عزیر طالبات!!!!
سب سے پہلے تو میں اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو مجھے یہاں آ کر اور یہ جان کر ہو ئی کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی جیسے ملک کے نہایت اعلیٰ اور مقتدر ادارے میں آپ جیسے طلباء موجود ہیں جو افسانہ لکھنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔شاہد آپ کو معلوم ہو کہ میں نے اپنی ویب سائٹ پر نوجوانوں افسانہ نگاروں کو کسی معاوضے کے بغیر فنی اور تکنیکی مشورے دینے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں نوجوان لکھنے والے اکثر مجھے اپنے افسانے بھجواتے اور سوالات کرتے رہتے ہیں ان سوالات اور مشکلات کو سامنے رکھ کر جو نوجوان طلباء کو پیش آتی رہتی ہیں میں نے فن افسانہ نگاری کے بارے میں ابتدائی اور بنیادی معلومات پر مشتمل کچھ نوٹس مرتب کئے ہیں ۔ آپ کے سامنے بھی انہی پر بات ہو گی کسی بھی فن میں کوئی نیا تجربہ کرنے سے پہلے اس فن کی مبادیات اور نصابی باتوں سے آگاہ ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ آخر میں اگر وقت ملا تو آپ کے سوالوں کے بارے میں الگ سے بات کریں گے ۔
افسانہ یا کہانی کیا ہے:
آپ جانتے ہیں کہ کہانی سے انسان کا بہت قدیمی ساتھ ہے شاید تب سے جب اس نے بولنا سیکھا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے جب وہ زمین پر لکیریں کھینچ کر اور اشاروں سے اپنے ساتھیوں کو شکار کے وقت پیش آنے والے واقعات بتاتا ہو گا مظاہر فطرت یا کسی عجیب و غریب جانور کو پہلی بار دیکھ کر اپنی حریت اور خوف کا اظہار کرتا ہو گا ۔پھر جب یہ انداز ہوا کہ بعض لوگ کوئی واقعہ لطیفہ یا سرگزشت زیادہ دلچسپ طریقے سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو قصہ گوئی یا قصہ خوانی ایک آرٹ تصور ہونے لگا ۔ پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کا نام آپ نے ضرور سنا ہوگا جو اگلے وقتوں کی یادگار ہے ۔پھر قصہ اور کہانی نظم کی صورت میں کہا اور گایا جانے لگا ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ہمارے ہاں بسوں میں گا کر چھوٹے چھوٹے دلچسپ قصے بیچے جاتے تھے ۔ شاہد اب بھی کہیں کہیں بیچے جاتے ہوں ۔ جب انسان نے لکنا پڑھنا سیکھ لیا تو کہانی نثری اسلوب میں لکھی جانے لگی اور ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور حکاتیوں ،تمثیلوں ،لوک کہانیوں ،مثنویوں اور منظوم داستانوں کی صورت مسلسل آگے بڑھتی رہی ۔ یہاں تک کہ یہ نثری ادب کی ایک اہم شاخ قرر پائی ۔
یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ کہانیوں تہذیب و ثقافت کی اہم ترین عکاس اور مظہر (important aspect of culture) ہوتی ہے ۔ انسانی تہذیبیں کہانیوں میں پیش ہی نہیں ہوتیں ان سے شناخت بھی ہوتی ہیں ۔حکاتیوں، روایتوں اور تمثیلوں کی صورت یہ تفریح اور تعلیم کا قدیم ترین اور اولین ترین انسانی وسیلہ اظہار ہیں ۔ قدیم مصر، میسو پوٹیمیا (عراق)، یونان ،چین اور انڈیا میں ان کا خاصا سرمایہ موجود ہے، قدیم ترین زمانے کی کہانیوں اساطیر اور بعض اوقات عقاید کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ مذاہب میں بھی قصہ اور کہانی کے ذریعے تبلیغ اور اصلاح کا کام لیا گیا ۔ بدھ کی جاتک کہانیاں مشہور ہیں ۔ قرآن پاک میں بھی دیگر قصوں کے علاوہ حضر ت یوسف کا قصہ موجود ہے جس احسن القصص کہا گیا ہے ۔
مختصر کہانیاں (افسانے) ناول کے مقابلے میں مختصر اور کم پیچیدگی کی حامل ہوتی ہیں اور عام طور سے کسی ایک واقعہ، ایک پلاٹ، ایک سیٹنگ، تھوڑے کرداروں اور وقت کے کم دورانیہ تک محدود ہوتی ہیں ۔لیکن ان کا تاثر گہرا اور دیرپا ہو سکتا ہے ۔
بیانیہ 🙁Narrative)
بیانیہ کا لفظ کہانی کے مترادف یا ہم معنی (synonym)کے طور پر برتا جاتا ہے۔
کہانی کے اس اسلوب کو جس میں فرضی یا حقیقی سلسلہ واقعات کو کسی خاص ترتیب سے فنی یا ادبی روپ دیا جائے بیانیہ کہتے ہیں ۔ یہ تحریری، زبانی، نثر اصناف اور فکشن کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں عوماً مصنف (ادیب، مقرر یا خطیب) قاری یا سامع سے بلاواسط اور براہ راست مخاطب ہوتا ہے ۔
بیانیہ کی اقسام:
بیانیہ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ یا اصطلاح ہے، وسیع تر معنوں میں بیانیہ کا اطلاق تمام افسانوی تحریروں پر ہوتا ہے ۔ یہ بلاغت (Rhemtorical modes) کے ذریعوں یا وسلیوں (modes)
میں سے ایک ہے
فکشن (fiction):
فکشن (fictionn) ایسی تصوراتی یا فرضی تحری رکو کہتے ہیں جوفیکٹس (facts) کے برعکس حقیقی اور سچی نہ ہو (لیکن یہ لازم نہیں ہے) ۔ اس کا مقصد لکھنے والے پیغام یا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے یا یہ فقط وقت گزاری اور تفریح کیلئے بھی ہو سکتی ہے ۔عام طور پر قصہ ،کہانی ،حکایت ،فسانچہ ،ناول ،ناولٹ ،تمثیل ،ڈراما وغیرہ فکشن کی مختلف شکیں ہیں ۔ (تا ہم صرف یہی شکلیں نہیں) وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سکرین پلیز ،وڈی وفلمیں ،کارٹوں کتابیں ،آڈیو وڈیو بکس وغیرہ بھی شامل ہو گئی ہیں ۔
نان فکشن (non-fiction):
فکشن کے برعکس ایسی تحریریں جن کو سچائی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے (چاہے وہ سچی ہوں یا نہ ہوں) نان فکشن کہلاتی ہیں ۔
عام طور پر تاریخ (ہسٹری)، علمی مضامین ،ڈاکو میٹریز ،سائنسی مقالات ،سوالخ عمریاں ،نصابی کتب ،فوٹوز ،وڈیو گیمز، کمپیوٹر گیمز ،بلیو پرنٹس ،سفر نامے ،صحافتی تحریریں وغیرہ نان فکشن کی ذیل میں آتے ہیں ۔سادگی ،سچائی اور صفائی (clarity) اس کی اہم ترین خصوصیات ہیں ۔
افسانہ (SHORT STORY):
اردو میں فکشن کیلئے افسانہ کی اصطلاح رائج ہے جس میں فکشن یا افسانوی ادب کی دیگر ساری انواع (modes) قصہ ،کہانی ،ناول ،ناولٹ ،مختصر افسانچے ،اور سکرین پلے سب ہی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ لفظ صرف شارٹ سٹوری (مختصر کہانی) کیلئے استعمال ہونے لگا ہمارے ہاں کہانی کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ۔لیکن بعض لوگ (میرے سمیت) کہانی اور افسانے میں فرق روا رکھتے ہیں اس طرح کہانیاں واقعہ نگاری کے قریب ہوتی ہیں ۔یہ سیدھی ،سادہ اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں جیسے سچی کہانیوں اور تین عورتیں تین کہانیاں وغیرہ ۔ اس کے برعکس جس کہانی میں لکھنے والا زیب داستان اور معنوں گہرائی کیلئے اپنا فن ،فکر ،تخیل ،تجزیہ اور نقطہ نظر شامل کر کے اسے خلاقانہ اور فنی پیش کش بنادے اسے فسانہ کہیں گے
اسی لیے عام گفتگو ،میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے تو معمولی سی بات کا افسانہ بنا دیا ہے ۔ یوں تو انسائے لطیف یا نثری نظم کی طرح کے پلاٹ ،کردار اور کہانی پن کے بغیر بھی افسانے لکھے گئے اور اینٹی سٹور پز بھی لیکن میرے نزدیک افسانے میں کہانی یا کہانی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے ۔ دلچسپی یعنی ریڈایلبٹی ،اختصار ،ایجاز اور وحدت تاثر اس کی اہم خصوصیات ہیں ۔
افسانے کی تریف:
ایک مغربی دانشور نے افسانے (مختصر کہانی ) کی ایک مختصر تعریف یوں کی کہ ایک مختصر کہانی ایسی کہانی ہے جو مختصر ہو۔
(a short story a story which is short)
لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی مختصر ؟ وقت اور دورانیے پر ماہرین کا ہمیشہ اختلاف رہا اور یہ کہانی کو پہچاننے کا کوئی اچھا پیمانہ ثابت نہیں ہوا ۔ایک امریکی نقاد w.b.pitkin نے بھی نہایت اختصاد سے کام لیتے ہوئے کہا کہ
The Stort story is a narrative drama with a single effiect
ظاہر ہے ایسی تعریفیں ،آسان اور دلچسپ ضرور ہیں لیکن مکمل نہیں ۔ایک اور نسبتاً جامع رائے ملا خطہ ہو:
سچی بات یہ ہے کہ افسانے کی ایسی کوئی مخصر ،جامع اور ہر لحاظ سے مکمل کرنا جس میں اس کی ساری خصوصیات سما جائیں آسان نہیں ہے ۔ ہر بار کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے ۔تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
’’زندگی کے کسی ایک پہلو ،ایک واقعہ ایک جذبہ ،ایک احساس ،ایک خیال ،ایک تاثر ،ایک مقصد یا ایک ذہنی کیفیت کو ایجاز و اختصار کے ساتھ کہانی کی شکل میں اس خلاقاہ اور فنی طریقے سے بیان کرنا کہ اس میں اتحاد تاثر پیدا ہو جائے جو پڑھنے والے کے جدذبات و احساسات پر اثر انداز ہو ،افسانہ کہلاتا ہے‘‘
افسانے کا مقصد:
افسانے کا مقصد تفریح اور وقت گزاری بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ حیات انسانی کا عکاس اور نقاد بھی ہوتا ہے ۔آپ نئے لوگوں اور جگہوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں ۔ ان سب لوگوں سے ملتے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ آپ ان لوگوں کی زندگی گزار سکتے ہیں جنہیں آپ نے دور سے دیکھا ہے ۔ اس طرح آپ اپنے آپ سے باہر نکل کر دوسرے کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں اور آپ کہانیوں کے ذریعے دنیا اور لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے لگتے ہیں ۔ آپ کو زندگی کے بہت سے گر معلوم ہوتے ہیں اور آپ اپنی زندگی اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔
مختصر افسانہ کا موضوع (theme):
افسانے کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہو تا ۔ زندگی اور سوسائٹی (بلکہ کا ئنات) سے متعلق کوئی بھی واقعہ ،جذبہ ،احساس ،تجربہ ،کیفیت ،مشاہدہ ،نفسیاتی ،فکری یا روحانی نکتہ افسانے کا موضوع بن سکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ جس مقصد ،اصلاحی یا فکری پیغام ،خیال یا تھیم (آئیڈیا) کی خاطر لکھا گیا وہی اس کا موضوع تھیم ہو گی لیکن یہ نامحسوس طریقے سے اس میں مستور ہوگا ۔ادبی محفوں اور تنقیدی بحثوں میں ہم اکثر افسانے کے موضوع کے تعین کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایک بات کا یہ ذکر یہاں ضرورت ہے کہ حقیقت پسندی کے موجود دور میں بعض لوگوں کو خیال ہے کہ کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کی نئی نسل میں ہر جگہ پلاٹ ،سسپنس اور جدوجہد (ACTION) کی کہانیوں مقبول ہیں اور ڈراموں ،فلموں اور ڈائجسٹوں کو بھی ان کی ضرورت رہتی ہے ۔ان میں کردار بہر حال موجود ہوتا ہے مگر کردار کے نفسیاتی مطالعہ کی بجائے اب ہم تھیمز (آئیڈیاز) کے زمانے میں ہیں ۔ جو کردار نگاری اور مخص قصہ گوئی سے زیادہ اہم ہے ۔ بے شک تھیم کو بھی کردار اور پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن موضوع یا تھیم خود اپنا پلاٹ اور کردار تخلیق کر لیتی ہے ۔
افسانے کے بنیادی اجزاء (elements of fiction):
افسانے کے بنیادی اجزاء یا عناصر کے بارے میں مختلف ماہرین ،فکشن کے اساتذہ اور لکھنے والوں کی آراء میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔بعض کے نزدیک فکشن کے تین اجزاء پلاٹ ،کردار اور سیٹنگ (جگہ اور فضا) اہم تر ہیں ۔ بعض کے خیال میں اس میں نکتہ نظر (پوائنٹ آف ویو) کو بھی شامل ہونا چاہیے کہ افسانہ کسی کردار کے پوائنٹ آف ویو سے لکھا جا رہا ہے ۔ بعض ماہرین فن کا خیال ہے کہ مکالمہ بھی بے حد اہم جزو ہے ۔مرکزی خیال یا تھیم اور ٹیکنیک یا سٹائل کو بھی بعض ماہرین اہم تصورکر تے ہیں ۔ ان پانچ اجزاء میں سے کردار ’’کون‘‘ ،پلاٹ ’’کیا اور کیوں ‘‘سیٹنگ’’ کب اور کہاں ‘‘اور سٹائل ’’کیسے‘‘ہے ۔تھیم کو آپ وی مرکزی خیال کہہ سکتے ہیں جس کے گرد لکھنے والا کہانی بنتا ہے ۔
ایک دوسرے دانشور اور ماہرین کے نزدیک افسانے کے اہم اجزائے ترکیبی (Elements) درج ذیل ہیں :
1 -پلاٹ – ۲۔ کردار ۳۔سینٹگ یا فضا ۴۔ نقطہ نظر ۵۵ اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان وبیان ۶ ۔ موضوع ۷ علامت نگاری ،تمثیل اور عکس
پلاٹ:
پلاٹ افسانے یا کہانی کا بنیادی جزو ہے ۔یہ کہانی کا خاکہ ہے یہ واقعات ،سلسلہ واقعات اور جدوجہد یا عمل کو ترتیب دینے کا نام ہے ،جس سے کہانی میں معنی اور اثر پیدا ہوتا ہے ۔یہ واقعات مرکزی کرادر کو پیش آنے والے تصادم یا مشکلات سے پیدا ہوتے ہیں جو یا تو بیرونی عناصر جیسے موسم ،زلزلہ ،بیماری یا موت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا کسی دوسرے کردار کی مخالفت ،لالچ ،مفاد پرستی اور بے وفائی کی وجہ سے، چوں کہ مرکزی کردار ان تصادمات سے نپٹنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے اس لیے پلاٹ وجود میں آتا ہے ۔پلاٹ سادہ، پیچیدہ ،ڈھیلا ڈھالا اور غیر منظم ہو سکتا ہے ۔ بعض کہانیوں میں مصنف یہ واقعات منطقی ربط کے ساتھ سلسلہ وار جیسے کہ وہ پیش آئے بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔لیکن بعض کہانیوں میں فلیش بیک کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے پہلے پیش آ چکے واقعات بعد میں بیان کیے جا سکتے ہیں ۔
قریب سے دیکھیں تو پلاٹ عمل اور ردعمل پر مشتمل ہوتا ہے ذرا دور سے دیکھیں تو پلاٹ کا ایک آغاز ایک درمیان اور ایک انجام ہوتا ہے ،پلاٹ کو عام طور پر ایک قوس سے ممشتل کیا جاتا ہے ،منظر یا سین بھی اس کا حصہ ہے ۔منظر ڈرامے کا عنصر ہے ،ہم سب ہر لمحہ کسی منظر میں ہو تے ہیں اور فلم کی سٹلز کی طرح منظروں میں حرکت کرتے ہیں ،افسانے کی بیانیہ ساخت عام طور پر کلائمکس کے حوالے سے ہوتی ہے ۔
ایک روایتی افسانے میں آہستہ آہستہ مرکزی کردار کیلئے واقعات میں الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جو انتہائے تصادم یا نقطہ عروج (کلائمکس) پر جا پہنچ جاتی ہیں ۔کلائمکس کے بعد سلجھاؤ کا عمل شروع ہوتا ہے ۔اور آخر کار معاملات جن کے سدھرنے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہوتی ، سلجھ جاتے یا ہمیشہ کے لیے بگڑ جاتے ہیں اور افسانے کا اختتام ہو جاتا ہے
کردار یا کردار کی پیش کش (characterisation):
کردار کو افسانے کا نہایت بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے ۔یہ کہانی کے اندر جدوجہد میں مصروف شخص یا اشخاص ہو تے ہیں ۔لیکن یہ انسانی کرداروں کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں ۔کرداروں کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔
۱۱۔بیان کنندہ (جس کے پوائینٹ آف ویو سے کہانی یا واقعات کو دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے) یہ کہانی کا مرکزی کردار بھی ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی ۔
۲۔ کہانی کا مرکزی کردار (Portagonistt) جیسے فلم یا ڈرامے کا ہیرو
۳۔مرکزی کردار کا حریف (A ntagonist)
۴۔ ادنیٰ کردار (Minor Characterr) کہانی کو آگے بڑھانے والے مددگار اور کم اہمیت کے حامل کردار ۔
۵۔مزاحم کردار (Foil Characterr) جو مرکزی کردار کے ارادوں اور عمل میں مزاحم ہوں ۔
۔ماحول یا فضا (setting):
سیٹنگ کا کہانی کے مقام (جگہ) ،وقت اور زمانے سے تعلق ہے ۔یہ جگہ حقیقی یا فرضی بھی ہو سکتی ہے اور ہماری دنیا کے علاوہ کائنات کا کوئی دوسرا مقام بھی ہو سکتا ہے، علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’حقیقت حسن ‘‘میں ایک بہت خوبصورت ڈراما ہے جو بیک وقت زمین اور افلاک پر کھیلا گیا۔
۔ بیان کنبدہ اور نقطہ نظر کردار ((Polit of view character):
ہر کہانی بیان اپنے کنندہ کا نقطہ نظر پیش کرتی اور اسی کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہے وہی واقعات کو سنتا ،دیکھتا اور محسوس کرتا اور ہمیں اپنے نقطہ نظر سے چیزوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔بیان کنندہ خود لکھنے والا بھی ہو سکتا ہے اور کہانی کا کوئی دوسرا کردار بھی ،نقطہ نظر مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔بیان کنندہ کے لئے زیادہ تر صیغہ متکلم (میں یا ہم) اور صیغہ غائب (وہ) استعمال کیا جاتا ہے شاز ہی صیغہ حاضر (تم)۔ اس کے علاوہ ضرورت کے مطابق یہ کسی ناقابل اعتبار کردار کے ذریعے بھی بیان ہو سکتی ہے اور شعور کی روکی تکنیک کے ذریعے بھی ۔جس میں جیسے جیسے خیالات ذہن میں آتے جاتے ہیں انہیں داخلی مونو لاگ (خود کلامی) اور تلازمہ خیال (مونتاج) کے ذریعے پیش کر دیا جاتا ہے۔
۔اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان و بیان ((style,tone&languge):
کہانی کے اجزائے ترکبی میں اسلوب بھی ایک اہم جزو ہے ۔
افسانے میں جس انداز یا سلیقے سے قصہ بیان کیا جاتا ہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر ادیب جس قسم کی زبان ،انداز بیان ،گرامر ،فقروں کے ساخت ،لطیفیات ،پیراگرافنگ اور لب و لہجہ (ڈکشن) اختیار کرتا ہے اور اس کے اسٹائل یا اسلوب پر دلالت کرتا ہے ۔عام طور پر ہر لکھنے والا اسلوب کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے ۔
ٹیکنیک (TECHNIQUE):
مصنف کہانی کے واقعات کو جس طریقے ،سلیقے اور فنی ترتیب سے پلاٹ میں پیش کرتا ہے اسے ٹیکنیک کہتے ہیں ۔ ہر موضوع اور مواد کے مطابق اس کی ایک بہتری ٹیکنیک موجود ہوتی ہے اسے دریافت کر لینا ایک اچھے ادیب کا کام ہے ۔مواد کے تقاضوں کے مطابق موزوں تر ٹیکنیک سے افسانے کا تاثر گہرا ہو جاتا ہے ۔عموماً بیانیہ تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں واحد غائب یا واحد متکلم و اقعات بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔خطوط کے ذریعے بھی واقعات بیان ہوتے ہیں جو سادہ مگر دلچسپ ٹیکنک ہے ۔ڈائری اور روزنامچے کے ذریعے بھی واقعات نگاری کی جاتی ہے ،سادہ بیانیہ کے علاوہ علامتی ،استعاراتی اور تمثیلی ٹیکنیکوں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
زبان و بیان:
افسانہ لکھنے کیلئے مناسب تعلیم اور مطالعہ ضروری ہے ۔ اس کیلئے لکھنے والے کا اچھا انشاپرداز ہونا ضروری ہے وہ عام علمی اور ادبی الفاظ و اصطلاحات کا مفہوم جانتا ہو اسے فکشن کی مخصوص زبان اور لہجے کا علم ہو ۔ اسے کہانی کہنے کے فن سے دلچسپی اور آگاہی ہو ۔اس میں دیکھے ہوئے مناظر ،اشخاص اور باتوں کو ہو بہو لفظی تصویروں میں دوبارہ دیکھانے کی صلاحیت ہو ۔
جدیدر ججانات:
نئے علمی موضوعات اور نظریات کی روشنی میں افسانے میں ہر دور میں اور ہر سطح پر تبدیلیاں آتی رہیں ۔یہ کسی صنف ادب کے ارتقا کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی مقام پر جمود کا شکار نہ ہو اور فکر ،موضوع ،ٹیکنیکی ،اسالیب اور نئے رجحانات سے خود کو دور یا بے خبر نہ رکھے ۔چنانچہ ساٹھ کی دہائی میں اردو افسانہ بھی نئے رجحانات سے روشناس ہوا ۔ اور علامتی ،استعارتی اور تجریدی افسانے لکھنے جانے لگے ۔ایسے افسانے کو علامتی افسانے کہا جاتا ہے ۔
علامت نگاری (Symbolism):
جب کوئی لفظ یا چیز اپنے لغوی معنوں کے علاوہ وسیع تر اور مخصوص معنوں بھی استعمال ہو تو اسے علامت کہتے ہیں۔ لفظ کے معنی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک لغوی اور ظاہری اور دوسرے باطنی جن کا کوئی مخصوص پس منظر ہوتا ہے یا اس ہے کوئی معاشرتی ،تہزیبی ،اساطیری ،مذہبی یا ادبی حوالہ یا واقعہ وابستہ ہوتا ہے اس طرح لفظ یا چیز کو استعمال کرنے سے جو جسے وسیع تر مفہوم حاصل ہوتا ہے اسے علامتی مفہوم کہتے ہیں اور علامتوں کو برتنے کے اسلوب کو علامت نگاری یا سمبلزم ۔
تمثیل نگاری (Allegory):
تمثیل کا لفظ مثل سے لیا گیا ہے ۔ایک ایسی حکایت یا کہانی جو کسی دوسری سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی یا فلسفانہ صورت حال کی مثل ہو اور اس پر پوری طرح منطبق ہو سکے ۔دوسرے لفظوں میں یہ اپنی اصل کہانی کے علاوہ ایک علامتی مفہوم بھی رکھتی ہو۔ علامتوں کی طرح تمثیلیں بھی شخصی ،معاشرتی ،تمدنی ،اساطیری اور عالمی ہو سکتی ہیں ۔
تجریدیت (Abstractness):
یہ اصلاح مصوری سے ادب میں آئی ہے ۔ تجسیم کے برعکس یہ اشاراتی انداز بیان ہے ۔عام طور پر ایسی کہانیوں پلاٹ ،موضوع اور کرداروں کے بغیر ہوتی ہیں ۔واقعات اور تاثرات کو اشاروں کنایوں سے بیان کیا جاتا ہے اس لیے اکثر ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
شعور کی رو (Stream of Consciousness):
جیسے جیسے خیالات لکھنے والے کے ذہن میں آتے ہیں وہ انہیں داخلی مونولاگ یا خود کلامی کے انداز میں لکھتا چلا جاتا ہے ،تلازمہ خیال بھی اس کا ایک انداز ہے ۔بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور مجموعی طور پر تحریر میں ایک تاثر ساپیدا ہو جاتا ہے
یاد رہے کہ ساٹھ کہ دہائی میں اردو افسانے میں علامت نگاری کا جو رجحان عام ہوا تھا اسے عوام اور بعض نقادوں نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا کیوں کہ نئے تجربوں کے دور میں جیسا کہ بالعموم ہوتا ہے اور اردو افسانہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہوا اور اینٹی سٹوری اور کہانی کے بغیر انشائے لطیف یا نثری نظموں کی طرح کے افسانے بھی لکھے گئے لیکن آہستہ آہستہ ان نئے تجر بات میں پیچدگی اور اعتدال آتا گیا اورقارئین بھی وقت کے ساتھ ساتھ نئے انداز کی کہانیوں سے مانوس ہونے لگے ۔ستر کی دہائی تک آتے آتے اردو افسانے میں سارے اسالیب ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور ایک نہایت معتدل اور متوازن اسلوب غالب آگیا جس میں قصہ یا کہانی پن تو موجود ہوتا ہے مگر اسے نئے انداز سے پیش کیا جاتا ہے، افسانوں میں جدت اب صرف اسلوب تک محدود نہیں بلکہ معنی کے لحاظ سے بھی نئے خیالات کو افسانے کا معضوع بنایا جاتا ہے۔
میں بے حد شکر گزار ہوں ۔ آپ سب کا کہ آپ لوگوں نے اتنی توجہ اور دلچسپی سے میری باتیں سنیں اور مٰں ممنوں ہوں آپ کے اساتذہ اور منتظمین کا بھی جنہوں نے مجھے یہاں آنے اور مستقبل کے ادیبوں سے مخاطب ہونے کا موقع فر اہم کیا ۔