افسانہ محض افسانہ نہیں ہوتا
روسی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہر مذاق میں سچ کا کچھ نہ کچھ عنصر ہوتا ہے چہ جائیکہ بہت سنجیدگی سے کہی گئی بات جسے اگر لکھا جائے تو تھوڑا سا جھوٹ ڈال دینے سے افسانہ بن جائے اور اگراس بات میں موجود سچ کو گھڑ گھڑا لیا جائے تو تبصرہ بن جاتا ہے جس کو مضمون کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔
صحافی و اینکرپرسن نصرت جاوید کی زبان میں میں ٹھہرا ذات کا تبصرہ و مضمون نگار تو معروف صحافی و افسانہ نگار اخلاق احمد کے افسانوں کے تازہ مجموعے " ابھی کچھ دیر باقی ہے" پر تنقید کرنے سے رہا البتہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تنقید اور تبصرے میں کیا فرق ہوتا ہے بھلا؟ توحضور تنقید نقاد کیا کرتے ہیں جو پیشہ ور ہوتے ہیں جن کو کسی مخصوص صنف سخن کے تکنیکی پہلووں سے شناسائی ہوتی ہے۔ جنہیں تحریر میں مین میخ نکالنے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ بھائی اخلاق احمد تو اپنے اس مجموعے کے افسانے "بنجر،بے رنگ زندگی" میں کہہ چکے ہیں کہ " فارمولا افسانہ نگاری۔ بلکہ افسانہ بازی۔ تکنیک اور اسلوب اور بیان اور جادو نگاری۔ یعنی کیا بکواس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بس، بیٹھوں اور سوچے سمجھے بغیر ایک کہانی بیان کرنا شروع کردوں۔ انجام کی فکر کیے بغیر لکھتا جاوں، لکھتا جاوں۔ کسی عبدالقیوم یا محمد شفیق یا شمیم الدین کی داستان، جس کا ہر کردار آزاد ہو اور طاقتور ہو اور کسی سرکش گھوڑے کی طرح خود میرے قابو میں بھی نہ آتا ہو" یہ باتیں افسانے کے کردار کے منہ سے کہلائی گئی ہیں لیکن درحقیقت ان کے کسی افسانے کا کوئی کردار ان کے آگے پر نہیں مار سکا انہوں نے جیسا چاہا کردار نے ویسا ہی کیا کیونکہ حالات کی جبر کے تحت اسے یقینا" ایسا ہی کرنا تھا۔
میں ان کے افسانوں کا ناقد ہرگز نہیں ہوں مگر وضعداری میں محض معترف بن کر ان کا دل خوش نہیں کروں گا۔ اخلاق احمد ویسے بھی اتنے خلیق ہیں کہ اگر وہ ناخوش ہوں تب بھی اس کا اظہار حقیقت کو سبھاو کے ساتھ عیاں کرکے ایسے کرتے ہیں کہ کہنے والا اپنی کہی بات پر خفیف ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔
تو مجھے ان کے افسانے پڑھ کر کئی بار رونا آیا اگر آنکھیں نہ بھی ڈبڈبائیں تو سینے میں جکڑن ضرور محسوس ہوئی تو کیا ان کے افسانے پرانے زمانے کے رسالوں " حور" " زیب النساء" میں چھپے افسانوں کی مانند جذباتی کر دینے والے ہیں؟ نہیں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ نہ ان میں کوئی لڑکی لڑکا ہے اور نہ ان کے درمیان ڈٹا کوئی ظالم سماج اور آج اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل عہد میں ایسا ہو بھی نہیں سکتا، پھر آنکھیں کیوں ڈبڈبا جاتی ہیں، سینہ کیوں بھرآتا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ جس سماج سے وہ کردار اور واقعات منتخب کرتے ہیں وہ میر امن کے زمانے سے لے کر منٹو کے عہد سے گزرتے ہوئے حمید شاہد اور اخلاق احمد کے دور تک پہنچ کربھی دکھی کا دکھی ہے۔ ان کا ایک کردار جو امریکہ کے شہر سی ایٹل میں ہے وہ برصغیر سے باہر جا کر بس رہنے والے سبھوں کی طرح ناستلجیا کا مارا ہوا ہے۔ اس کا دکھ اس کی انگریز ہم بستر کے دکھ سے زیادہ دکھی کرتا ہے۔
اخلاق احمد ماشااللہ آسودہ حال ہیں۔ ان سے ایک نشست میں جب میں نے کہا کہ اچھی گاڑی میں بیٹھا، اچھے دفتر سے نکلا، اچھے گھر یا پوش کلب کی جانب جاتا ہوا حساس آدمی تو ویسے ہی مر جاتا ہے تو اس پر انہوں نے کہا تھا کہ حساس آدمی اتنا امیر ہوگا ہی کیوں؟ بات تو اچھی کہی تھی لیکن وہ یقینا" اچھی گاڑی میں بیٹھے باہر بکھرے آلام کو دیکھتے ہوئے کٹتے رہتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ یہ گھاو اپنے کرداروں کو منتقل کر دیتے ہیں اور خود اسی طرح سنجیدہ اور خاموش رہتے ہیں جیسے وہ دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے اس مجموعے میں شامل ان کے نو افسانے کوئی بہت زیادہ چبھتے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی عہد ساز بس ایسے عہد، ایسے حالات میں ایسی زندگیاں بسر کرنے والوں کے رنج و الم کی سیدھی سادی سیاہ و سفید تصویر کشی ہیں۔ ان کا ملک سے باہرزندگی بسر کرتا ہوا انور ہو یا نفیس محبوب سے کونج کی مانند بچھڑی موٹے اور ہنسوڑ خاوند کے ساتھ وفاداری کے ساتھ زندگی گذارتی ہوئی ماں بن چکی مہر بانو ہو، سب اپنے دکھ کے ساتھ کسی اور سے وابستہ دکھوں کو بھی اپنے ہی دکھ کی طرح محسوس کرنے والے ہیں یعنی باقاعدہ انسان۔
اخلاق احمد کے ان افسانوں میں استانی کا خاصا ذکر ہے۔ کسی کا پیشے کی مناسبت سے تو کسی کا رویے کی نسبت سے۔ اس تلمیح کے استعمال کا اخلاق احمد کی نفسیات سے کوئی تعلق ہو نہ ہو مگر زندگی سے ضرور ہوگا۔ اگر انہیں الوہ کو بیان کرنے کا اختیار دیا جاتا تو وہ ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے عہد قدیم میں خدا کی تجسیم کرتے ہوئے اس کی ذات میں کسی بادشاہ کے تمام اوصاف و محاسن بشمول غیض و غضب اور قہرو جبر بھی شامل کر دیے تھے، اپنی جانب سے پیش کردہ الوہ میں استانی کی تمام صفات شامل کرتے جس کے ہاتھ میں رولر کی بجائے کتاب ہوتی اور چہرے پر شفقت کی پرچھائیں۔ مگر انہیں تو کردار تراشنے ہیں نہ کہ اصنام جو وہ تراشتے رہیں گے اس سے بے نیاز کہ تبصرہ نگار کیا لکھتا ہے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1763395043686598
“