میں اپنے آپ کو خاکہ نگار نہیں سمجھتا ، البتہ شخصیات میرا موضوع گزشتہ پینتیس برس سے ہیں۔ شخصیات پر لکھنامیرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، انہیں خراج عقیدت پیش کرکے میری روح کو تسکین ہوتی ہے، یہی میرا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے۔ یہ مضامین مختلف رسائل اور اخبارات میں چھپتے رہے، ۲۰۰۹ء میں چندخاکوں اور سوانحی مضامین پر مشتمل کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘ کے نام سے لاہور سے ’الفیصل‘ نے شائع کی۔ فرخندہ لودھی کے بارے میں میری یہ تحریر فرخندہ لودھی کا خاکہ نہیں، نہ ہی میرا یہ مقام ہے کہ میں فرخندہ لودھی جیسی قلم کار کا خاکہ لکھوں جس کی علمی و ادبی اور پیشہ ورانہ خدمات کا دائرہ انتہا ئی وسیع ہے جس کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اسے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا ۔یہ تحریر تو محض خراجِ تحسین ہے اپنی ہم پیشہ کے لیے
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاں
مرگِ مجنوں پہ کڑھو ، ماتمِ فرہاد کرو
اگر کسی کو فرخندہ لودھی کا خاکہ پڑھنا ہی ہے تو وہ فرخندہ کے شوہر پروفیسر صابر لودھی کے لکھے ہوئے خاکے بہ عنوان ’فرخندہ لودھی اور میں(صباحکایتِ زلف تودرمیاں انداخت) ، یہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے مجلہ ’’راوی ۲۰۱۰ء‘‘ میں شائع ہوا، یہی خاکہ بقول صابر لودھی مکمل حالت میں لاہور کے رسالے ’الحمرا‘ کی جنوری ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں شامل ہے ۔ مجلہ ’راوی ‘نے اس خاکے کو کاٹ چھانٹ دیا تھا، دوسرا خاکہ ’’فرخندہ لودھی۔میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘‘ پروفیسر صاحب کی خاکوں کی کتاب ’’بھلا یا نہ جائے گا‘‘میں موجود ہے۔ یہ خاکے فرخندہ کی نجی اور ادبی زندگی کی مکمل اور خو ب صو رت تصویر پیش کرتے ہیں۔
صابرلودھی اردو کے پروفیسر ہیں،ایچی سن کالج لاہور سے ۱۹۵۸ء میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا، مختلف کالجوں میں خدمات انجام دیں، پروفیسر اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۹۴ء میں ریٹائر ہوئے۔ کیا خوب خاکے لکھتے ہیں بلکہ فرمائشی خاکہ نگار ہیں۔ان کی خاکوں کی کتاب کے فلیپ پر فرخندہ لودھی کی اس رائے سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔فرخندہ کے خیال میں ’’دوستوں کے اصرار پر ان کا خاکہ لکھ دیتے ہیں، خاکہ اڑانے سے احتراز کرتے ہیں ،قلم کو ایسا کنٹرول میں رکھ کر چلاتے ہیں کہ خاکہ لکھوانے والا باغ باغ ہو جاتاہے اور اپنے حلقہ احباب میں دکھاتا، سناتا پھر تا ہے۔ اب ان کی خاکہ نگاری کی دھوم کچھ اس انداز سے مچی ہے کہ دوردور سے خاکہ لکھوانے کی فرمائشیں اور سفارشیں آنے لگیں ہیں‘‘۔فرخندہ لودھی کے خاکوں میں انہوں نے جس سچائی اور بے باکی سے کام لیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کے ذریعہ فرخندہ لودھی کی شخصیت کے تمام تر پہلوایک ایک کرکے اس طرح سامنے آجاتے ہیں کہ جیسے فرخندہ لودھی کی بارات اپنے روائیتی انداز سے چھم چھم کرتی چلی آ رہی ہو۔
پاکستا ن لائبریرین شپ اور اردو و پنجابی ادب کی معروف و محترم شخصیت ۵ مئی ۲۰۱۰ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئی۔ میَں نے اسی ماہ کی ۱۱ تاریخ کو سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز میں ایسو سی ایٹ پروفسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔خیال یہی تھا کہ اپنی اولین فرصت میں فرخندہ لودھی کا خاکہ لکھوں گا لیکن شعبے میں پڑھانے کی مصروفیات، ہاسٹل لائف وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر میں، میرے لیے بالکل ہی انوکھا تجربہ تھا،شہر نیا، لوگوں کے درمیان اجنبی،الغرض بے شمار قسم کی وجوہات آڑے آتی گئیں۔ انہی دنوں ایک سینئر لائبریرین، جو عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں، کتاب دوست ہیں، ’عبد الوہاب خان سلیم‘ کا خاکہ لکھا جو ’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل میں شائع ہوا ،دوسرا خا کہ اپنے عزیز دوست جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو کے چیر مین ڈاکٹر طاہر تونسوی کا لکھا۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو کے چیئ مین ہیں۔وقت تیزی سے رواں دواں تھا، اب میں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اب کوئی اور کام نہیں کروں گا ، چناں چہ میں نے اپنی سوچ کے دھارے کو اس جانب مرکوز کردیا،جامعہ سرگودھا کی لائبریری سے چند کتابیں فرخندہ لودھی کی تحریر کردہ ملیں، لیکن وہ تو افسانے اور کہانیاں تھیں۔ عابد خورشید سے ذکر کیا ، انہوں نے فرخندہ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
ایک دن اپنے ایک دوست ڈاکٹر خالد ندیم جو شعبہ اردو ، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے قریبی دوست اور ساتھی، انھی کے توسط سے یہ میرے بھی دوست ہوئے، میں نے انہیں فون کیا کہ میں اپنی ایک ہم پیشہ خاتون (فرخندہ لودھی )جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ، وہ اردو و پنچابی ادب کی معروف لکھاری بھی ہیں پر لکھنا چاہتاہوں، ان پر مواد کی تلاش میں ہوں، کیا آپ اس سلسلے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر خالد ندیم نے لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے ، کچھ کچھ ذہن میں آرہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا ہے، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔ میں نے کہا ،آپ کا انتظار کررہا ہوں۔ فروری کا مہینہ سردی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرے میں آموجود ہوئے۔ کہنے لگے لیجیے آپ کی مشکل انشاء اﷲ آسان ہوجائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا ایک ضخیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا،یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ،اس مجلہ میں گوشہ میرتقی میرؔ ، گوشہ ن۔م۔راشدؔ ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ ’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔اس لمحے میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و
ادبی خدمات کا کھلا اعتراف ہے۔
اس سے قبل ۲۰۰۶ء میں حکومت کی طرف سے فرخندہ لودھی کو’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ‘‘بھی دیاجا چکا تھا۔میَں نے فرخندہ کے گوشے کو اُسی وقت پڑھنا شروع کردیا، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے، ڈاکٹر صاحب آپ اِسے اپنے پاس رکھیں ، استفادہ کرلیں تو واپس کردیجیے گا۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیاکہ انہوں نے میری مشکل آسان کردی، اب میں یقیناًفرخندہ لودھی پر آسانی سے کچھ لکھ سکوں گا۔’گوشہ فرخندہ لودھی‘ میں ایک خاکہ فرخندہ لودھی کے شوہر پروفیسر صابر لودھی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ہے ’’فرخندہ لودھی اور میں (صبا حکایتِ زلف تو درمیاں انداخت)‘‘، ایک تحریر ڈاکٹر انور سدید کی ہے انہوں نے ’’فرخندہ لودھی کی ذاتی ڈائری سے‘‘ کے عنوان سے فرخندہ لودھی کی ڈائری جو ۱۹۸۳ء کے مختلف ایام میں لکھی گئی سے اقتباسات نقل کیے ، بقول انور سدید ’یہ ڈائری اشاعت کی غرض سے نہیں لکھی گئی لیکن یہ ایک ایسی خود کلامی ہے جس میں مصنفہ کا سماجی تاثر ، بے لوث اور بے تکلف ذاتی رائے سماگئی ہے اور ہمیں ان کے داخلی جزیروں تک رسائی کا موقعہ فراہم کرتی ہے‘‘۔ ایک اور اچھا مضمون جی سی یونیورسٹی کے موجودہ مہتمم اعلیٰ عبد الوحید نے تحریرکیا ہے جس کا عنوان ہے ’محترمہ فرخندہ لودھی: ؤقر لائبریرین اور ادبی شخصیت‘ ، سعشہ خان سابق مدیر مجلہ راوی کے مضمون کا عنوان ہے ’’فرخندہ لودھی: ماں۔۔ بس یادیں ہیں باقی‘‘۔ ان مضامین کے علاوہ خواتین کی افسانہ نگاری کے عنوان سے منعقد ہونے والے مذاکرہ کی روداد جس میں فرخندہ لودھی بھی شریکِ گفتگو تھیں شامل ہے۔فرخندہ لودھی کا معروف افسانہ ’’اور۔۔۔جب بجا کٹورا‘‘ گوشے کا حصہ ہے۔ہم اپنی زندگی میں جو بھی منصوبے بنا لیں لیکن ہوتا وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندے کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ میں نے فرخندہ لودھی پر لکھنا شروع کیا لیکن اپنے نجی معاملات کے باعث مجھے جامعہ سرگودھا کو الود عیٰ کہنا پڑا ، ۲۸فروری ۲۰۱۱ء جامعہ سرگودھا میں میرا آخری دن تھا ، یکم مارچ کو میں کراچی واپس پہنچ گیا، اب مجھے سعودی عرب جانا تھا،ویزا آچکا تھا، چنانچہ تیاریاں شروع کردیں۔ مالک تقدیر نے قسمت میں ابھی کچھ اورامتحان لکھا تھا، اپریل کے پہلے ہفتے میں اچانک میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کرلی، نوبت عام ڈاکٹر سے کاررڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کوانجو گرافی(Angiography) اور فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty)بھی ہوئی اوردل کی ایک شریان Arteryمیں ا سٹینٹ((stentڈالا گیا، اس طرح میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔
سعودی عرب کے لیے میری سیٹ ۲۹ مئی کی بکُ ہوچکی تھی، میَں تیزی سے بہتری محسوس کر رہا تھا، ڈاکٹر نے مجھے سفر کی اجازت کے ساتھ عمرہ کرنے کی اجازت بھی دے د ی تھی۔ انھی دنوں میَں پروفیسر صابر لودھی کے خاکوں کی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا جو میں نے لاہور کے ’کتاب سرائے‘ سے خریدی تھی، کتاب کا تعارف پڑھا اختتام پر لودھی صاحب کے گھر کا پتا اور فون نمبر درج تھا، میں نے انھیں فون کیا، انھوں نے ہی اٹھا یا، اپنا تعارف کرایا، کہنے لگے میں آپ سے بخوبی واقف ہوں، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی میں نے آپ کی کتابوں کو جو فرخندہ کی کتابوں کی الماری میں رکھی تھیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ وہیں رکھا ہے۔ میَں نے بتایا کہ میَں خاکے بھی لکھ لیتا ہوں، فرخندہ کا خاکہ لکھ رہا ہوں ، کتاب میں آپ کانمبر دیکھا تو سوچا کہ آپ سے بات کروں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں گی۔ خوش ہوئے، میرا ایڈریس نوٹ کیا ،کہا کہ فرخندہ پر لکھا ہوا میراخاکہ جو حال ہی میں چھپا ہے آپ کو بھیج دونگا ، اس سے کافی مدد مل جائے گی۔ ایسا ہی ہو ا، چند روز میں مجھے وہ خاکہ مل گیامیری مشکل اور آسان ہوگئی۔
اب میں نے سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہی فرخندہ کے خاکے کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا، جو کام کیا تھا وہ ساتھ رکھ لیا۔عمرے کی ادائی گی اور مدینہ منورہ میں حاضری کے بعد میَں اس جانب متوجہ ہوا،اﷲ نے مقدس سر زمین پر اس کام کو مکمل کرانا تھا، پہلے کس طرح ہو سکتا تھا۔فرخندہ لودھی نے ۱۹۵۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کیا تھا، یہ وہی ڈپلومہ تھا جس کا آغاز۱۹۱۵ء میں آسا ڈان ڈکنسن نے کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد یہ کورس دوبارہ شروع ہوا، اس ڈپلومے کو حاصل کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ اردو کے نامور محقق ڈاکٹر سلیم اختر، سینئر لائبریرین عبد الوہاب خان سلیم بھی شامل تھے۔ملازمت کا آغاز ۱۹۵۸ء میں کوئنن میری کالج لاہور سے کیا، اس اعتبار سے فرخندہ مجھ سے سینئر تھی، میں نے ۱۹۷۲ء میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا ۔ میرا اولین رابطہ فرخندہ سے اس وقت ہوا جب فرخندہ اپنے کالج میں لائبریری سائنس بہ طور اختیاری مضمون شروع کرانے میں کامیاب ہوگئی۔کراچی کے کالجوں میں یہ مضمون ۱۹۷۶ء میں شروع ہوچکا تھا۔ میری نصابی کتاب’’ابتدائی لائبریری سائنس‘‘ انٹر میڈیٹ سال اول کے لیے ۱۹۸۰ء میں اور سال دوم کے لیے ’’مبادیاتِ لائبریری سائنس‘‘ ۱۹۸۵ء میں آچکی تھیں۔ پنجاب میں مضمون تو شروع ہوگیا تھا لیکن کوئی کتاب نصاب کے مطابق نہیں تھی۔ فرخندہ کی بڑائی تھی کہ ا نھوں نے نصاب میں میری کتب کو شامل کرایا۔ انھیں کتب کی حصولیا بی کے لیے فرخندہ نے مجھ سے رابطہ کیا۔بعدمیں یہ تعلق پیشہ ورانہ مسائل
کے حوالے سے قائم رہا۔۱۹۸۵ء کی بات ہے فرخندہ لودھی نے اپنے ایک خط میں مجھے لکھا :
صمدانی صاحب !
السلام علیکم !
’’آپ نے جس جذبے سے اس میدان میں کام کی پہل کی ہے میں اس سے پورا پورافائدہ اٹھارہی ہوں ۔ سوچیے اگر آپ کی کتاب نہ ہو تی تو طالبات کیا پڑھتیں۔ اس وقت میری کلاس میں ۱۱۷ طالبات ہیں۔ کلاس شروع ہوئی تو پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ابتدائی اور مبادیات لائبریری سائنس کراچی میں بھی دست یاب نہیں۔ بڑی پریشانی ہوئی کریکلم ونگ لاہور کے رسرچ آفیسر (لائبریری سائنس) چوہدری نذیر احمد نے اس سلسلے میں بے حد مدد کی اور کہیں سے آپ کی کتاب حاصل کرکے فوٹوں کاپیاں تیارکر کے طالبات کو دیں۔ نیا مضمون
ہو نے کی وجہ سے وہ بے حد پریشان تھیں‘‘۔
فرخندہ لودھی
اس وقت فرخندہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین وحدت کالونی ، لاہور میں تھیں۔اسی حوالے سے جی سی یونیورسٹی کے چیف لائبریرین عبد الوحید نے اپنے مضمون ’’’’محترمہ فرخندہ لودھی: مؤقر لائبریرین اور ادبی شخصیت‘‘ میں لکھا’’ ۱۹۹۰ء میں وہ انٹر کی سطح پر لائبریری سائنس کا مضمون متعارف کروانے میں کامیاب ہوگئیں اور اپنے کالج (گورنمنٹ کالج برائے خواتین وحدت کالونی لاہور ) پنجاب میں پہلی بار لائبریری سائنس کے مضمون کا اجراء کیا۔ بعد ازاں ۱۹۹۳ء میں جب وہ اپنی پوسٹ اور اسی تنخواہ پر گورنمنٹ کالج لاہور میں آئیں تو یہاں بھی یہ مضمون پڑھایا جانے لگا‘‘۔ فرخندہ لودھی کے اس عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مضمون سے انسیت ، دلچسپی اور محبت رکھتی تھیں اس کی تر قی اور اس کے وقار کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہیں۔
فرخندہ لودھی سے میرا ایک تعلق یہ بھی رہا کہ وہ بھی کالج لائبریرین تھی اور میری سرکا ری ملازمت جو ۳۵ برس پر محیط ہے مختلف کالجوں میں رہی ۔ وہ مستند لکھاری اورمیں قلم کاروں کی دنیا میں کچھ کوشش کر لیتا ہوں۔ اس حوالے سے ہمار ے پیشہ ورانہ دکھ درد ایک ہی تھے ۔ پروموشن، سروس اسٹرکچر، پرنسپل صاحبان کا نا مناسب سلوک جسیے مسائل ہمارے پیشہ ورانہ مسائل میں سر فہر ست تھے جن سے لڑتے لڑتے بے شمار ساتھی ریٹائر ہوگئے کچھ فرخندہ کی طرح اﷲ کو پیارے ہوئے۔ فرخندہ صرف اسی محا ذ پربرسر پیکار نہیں رہی بلکہ اس کی زندگی میں کئی محاذ تھے جن پر وہ چومکھی لڑرہی تھی۔ اس کی نجی زندگی بھی ایک محاذ تھی، وہ پنجابی اور اردو کی لکھا ری تھی وہاں بھی اُسے اپنے آپ کو منوانے کی جنگ لڑنا پڑ رہی تھی۔ اس نے ا دیبوں کے کسی گروہ یا گروپ سے اپنے آپ کو منسلک نہیں کیا تھاپھر بھی اس پر مخصوص ادیبوں سے وابستگی کا لیبل لگتا رہا،ہر محاظ پر ہمت اور بہادری کا مقابلہ کیا، کالج کی سطح پر اپنے سبجیکٹ کو متعارف کرانے کا بیٹر ا اٹھا یا تو اسے پائے تکمیل تک پہنچا کر دم لیا،لائبریرینز کے پروموشن کی تحریک میں شامل ہوئی تو اسے مکمل کرکے دم لیا، کالج لائبریریز کے سروس اسٹرکچر کی جنگ اس خو بصورتی سے لڑی کہ وزارت تعلیم کوگھٹنے ٹیکنے ہی پڑے،ادیبوں کو مجبور کردیا کہ وہ ایک ایسی لکھا ری ہے کہ جس کی تحریرمیں جان ہے، وہ با مقصد لکھتی ہے ،اپنی پذیرائی کے لیے ہر گز نہیں لکھتی بل کہ اپنی تحریر سے پڑھنے والوں کو ایک خاص پیغام دیتی ہے، وہ ادیبوں میں گرو ہ بندی کی بھی قائل نہیں ، اس کا
کہنا ہے کہ ادیب صرف اور صرف ادیب ہوتا ہے۔اس نے احمد ندیم قاسمی کو بھی وہی عزت و احترام دیا جو ڈاکٹر وزیر آغا کو دیا۔
فرخندہ لودھی کا تعلق مشرقی پنجاب کے ککے زئی خاندان سے تھاجہاں یہ ہوشیار پور کے محلہ ’وکیلاں ‘ میں رہا کرتے تھے۔ فرخندہ اپنے آبائی شہر میں ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء کو پیدا ہوئی، تقسیم ہند کے بعد اس خاندان نے پاکستان ہجر ت کی اور پنجاب کے شہرمنٹگمری ( ساہی وال) کو اپنا مسکن بنایا، ان کے والد اور تین بڑے بھائی محکمہ پولیس میں ملازم تھے ، تین بہنوں اور تین بھائیوں میں فرخندہ کا آخری نمبر تھا۔فرخندہ نے پولیس والوں کے ماحول میں آنکھ کھولی، پلی بڑھی لیکن اس نے اپنے آپ کو ان خصوصیات سے محفوظ رکھا جو عام طور پر پولیس والوں میں پائی جاتی ہیں۔وہ تعلیم حاصل کرکے اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا چاہتی تھی، وہ تو کتاب سے محبت کا سچا جذبہ لیے پیدا ہوئی تھی، وہ قلم کی طاقت پر ایمان رکھتی تھی۔اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس نے عملی جدوجہد کی، تعلیم حاصل کی، ملازمت کی، قلم اٹھایا،پوری زندگی کتابوں کے درمیان رہی اورکامیاب بھی ہوئی۔ فرخندہ کا کہنا تھا کہ ’’مجھے تعلیم حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا جنون ہوگیا تاکہ خاندانی دباؤسے نجات مل سکے‘‘۔ فرخندہ نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین ، ساہی وال سے گریجویشن کیا، ۱۹۵۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کیا، ۱۹۶۲ء میں لائبریری سائنس ہی میں ایم اے کیا، ۱۹۷۸ء میں اردو میں ایم اے میں بھی کیا۔وہ چاہتی تو بہت آسانی سے اردو کی لیکچر ر بن جاتی، اس میں صلاحیت بھی تھی، ڈگری بھی اور لکھاری ہونے کے ناتے ادبی حلقوں میں اس کا نام تھا لیکن اُسے تو کتابوں سے عشق تھا ، کتابیں اس کی دوست تھیں ، ساتھی تھیں وہ کتابوں کے درمیان رہنا چاہتی تھی اور رہی، اس نے لائبریرین ہونے کو ترجیح دی ، کبھی
میَں نے کہا تھا
حصول علم ہے ہر ایک کام سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
فرخندہ کی شادی پروفیسر صابر لودھی سے ۱۵ اگست ۱۹۶۱ء کو ہوئی ، بقول صابر لودھی ’’انھوں نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی وہاں صباحت کا راج تھا ۔ ملاحت کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی تھیں‘‘۔ پختون خواہ کی سرزمین جہاں کے لوگ اپنے ظاہری پن میں سرخ سفید ، صحت مند اور خوبرو شخص کو ’سانولی سلونی ، اداس ، سیاہ ، متجسس آنکھیں‘ کیسے بھا گئیں۔ صابر لودھی کو فرخندہ کی متجسس آنکھیں ایسی اچھی لگیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انھیں اپنا لیا ۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی کو فرخندہ کے روپ میں وہ ملاحت مل گئی جس کو دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں۔ ایک ادیب لائبریرین اور ایک ادیب پروفیسر کا ملاپ یقیناًحسین ملاپ سے کم نہیں، اگر گاڑی کے دونوں پہیوں سے ادب کی کرنیں پھوٹتیں ہوں ، ترسیل علم دوطرفہ ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہی ہے۔ دونوں کی زندگی کا سفر ادب کی ترویج و ترسیل سے عبارت رہا۔ فرخندہ ترسیل علم کے ساتھ ساتھ ادب کی ترویج میں بھی کردار ادا کرتی رہی اور صابر صاحب بھی اسی منزل کے شہ سوار رہے ۔ یہ دوسری بات بقول صابر لودھی ۔’’اصل میں فرخندہ روایتی ہے‘ یونانی مگکر زینو کی شاگرد اور صابر لودھی یونانی فلسفی ایپی غورس کا پیرو ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی سوچ ہے، اپنے اپنے دائرے ہیں، تاہم فرخندہ پرسکون زندگی گزار رہی ہے، اضطراب ‘محرومی‘شکست کے باوجود پرسکون….اس اطمینان میں اُس کے اپنے فلسفے کا دخل ہے ۔میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ‘ساتھ ساتھ چلو‘ دُور دُور رہو‘‘ سو دونوں دُور دُور رہ کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ‘‘ ۔ ایک اور جگہ پروفیسر صابر لودھی نے لکھا’’جب کوئی المیہ ،ماضی کا کوئی دکھ، محرومی کا کوئی احساس ، نارسائی کا کوئی لمحہ اُسے بے کل کردیتا تو وہ کتھارسس کے لیے لکھنے بیٹھ جاتی اور جب کوئی افسانہ یا ناول کا ایک ٹکڑا مکمل ہوجاتا تو اطمینان کا سانس لیتی، تھک کر لیٹ جاتی یا کسی معصوم بچے سے باتیں کرنے لگتی۔ مجھ سے وہ اجنبی رہتی اور یہ اجنبیت زندگی بھر ہمارے درمیان قائم رہی۔ دونوں ایک ساتھ، ایک گھر میں ….اپنے اپنے خیالات ایک دوسرے سے شئر کرتے ہوئے(وہ کم ،میں زیادہ)ایک دوسرے سے خوف زدہ یہی ہماری کامیاب زندگی اور پچاس سالہ رفاقت کا راز تھا‘‘۔ یہ تھی فرخندہ لودھی کی ازداوجی زندگی اس کے اپنے مجازی خدا کے الفاظ میں ۔بہ قول شاعر
ساتھ رہ کے بھی دورہی رہے ہم تم
دھوپ چھاؤں کی دوستی عجب گزری
فرخندہ لودھی کی پیشہ ورانہ خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اُس کے ہم پیشہ اُسے عزت و احتر ام سے دیکھا کرتے تھے۔ اردواور پنجابی ادب کے دانش ور بھی اس کا اتنا ہی احترام کیا کرتے اور ’’باجی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ لائبریرین شپ کے پیشے میں بھی فرخندہ لودھی کا بہت ادب و احترام تھا،فرخندہ کی پیشہ ورانہ خدمات کے معترف ہی نہیں بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فرخندہ نے ۱۹۵۸ء میں کوئین میری کالج لاہور سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بقول عبدالوحید ’’اس زمانے میں سانولا رنگ، د ل کش قامت، دل میں اتر جانے والی اداس آنکھیں اور غیر معمولی لمبے گھنے بال ان کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ زمانے کی گرد نے انھیں دھندلا دیا ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں ان کے سادہ لباس کی تقلید کی جاتی تھی۔ ساڑھی، پورے بازؤں کا بلاؤزر اور بند اونچے گلے کی قمیض کا پہنا و ا،انھوں نے کالج میں نہ صرف پسند یدہ
بلکہ عام کیا تھا‘‘۔ لائبریرین کا عہدہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہت ہی منفرد ہوا کرتاہے، کام سب سے زیادہ ،تنخواہ سب سے کم، تعلیمی استطاعت اساتذہ کے مساوی بسااوقات ان سے بھی زیادہ لیکن عزت و احترام میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک عام سی بات تھی۔ فرخندہ نے اس ماحول اور رویے کا مقابلہ کرنے اوراس میں بہتری کی عملی جدوجہد کا بیڑااٹھایا۔ وہ ایک حساس طبیعت کی مالک تھی، اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کھڑی ہوئی تومنزل کو پا کر ہی دم لیا۔یہ وہ دور تھا جب فرخندہ کوئین میری کالج میں ملازمت کیا کرتی تھیں۔ بقول عبد الوحید ’’ بطور لائبریرین کوئین میری کالج کا ملازمتی دور انہیں کسی ترقی کی منزل تک تو نہ پہنچا سکاکیوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب گریجویٹ لائبریرین کو بہ مشکل چودھواں اسکیل کے مساوی تنخواہ ملتی تھی۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر لائبریرین کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ اور تنخواہ سب سے کم تھی۔پیشہ ورانہ ایسو سی ایشن کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی‘‘۔اسی زمانہ میں فرخندہ لودھی نے پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کے تحت لائبریریز کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بیڑا اٹھا یا، بعد ازآں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے پلیٹ فا رم سے بھی جدوجہد کی اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر مقصد کے حصول میں کامیاب و کامران ہوئیں۔لائبریری انجمنوں سے فرخندہ کی وابستگی کی تاریخ بہت طویل ہے۔اس طویل جدوجہد میں فرخندہ اپنے ساتھیوں کے کٹھن سے کٹھن مرحلہ پر ہمیشہ اگلی صف میں نظر آئیں۔ انتظامیہ کے افسران فرخندہ کی ادبی حیثیت سے بھی بخوبی واقف تھے ، اس کا ادبی قد کاٹھ بھی افسران پر بھاری پڑا اور انہوں نے مسائل کو حل کرنے
پر سنجیدگی سے توجہ دی۔
فرخندہ محض لائبریرین ہی نہ تھیں بلکہ ان کا شما ر اردو اور پنجابی کی معروف لکھاریوں میں ہوتا تھا۔اردو میں ناول نگاری اور افسانہ نگاری کے جوہر دکھا نے کے بعد انہوں نے پنجابی میں بھی افسانے، کہانیاں اور ناول تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔انہوں نے خاکہ نگاری بھی کی، ان کاتحریر کردہ خاکہ ’’انور سدید بھائی صاحب‘‘ میں مصنفہ نے ڈاکٹر انور سدید کی نجی زندگی کی جھلکیاں خوبصورت انداز سے قلم بند کی ہیں۔خاکہ کے اختتام پر فرخندہ لکھتی ہیں ’’بھائی صاحب کا خاکہ لکھنے کے لیے میں خود کو کئی برس سے آمادہ پارہی ہوں لیکن وہی طبیعت کی کسل مندی اور بد عہدی، لفظوں کی تنگی اور بے آہنگی، مجھ جیسے لوگ قلم کاروں کی دنیا میں کبھی کبھی ٹامک ٹوئیاں مارلیتے ہیں۔ میدان مارنے والے شہسوار بھائی انور سدید جیسے ہی لوگ ہیں، قلم جن کی زیر ہیں اتنے رواں کہ مہمیز کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی لوگ آج ادب کی آبروہیں‘‘۔ فرخندہ لودھی کا یہ خاکہ سجاد نقوی کی کتاب ’’انور سدید۔گرم دمِ جستجو‘‘میں شامل ہے۔ڈاکٹر انور سدید نے مجلہ راوی ۲۰۱۰ء میں ’فرخندہ لودھی کی ذاتی ڈائری سے‘ کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر انور سدید فرخندہ نے باقاعدگی سے اپنی ڈائری نہیں لکھی۔ اس کی صرف ایک ڈائری دستیاب ہوئی جو ۱۹۸۳ء کے مختلف ایام میں لکھی گئی۔ انور سدیدکے مطابق یہ ایک ایسی خود کلامی ہے جس میں مصنفہ کا سماجی تاثر، بے لوث اور بے تکلف ذاتی رائے سماگئی ہے اورہمیں ان کے داخلی جزیروں تک رسائی کا موقعہ فراہم کرتی ہے‘‘۔
فرخندہ نے ۱۹۸۳ء میں جو ڈائری لکھی اس کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشے سے دل برداشتہ تھیں۔ اگر انھوں نے لائبریرین شپ کے بجائے اپنے شوہر کی طرح ٹیچنگ کا شعبہ اختیار کرلیا ہوتا تو وہ بھی پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوتیں ۔پھر بھی انھوں نے مسائل و مشکلات کا مقابلہ کیا، ہمت نہ ہاری، لڑتی رہیں، اپنی ڈائری میں ایک جگہ فرخندہ نے لکھا’’لگتا ہے میں لائبریرین ہوں اور اس حیثیت سے کسی نہایت غیر اہم کالج سے اٹھا ئی جاؤں گی۔ میرے مقدر میں تمام محنت اور کوشش کے باوجود ترقی کا زینہ نہیں‘‘۔یہی بات پروفیسر صابر لودھی نے بھی کہی کہ ’’فرخندہ لودھی کو لائبریرین کا پیشہ تضحیک آمیز لگا، وہ کامل اختیار کی طلب گار تھی‘‘۔ فر خندہ لودھی نے زندگی کی بازی ہاری نہیں ،بلکہ وہ کامیاب و کامران رہی ۔ فرخندہ فالج کی بیماری میں ۱۲ سال مبتلا رہی ، اس مرض کے کئی حملے ہوئے ،زندگی میں چلتے پھر تے حالات ومسائل کا مقابلہ کرتی رہی اور زندگی کے ۱۲ سال ویل ئیر پر موذی مرض سے مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہارگئی۔۵ مئی ۲۰۱۰ء ،شام ۵ بجے شام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں واپڈا ٹاؤن لاہور کا قبرستان ان کا آخری مستقرٹھہر ا۔ اﷲ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے ، آمین۔علامہ اقبال نے کیا خوب شعر کہا ہے
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں