فارلینڈ میں جب بھی اسے پبلک بس میں سفر کرنے کا موقع ملا تو اس کے ساتھ ہی ایک یاد کے روح افزا جھونکے نے اسے سرشار کیا۔
تب وہ اپنے اسلامی ملک میں ایک کالج میں پڑھتی تھی۔ اسلامی ملک جہاں عورتوں اور لڑکیوں کو مرد ذات کی بے حیا پیاسی انگلیوں سے بچانے کے لیے پبلک بسوں میں زنانہ مردانہ خانے بنا دیے گئے تھے۔ زنانہ خانہ مردوں کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہوتا تھا جس کی وجہ سے سکولوں کالجوں میں چھٹی کے وقت لڑکیاں اس خانہ میں اس بری طرح ٹھنسی ہوتیں جیسے ڈربوں میں بند مرغیاں۔ زنانہ اور مردانہ حصے کی پارٹیشن آہنی جالی سے کی گئی تھی۔ بیچ میں ایک دروازہ تھا جو کھلا رہتا تھا اور بس کا کنڈکٹر اسی دروازے سے بس کے دونوں حصوں میں آ جا سکتا تھا۔
اس روز غضب کی گرمی تھی اور گرلز کالج کے قریبی سٹاپ پر دیر سے کوئی بس نہیں آئی تھی۔ لڑکیاں گرمی کی شدت اور پیاس سے نڈھال تھیں۔ آخرِکار ایک بس آ کر اس سٹاپ پر رکی۔ بس تقریبا" خالی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بس کا زنانہ حصہ کھچا کھچ بھر گیا جبکہ بہت سی لڑکیاں اب بھی بس میں گھسنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ اسی دھکم پیل میں اچانک یوں ہوا کہ ایک لڑکی سیلاب کے منہ زور ریلے کی طرح اپنا راستہ بناتی ہوئی مردانہ حصے میں داخل ہو گئی۔ ایک لمحے کو کئی حیران نگاہوں نے اسے دیکھا اور کچھ نے گھورا بھی، لیکن ضرورت کا جبر اتنا زیادہ تھا کہ ذرا سے توقف کے بعد کئی لڑکیاں اس کی دیکھا دیکھی مردانہ حصے میں داخل ہو کر خالی سیٹوں پر جا بیٹھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بس سٹاپ پر موجود تمام لڑکیوں کو بس میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جن لڑکیوں کے بیچ میں سے راستہ بنا کر وہ دلیر لڑکی سب سے پہلے مردانہ حصے میں داخل ہوئی تھی، ان میں وہ بھی شامل تھی۔ یہ کام وہ بھی کر سکتی تھی لیکن اس وقت اس میں ایسی ہمت نہیں تھی۔ اس احساس کے ساتھ ہی اسے خیال آتا کہ نئی راہ پر پہلا قدم اٹھانے والے لوگ زیادہ نہیں ہوتے، لیکن یہ بھی نہیں کہ بالکل بھی نہ ہوں۔ پھر یہ کہ چراغ سے چراغ بھی تو جلتا ہے۔ اس ایک واقعہ نے خود اس کے اندر اتنی جرات پیدا کی تھی کہ اپنی آئیندہ زندگی میں کئی موقعوں پر اس نے پہلا قدم اٹھا کر اپنے لیے اور دوسروں کے لیے راستہ بنایا تھا۔