مسلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
( پروین شاکر)
سولہ صفحات پہ مشتمل ڈاکٹر عرفان عالم کا افسانہ ستی"میرے مطالعے میں رہا۔عرفان عالم فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے اسسٹینٹ پروفیسر ہیں ۔ ا س افسانے کا موضوع مرد غالب معاشرے میں عورت کا استحصال ہے۔ مانا کہ اب عورتیں ستی نہیں ہوتیں۔اسکے بدلے کچھ مردوں کے ظلم وستم۔ان کی عیاری۔مکاری ۔غداری اور منافقت کی وجہ سے تنگ آکر وہ آتم ہتیا کرتی ہیں۔زیر نظر افسانے کا مرکزی کردار وفا نام کی ایک ایسی دوشیزہ کا کردار ہے جو افسانے میں شروع سے آخر تک رنج والم ۔دکھ درد اور بے بسی کی مجسم صورت لے کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
افسانہ"ستی"کی قرات کے بعد قاری کے ذہن پہ چند ایسے تاثرات مرتسم ہوتے ہیں جواسے مضطرب کرتے ہیں ۔غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں اور بالخصوص آج کے سائنسی۔تکنیکی اور تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں اخلاقی وروحانی قدروں کی شکست وریخت پر کف افسوس ملنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پیار ومحبت کی بنیاد پہ جو شادیاں ہوتی ہیں وہ اکثر ناکامیاب رہتی ہیں ۔ یہاں اس ضمن میں ایک تلخ حقیقت کا بیان لازمی معلوم ہوتا ہے کہ جدید تہزیب کی یلغار میں اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں اور عوامی تفرح گاہوں میں آنکھ مارنے اور آنکھیں چار ہونے کے کئی واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ شادی سے پہلے ہی شادی کے بعد کے وہ تمام معاملات طے ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے ازدواجی رشتوں میں ناپائداری اور نوک جھونک کی نوبت آتی ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے وفا نام کی دوشیزہ کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیاہے کہ جو خواب سے حقیقت تک کا سفر طے کرنے کے بعد بالآخر ایک المناک صورت اختیار کرتی ہے۔ لیکن اسی کردار سے جڑی کچھ ایسی تلخ معاشرتی حقیقتیں بھی ہمارے ذہن ودل پہ دستک دیتی ہیں کہ جن سے ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں یعنی افسانہ نگار نے جہاں عصری معاشرے میں موبائل فون۔انٹرنیٹ اور ۔ٹیلی ویژن کے غلط استعمال سے فروغ پارہی نوجوان طبقے کی حیا سوز حرکتوں اور بزگوں کے فیصلوں کے بجائے اپنے فیصلوں کو ترجیح دینے کی طرف اشارہ کیا ہے تو وہیں دوسری جانب منافقانہ ذہنیت ۔ توہم پرستی نامنہاد مولویوں کی پردہ دری ۔میلی ٹینسی کے نام پہ معصوم لوگوں کا قتل اور بالخصوص عورت ذات پہ مردوں کے اجبارو استحصال زیر نظر افسانے میں بیانیہ اسلوب کےساتھ بیان کیا ہے۔ افسانے کی شروعات رات کی خاموشیوں میں وفا نام کی دوشیزہ کا درد زہ کا بڑھنا۔اسپتال میں اس کا آپریشن ہونا۔بیٹی پیدا ہونا۔اپنے منگیتر سلیم کو اس تمام واقعے کی اطلاع دینے کا اصرار اور پھر وفا کا نیند سے بیدار ہونے کے بعد رونا اور خواب کی تعبیر کے لیے مولوی صاحب کو دعوت دینا یہ تمام تلازمات قاری کے لیے تحیر وتجسس کا باعث بنتے ہیں۔ نیند کی حالت میں ہر کوئی خواب دیکھتا ہے خواب کی اچھی بری تعبیر اپنی جگہ لیکن ماہرین نفسیات کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ خواب آدمی کے دن بھر کے اعمال وافعال کی کیفیت کا ایک عکس ہوتے ہیں۔اس بات کا اعتراف افسانہ نگار نے بھی وفا کی ماں زعنہ سے ایک جگہ ان الفاظ میں کروایا ہے۔
"زعنہ نے وفا سے مخاطب ہوکر کہا۔جب دن بھر خالی فون
سے چپکی رہتی ہو تو رات بھر بھی فون فون ہی کرتی رہو
گی نا۔آپ کو شرم نہیں آتی۔لیکن دیکھئے رشید آپ کا باپ
شرمندہ ہوکر ایسے باہر چلا گیا جیسے اس نے کوئی بڑا گناہ
کیا ہو۔سارا گھر تم نے سرپر اٹھالیا ہے"
واقعی آج کل کے دور میں موبائل فون اور دوسرے ترسیلی ذرائع نے پورے معاشرے میں انتشارو اختلال سا پیداکردیا ہے ۔مانا کہ ان ذرائع کی وجہ سے آجکے آدمی کی زندگی بہت حدتک ایک نئی ڈگر پر آگئی ہے۔اسے بہت سی سہولیات میسر ہیں لیکن اس کے باوجود ان تمام سماجی۔تعلیمی ۔اخلاقی و روحانی قدروں کا جنازہ نکل چکا ہے ۔جن کی وجہ سے آدمی انسان بنتا ہے۔چناں چہ ان قدروں کے فقدان کے باعث آج کے معاشرے میں نامنہاد مولویوں ۔ڈھونگی باباوں ۔پیروں اورفقیروں کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔جو اپنے من کی واسنا اور شکم پروری کی خاطرکسی بھی حدتک گر سکتے ہیں۔افسانہ نگار کا مشاہدہ اور اسکی دور رس نگاہیں ہمیں لمحہ بھر کیلیے اس مسلے پہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں کہ جب وفا کی ماں زعنہ اپنے شوہر عبدالرشید سے یہ اصرار کرتی ہے کہ خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے مولوی صاحب کو گھر میں دعوت دی جائے۔زعنہ اور عبدالرشید کی آپسی گفتگو سے مولوی صاحب کا مشکوک کردار کچھ اس طرح سے پیش کیا گیا ہے۔
"زعنہ……..کوئی بات نہیں۔میرے پاس زیتون کی اسکول کی
فیس اور وفا کے کچھ پیسے بچے ہیں "
عبدالرشید……."نہیں اس مولوی کو گھر پر لانا ٹھیک نہیں"
زعنہ…….."کیوں……بچارہ پانچ وقت مسجدمیں رہتا ہے
تم کبھی مسجد میں گئے ہو؟"
عبدالرشید…….منہ مت کھلاو……تمہارا اپنا بھائی اس دن کیا کہہ
رہا تھا ۔…….میں کہتا تو جھوٹ کہتا"
زعنہ …"اس نے الزام تراشی میں سارے گاوں کا ٹھیکہ لے رکھا
ہے……یہ سب جھوٹی باتیں ہیں……اگر سچی ہوتیں توکیا ایسا
نور اسکے چہرے سے اترتا……تو اپنا رنگ بھی دیکھ اور اس کا
رنگ بھی……مجھے تو وہ فرشتے کی مانند نظرآتا ہے۔ جب وہ
وعظ پڑھتا ہے تو سارا گاوں رو پڑتا ہے۔……اسکی باتوں سے
پھول جھڑتے ہیں……..وہ سراپا گلزار ہے…….اور سن مجھے
تیری بک بک نہیں سننی۔مولوی صاحب کو ضروری خواب
بولنا پڑے گا۔کیونکہ میرا دل بیٹھ گیا ہے"
معلوم یہ ہوا کہ عورتوں کا من بڑا چنچل ہوتا ہے۔وہ ظاہری شکل وصورت پہ زیادہ یقین کرتی ہیں۔مولوی صاحب کا نورانی چہرہ ۔فرشتے کی مانند ان کا نظرآنا۔ان کے وعظ سے سارے گاوں کاروپڑنا اور ان کا سراپا گلزار ہونا محبوبیت اورمرعوبیت کی علامتیں ہیں۔لیکن ان کی داخلی دنیا تاریک معلوم ہوتی ہے ۔افسانہ نگار نے کچھ ایسی سماجی برائیوں کا پردہ فاش کیا ہے۔جن کا حال واحوال زیادہ تر ایک عام آدمی کی نظر سے دور ہی رہتا ہے۔آج بھی بیٹی کی پیدائش کو نحوست اور والدین کے لیے بارگراں خیال کیا جاتا ہے۔وفا خواب میں بیٹی کو جنم دیتی ہے۔ جس کی تعبیر مولوی صاحب اچھی بتاتے ہیں۔لیکن اصل میں افسانہ نگار ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہے کہ اب بیٹیوں کی پیدائش خواب وخیال ہوکر رہ گئی ہے۔۔اسی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جادو ٹونا ۔ تعویض گنڈے اور دوسری کئی طرح کی خباثتیں اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ جو حسد ۔بغض ۔عناد اور نفاق کا نتیجہ کہی جاسکتی ہیں۔افسانہ نگار نے اس مسلے پر بھی اپنے طنزورمز کے تیر چلائے ہیں۔مثلا" مزکورہ افسانے سے ماخوذ یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے۔
"خواب میں کچھ خبریں ہیں ۔مگر ایک خبر اچھی ہے۔۔"
زعنہ"وہ کیا؟"
مولوی صاحب"بیٹی کا پیدا ہونا۔یہ علامت ہے خوشیوں
کی…….باقی اب خدا سب ٹھیک کرے گا۔کیا کروں ویسے
تو مجھے فرصت ہی نہیں مگر میں آپ کے گھر کو اپنا گھر
سمجھتا ہوں اور یہ تمہاری بیٹی کا مسلہ ہے۔اس لیے مجھے
چند شب وروز وفا کے ساتھ گزارنے پڑیں گے۔تب جاکر خواب
کا اثر کم ہوگا………نکاح کے بارے میں پہلے ہی بتا دینا تاکہ
میں اپنے وقت کا خیال رکھوں۔دعاوں میں تم ہمیشہ یادرہتے
ہو۔سلیم ایک اچھا لڑکا ہے اور بیٹی کو زیادہ دیرگھر مت رکھو
دیکھو پھر یہ کیسے کیسے خواب دیکھتی ہے۔اچھا میں نکلتا
ہوں۔تعویض شادی سے پہلے ہی زرد ۔سفید اور سبز رنگ کے
کپڑے میں باندھ کر لگانا"
افسانہ"ستی"میں قاری کے ذہن پہ حیرت واستعجاب کی دھند اس وقت چھاجاتی ہے جب وفا اور سلیم کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے لیکن شادی کے دوسرے ہی دن وہ وفا کی سہیلی رخسانہ کے ساتھ فرار ہوجاتا ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے قاری کے لیے کئی سوال پیدا کر دیئے ہیں۔اس واقعے سے قاری کے ذہن پہ پہلا تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلیم کا کردار ایک منافق اور بے وفا شخص کا کردار ہے۔لیکن جب آگے بین السطور میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ کیمپ کے میجر صاحب کے ساتھ سلیم کی گہری دوستی تھی اور وہ خود اس کی شادی میں شریک ہوئے تھے ۔علاوہ ازیں یہ کہ ونپوہ میں دو خطر ناک میلی ٹینٹ مارے گئے کہ جن کے جسم اس قدر جل گئے تھے کہ ان کی شناخت نہیں ہوپارہی تھی تو یہاں قاری کا ذہن دوسرا تاثر یہ لیتا ہے کہ سلیم اور رخسانہ پیار ومحبت کے جزبے سے شرشار رات کی تاریکی میں کہیں فوج ۔پولیس یا پھر کچھ نقاب پوش بندوق برداروں کی گولی کا نشانہ بنے ہوں۔یہاں افسانہ نگار ہمیں ایک ایسے ماحول ومعاشرے میں لے جاتا ہے کہ جہاں ظلم وجبر۔منافقت وریاکاری اور دکھ درد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم ہے۔زیر نظر افسانے کی فضا اور ماحول اپنے لب ولہجے زبان وبیان اور مایوس کن واقعاتی تسلسل کے اعتبار سے کشمیری معلوم ہوتا ہے۔ افسانہ نگار نے فنی چابکدستی سے وفا جیسا جاندار نسوانی کردار جس المناک اور مغموم جزبات واحساسات کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ان سینکڑوں بلکہ ہزاروں کشمیری خواتین کی نمائندگی کرتا ہے جو دوہری مار کی شکار ہوئیں۔جن کے سہاگ اجاڑے گئے اور جو ابھی تک انتظار شریک حیات میں آنسوبہا رہی ہیں۔ افسانہ نگار نے ہماری توجہ اس جانب بھی مبزول کروانے کی بہتر کوشش کی ہے کہ کس طرح حالات کے جبر ۔کچھ لوگوں کی منافقت اور ریاکاری کے باعث چشم زدن میں خوشی کا ماحول غم واندوہ میں بدل جاتا ہے۔ایک طرف شب زفاف کی خوشی میں وفا حجلہ عروسی میں سلیم کا انتظار کرتی ہے اور دوسری طرف وفا کی سہیلی رخسانہ کے ساتھ سلیم کے فرار ہونے کی خبر ایک گہرے صدمے کا علامیہ معلوم ہوتی ہے۔
جہاں تک زیر بحث افسانے میں وفا کی سہیلی رخسانہ کا تعلق ہے۔وہ اپنے بدترین کردار سے یہ ثابت کردیتی ہے کہ بعض موقعوں پہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ویسے عورت کی ایک فطری کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود مرد کے جھانسے اور اسکے بہکاوے میں آہی جاتی ہے۔یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھلے ہی آج کے جمہوری نظام حکومت اور سائنسی وتکنیکی ترقی کے دور میں عورت کی آزادی ۔اسکے حقوق کی بحالی اور بہتر مقام ومرتبے کے لیے حکومتیں اور مختلف سماجی تنظیمیں نہایت فعال نظر آرہی ہیں یا پھر بھلے ہی عورت ترقی کے تمام زینے طے کرنے کے بعد ستاروں پہ کمندیں کیوں نہ ڈال لے لیکن کچھ جنس زدہ مردوں کے ہاتھوں میں اس کی حیثیت اس مچھلی سے زیادہ اور کچھ نہیں جسے مچھیرا پانی سے باہر نکال لیتا ہے اور مچھلی تڑپتے تڑپتے دم توڑ دیتی ہے۔رخسانہ کے باپ رحیم جو کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابھی والدین میں غیرت اور شرم وحیا کا مادہ باقی ہے۔
سلیم کا کردار اگرچہ بظاہر قابل لعنت وملامت اور نفرت آمیز معلوم ہوتا ہے۔لیکن حالات کے جبراور ایک خاص واقعے کے بیان میں وہ مجبور وبے بس بھی ہے۔ مزید برآں وہ اپنی تمام گھریلو ذمہ داریوں اور اپنے کاروبار کے لحاظ سے ایک سنجیدہ شخص بھی معلوم ہوتا ہے۔ سلیم کا تعارف افسانہ نگار نے ایک جگہ ان الفاظ میں کرایا ہے۔
"سلیم نے کچھ عرصہ پہلے دکانداری شروع کی تھی اور
چھاونی کی وجہ سے اس کی آمدنی میں کافی اضافہ
بھی ہواتھا۔مگر اسے کئی بار دھمکی بھی دی گئی تھی کہ
وہ دکان بند کر ے۔لیکن گھر کی تمام ذمہ داریاں اسی پر
تھیں ۔حالانکہ تھوڑی سی زمین بھی تھی۔سلیم کا باپ مامہ
کاک پیشے سے کاشتکار تھا۔ماں زیبہ گھرکا کام کرتی تھی۔
ایک مست بھائی تھا جس نے پژھائی چھوڑ دی تھی اور
ایک بہن جو ابھی بھی دسویں کو دسویں بار پار کرنے
کی کوشیشوں میں منہمک تھی۔اگرچہ سلیم کو پڑھنے کی
ذبردست چاہت تھی لیکن اسے اپنی تعلیم گھریلو ذمہ داریوں
کی وجہ سے چھوڑنی پڑی"
جہاں تک اس افسانے میں سلیم کے بھائی جاوید کے کردار کا تعلق ہے۔وہ اپنی رفتارو گفتار اور اعمال بد کے اعتبار سے انتہائی بے رحم ۔منافق اور بدکردار معلوم ہوتا ہے۔جو وفا کو اپنی بہن سمجھنے اور کہنے کے باوجود اس کی عزت وعصمت لوٹتا ہے اور بعد میں اسکے ساتھ شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتاہےبلکہ وہی وفا پہ پیٹرول چھڑک کر اسے زندہ جلا دیتا ہے اور اسکے اپنے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں۔ افسانے کے اس اختتامی حصے میں افسانہ نگار یہ خاموش پیغام دے جاتا ہے کہ عورت اس مابعد جدید دور میں بھی کہ جب تعلیم عام ہے اور پوری دنیا ایک عالمی گاوں کی صورت اختیار کرگئی ہے۔لیکن اسکے باوجود پڑھے لکھے بے عمل سماج میں عورت کا استحصال جاری ہے۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کچھ مردوں کی عیارانہ ومنافقانہ ذہنیت نے عورت کو آج ایک ایسے مقام پہ لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ Market value کی حیثیت اختیار کرگئی ہے تو شائد بے جا نہ ہوگا۔افسانہ"ستی"پڑھنے سے زیادہ سوچنے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ ایک ایسی بے بس ومجبور عورت کی کتھا ہے جو اپنے شوہر سے محروم ہوجاتی ہے۔سرپنچ ۔نمردار اور گاوں کے معزز لوگو ں کے فیصلے پر اسے بادل ناخواستہ واپس اپنے سسرال جانا پڑتا ہے ۔جہاں وہ ساس اور نند کے طعنے سنتی ہے۔ مقدس رشتوں کی پامالی کا زہر پیتی ہے۔ اپنے دیور کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے ۔ایس ۔آر ۔او کے لالچ میں اسکے سسرال والے اسے زدندہ جلا دینےکا پروگرام بناتے ہیں ۔ان تمام حالات کے جبر میں وہ اپنے آپ کو ایک زندہ لاش کی مانند سمجھتی ہے۔بقول افسانہ نگار۔
"وفا اپنی قسمت پہ زار زار رونےلگی اور بہرصورت تیار
ہوگئی ۔اگلی صبح جاوید گاڑی لے کر آگیا ۔وفا نے جونہی
اس پر قدم رکھا اسے ایسا لگا جیسے یہ مرچکی ہے۔اب
اب زندہ لاش تابوت میں ہے اوروہ زندگی کے آخری سفر
پر۔ماں باپ۔بھائی بہن اوروفا تمام کی آنکھوں سے آنسو
بہہ رہے تھے۔اسی دوران پانچ منٹ میں سسرال پہنچ گئی
سلیم کی ماں اور بہن نے اسے گلے لگایا۔سب رورہے تھے۔
چند دن تک وہ اپنے کمرے میں اکیلے اکیلے بس پریشان
سوچ رہی تھی۔اسکی نند اور ساس اس کو دلاسہ دیتی
رہیں۔اپنی ماں بھی اس سے روز فون کرکے حال چال
پوچھتی لیکن ہفتہ کیا گزر گیا تمام لوگوں کے تیور بدل
گئے"
افسانہ"ستی"کی طوالت میں مجھے ادبی حلاوت محسوس ہورہی ہے۔افسانہ نگار نے کسی حدتک فنی لوازمات کا خیال رکھا ہے۔پلاٹ سازی۔کردار نگاری ۔ماحول وفضا۔مکالمہ نگاری۔ وحدت تاثر اور زبان وبیان یہ تمام اجزائے ترکیبی جب فنی نفاست کے ساتھ اپنا اپنا کام ومقام حاصل کرتے ہیں تو یقینا" ایک جاندار کہانی وجود میں آتی ہے۔اس افسانے میں'کرواچوتھ' برتا دیوی' اور'ستی'جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔جو ہندوستانی تہزیب کا استعارہ کہے جاسکتے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں کمپوزنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں۔بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ افسانہ"ستی" میں پیش کیے گئے کردار اپنے منفی رویے کے لحاظ سے جیتے جاگتے اور ہمارے آپ کے ماحول ومعاشرے سے تعلق رکھتے معلوم ہوتے ہیں۔موضوع اگرچہ نیا نہیں ہے لیکن افسانہ نگار نے اس موضوع میں ایک نئی روح پھونکنے کی بہتر کوشش کی ہے۔مزید برآں افسانہ نگار نے اپنے معاشرے میں پھیلی سماجی برائیوں کو بہت قریب سے دیکھنے۔سمجھنے کے بعد انھیں کہانی بند کیا ہے۔
“