کھال نہ اُدھیڑ دیتی اب تک! بیٹی کو اگر چار جماعتیں پڑھا دیتی تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا!!” دادی کسی طور منزہ پھوپھی کی بیٹی مہرین کی غلطی کو نظر انداز کرنے کے موڈ میں نہیں تھیں جس کے تیسرے عشق کے چرچے محلہ میں لوگوں کی زبان پر تھے۔ اور سب کے لاکھ چھپانے پر بھی اس بار یہ خبر دادی جان کے کانوں تک پہنچ گئ تھی۔
"اِسری! ابھی کے ابھی شاہدہ کو فون لگا!” دادی نے مجھ سے شاہدہ آپا کا نمبر ملانے کے لئے کہا۔۔۔۔ شاہدہ آپا اونچے گھرانوں میں رشتے کروانے کے لئے مشہور تھیں
مہرین کی تعلیم کی طرف رغبت نہ دیکھ کر دادی بہت کڑھا کرتی تھیں گو کہ مہرین اپنے بھائ بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھی اور پرانی روایت کے مطابق بہت خوش بخت تھی لیکن دادی تعلیم کے معاملے میں کوئ سمجھوتا نہیں کرسکتیں تھیں۔
"کیا ضرورت ہے دماغ کھپانے کی۔ دماغ کی ورزش وہ کریں جن کی شکل صورت بری ہو۔ میری مہرین کو کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔” مہرین کی کند ذہنی پر منزہ پھوپھی نے بہت خوبصورت پردہ ڈال رکھا تھا۔ یہ بات نہیں تھی کہ مجھ سمیت ساری کزنز کم صورت تھیں مگر مہرین کے سامنے آتے ہی ہم سب کی خوبصورتی بغلیں جھانکنے لگتیں۔
"مہرین بھی باقی بھائ بہنوں کی طرح بالکل اپنی ماں پر گئ ہے۔ منزہ کو بھی پڑھائ سے بیر تھا اوراُس کے بچوں نے بھی ویسی فطرت پائ ہے” ثمرہ پھوپھی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں اور انہیں منزہ پھوپھی کے تعلیم حاصل نہ کرنے کا بے حد قلق تھا جس کا اظہار وہ اکثر و بیشتر کیا کرتیں۔ یہ ہمارے لئے افسوس کا مقام تھا کہ منزہ پھوپھی کا کوئ بچہ اسکول فائنل تک نہ پہنچا تھا جبکہ اُن کے علاوہ ہمارے خاندان کا کوئ فرد ایسا نہ تھا جس نے کم سے کم گریجویشن تک تعلیم حاصل نہ کی ہو۔ سال کے چھ مہینے منزہ پھوپھی اپنے مائیکے یعنی ہمارے ددھیال میں گزارتی تھیں۔۔۔۔۔ سو اسکول اور بچوں کی باقاعدہ پڑھائ کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔
پچھلے ایک گھنٹہ سے دادی فون پر شاہدہ آپا سے محوِ گفتگو تھیں۔ شاید انہوں نے آج مہرین کا رشتہ پکا کرکے اٹھنے کی ٹھان لی تھی۔
"کل شام مہرین کا نکاح ہے۔۔۔۔۔!! عید کے لئے جو نیا جوڑا میں نے اُس کے لئے بنوایا ہے وہ نکاح کے وقت پہنا دینا۔۔۔۔!” شاہدہ آپا سے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے بعد دادی نے موبائل میرے ہاتھ میں تھما کر اعلان جاری کیا جس کی تائید میں دادا جان شامل تھے۔
"کس نکمّے کو باندھ رہی ہو میری مہرین کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔؟؟ میری طرح اُس بے چاری کی قسمت بھی پھوڑوگی کیا۔۔۔۔؟” پھوپھی کی ناشکری پر ہمیشہ کی طرح ہم سب آج پھر حیران ہوئے کیونکہ پھوپھا جان ایک محنتی اور ہنس مکھ انسان تھے۔ اُن کا اپنا سائیکل کا کارخانہ تھا اور اُن کی بنائ ہوئ سائیکلوں کی بازار میں بڑی مانگ تھی لیکن منزہ پھوپھی ہر دو ماہ بعد پھوپھا سے جھگڑا کر کے بچوں کو لے کر اپنے مائیکے آجاتیں۔۔۔۔ پھر دادی کے بہت سمجھانے پر ہی واپس جاتیں۔
"میں نے جو ایک بار کہہ دیا سو کہہ دیا! اب اگر تُو نے اس رشتہ کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو میرا مرا منھ دیکھے گی!!” دادی نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا۔ منزہ پھوپھی کو دادی پر بالکل بھروسہ نہیں تھا مگر اِس وقت خاموشی اختیار کرنا انکی شدید ترین مجبوری بن گئی۔ مہرین نے اپنے نکاح کا سن کو وہ واویلا مچایا کہ ہم سب نے اپنے اپنے کانوں پر انگلیاں رکھ کر وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ دوسرے روز مغرب کی نماز کے بعد دادی کے حکم کے مطابق سارے رشتہ دار مہرین کے نکاح پر موجود تھے۔ پھوپھی نے نجانے کس طرح اُسے منایا تھا جو وہ گلابی جوڑے میں ملبوس قاضی صاحب اور گواہوں کے درمیان نکاح کے بول دہرا رہی تھی۔ زوہیب میاں گھر کی قریبی مسجد میں ایجاب و قبول کر چکے تھے۔ میں اپنے بہنوئ کا نام اس لئے لے رہی ہوں کیونکہ مہرین مجھ سے عمر میں دو برس چھوٹی ہے۔ اُس کے سسرال کی طرف سے اُس کی ساس اور دو شادی شدہ نندیں آئیں تھیں۔ مہرین کے سسر کا دو سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔ ایک عدد کنوارا دیور بھی زوہیب کے ساتھ آیا تھا۔ زوہیب گریجویٹ تھا اور اُس کے چشمے کے فریم کے تین شو رومز تھے۔ زوہیب اور مہرین کے سسرال کے بارے میں یہ جانکاری ہم نے نکاح میں آئ شاہدہ آپا سے چپکے سے معلوم کر لیا تھا۔ رخصتی کے وقت ہم سب کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ ہم سب مہرین کو سنبھالنے کے لئے آگے بڑھے لیکن اُس کا سپاٹ چہرہ اور خشک آنکھیں دیکھ کر ہم نے اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روکا۔
لڑکے والوں نے ولیمہ کی تاریخ ایک ہفتہ بعد کی طے کی تھی۔ میرے گریجویشن کا رزلٹ بھی مہرین کے نکاح کے دو دن بعد آیا تھا۔ میں نے فرسٹ کلاس پوزیشن لی تھی۔ دادی مجھ پر صدقے واری تھیں۔ انہوں نے پانچ سیر لڈو میری ٹیوشن ٹیچر کے گھر بھجوایا ۔ اِس خوشی کو میں مہرین کے ساتھ نہ منا سکی کیونکہ ہر بار کلاس میں پوزیشن لینے پر میں اُس کے ساتھ ہی آئسکریم پارلر جایا کرتی تھی۔ ہم سب شدت سے ولیمہ کے دن کا انتظار کر رہے تھے تاکہ مہرین کے دل کا حال جان سکیں۔ اِس دوران دادی جان نے اُس سے ملنے کی ہم سب کو سختی سے ممانعت کر دی تھی۔ نکاح کے بعد دادی دو بار اِس کے سسرال جا کر آ چکیں تھیں مگر گھر والوں سے اُس کے متعلق کسی خبر میں ہمیں شریک نہیں کیا تھا۔
ولیمہ کے روز تقریبا دوڑ کر میں نے پہلی گاڑی میں اپنی جگہ بنائ لیکن کچھ ہی دیر میں دادی جان ڈرایئور کی بغل والی سیٹ پر آ کر بیٹھ چکیں تھیں۔ مہرین سے تنہائ میں کچھ دیر بات کرنے کی خواہش مجھے دل میں دفن ہوتی محسوس ہوئ۔ ولیمہ کے لئے لڑکے والوں نے شہر کا مہنگا اور خوبصورت ہال منتخب کیا تھا۔ گاڑی سے اترنے کے بعد دادی کو لئے میں ہال میں داخل ہوئ۔ مہرین کے سسرال والے دادی جان کا ہاتھ تھام کر اُنہیں اپنے مہمانوں سے ملوانے میں مصروف ہو گئے۔ ادھر دادی کا دھیان جیسے ہی مجھ پر سے ہٹا۔۔۔۔ میں موقع غنیمت جان کر مہرین سے ملنے چل دی۔ زوہیب میاں اپنی ناک پر رومال رکھے گیٹ پر مہمانوں کے استقبال میں مصروف تھے اور ہر تھوڑی دیر میں چھینک رہے تھے۔ میں جیسے ہی مہرین کے پاس پہنچہی تو اُس کا کِھلتا روپ دیکھ کر دنگ رہ گئ۔ خوبصورت تو وہ ہم سب کزنز میں زیادہ تھی لیکن آج ماہر بیوٹیشن نے اُس کےحسن کو چار چاند لگا دیا تھا
"تم ٹھیک ہو نا مہرین؟؟” میں نے اُس کی خیریت دریافت کی
"مجھے کیا ہونا ہے؟؟” مہرین نے اپنی فطری نخوت بھرے لہجے میں کہا
"سسرال والے کیسے ہیں تمہارے۔۔۔۔۔؟؟” زوہیب پسند آیا ناں؟؟” میں نے مہرین سے اِن باتوں کو جاننے کے لئے ایک ہفتہ بڑی مشکل سے گزارا تھا
"سب یہاں بہت خیال رکھتے ہیں میرا۔۔۔۔۔ مگر زوہیب کی ناک ذرا بھی پسند نہیں مجھے۔۔۔۔۔ کسی طوطے کو دیکھو ۔۔۔۔ پھر اِن کو دیکھ لو۔۔۔۔۔! دونوں کی ناک بالکل ایک جیسی ہے! میں توروز روز کے ٹکروں سے تنگ آنے لگی ہوں۔۔۔۔۔!!” مہرین نے اپنی ستواں ناک سکوڑتے ہوے کہا۔ میں نے اُس کی تائید میں اپنا سر ہلا دیا۔۔۔۔۔ آخر اُس کی دہائ بھی بے معنی تو نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔!!!
ختم شد
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...