افسانہ، کہانی، ڈرامہ، ناول، فلم، فیچر…. وغیرہ ان میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ کردار، ڈائیلاگ، مکالمہ، منظر کشی اور کہانی سب میں مشترکہ طور پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانے اور کہانی میں فرق یہ ہے کہ کہانی میں اصل واقعہ اور واقعیت ہوتی ہے، جبکہ افسانے میں اصل تخیل اور خیالات ہوتے ہیں۔ پلاٹ، کردار اور مکالمہ وغیرہ دونوں میں ہی ہوتا ہے۔ ناول میں کرداروں، مکالموں، منظروں، تخیلات کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
ناول میں کئی کردار ہوتے ہیں۔ کئی مناظر ہوتے ہیں، کئی قسم کے مکالمے ہوتے ہیں۔ ایک خاص پلاٹ کو لے کر چلا جاتا ہے۔ کسی آئیڈیے پر لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے میں بھی کردار سازی ہوتی ہے، منظر کشی ہوتی ہے، مکالمے ہوتے ہیں، منظرنگاری ہوتی ہے۔ تخیلات ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ ”فلم“ کہانی کے لمبے اور طویل پراسیس، ڈرامہ نگاری ہویا فلم رائٹنگ کا نام ہے۔ کہانی لکھنا ہو یا افسانہ نگاری، ڈاکومینٹری کا اسکرپٹ لکھنا ہو یا کسی پروگرام کا خاکہ…. ان سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان سب کی بنیاد کہانی ہوتی ہے۔ قدرمشترک سب میں کہانی ہوتی ہے، تو آئیے! کہانی لکھنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ کہانی چونکہ گزرے ہوئے زمانے کا واقعہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ ماضی کے صیغے میں بیان کیا جاتا ہے۔ کہانی کسی خاکے اور پلاٹ پر لکھی جاتی ہے اور آخر میں سبق دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ ”والدین کی نافرمانی“ پر کہانی لکھنا چاہتے ہیں۔ اب اس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ یہ ہے کہ ایک بچہ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اسے بھاری مالی و جانی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ جس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ جتنا مضبوط اور اچھا ہوگا، وہ کہانی اسی قدر عمدہ شمار ہوگی۔ دیکھیں! مکان تو ہمیشہ پلاٹ پر ہی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پلاٹ ڈیفنس میں ہے، محل وقوع اچھا ہے تو مکان بھی عمدہ تعمیر ہوگا، لیکن اگر آپ کا پلاٹ بھی بے کار جگہ پر ہے، محل وقوع بھی صحیح نہیں ہے، تو مکان بھی خواہ آپ اس پر جتنی بھی محنت کرلیں، اچھا نہیں بنے گا۔
کہانی میں معلومات، تناظر، اسلوب، منظر کشی، ڈائیلاگ، مکالمہ سب ہی کچھ ہوتا ہے۔ کہانی میں تکرار کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ الفاظ کے تکرار سے بچنے کے لیے مترادف کا استعمال کریں۔ اسم ظاہر کو دوسری مرتبہ لانا ہو تو نام دوبارہ لانے کے بجائے ضمیر دوبارہ لائیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کہنا چاہیں: ”سمندر کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کی آبی حیات خشکی میں رہنے والوں کے لیے بہترین غذا ہے۔“ تو یوں نہ کہیں ”سمندر کی آبی حیات….“ سمندر کے لفظ کی جگہ اسم ضمیر ”اس“ لے آئیے۔
معانی اور مفاہیم کے تکرار سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عناصر اور اشارات کی عقلی منطقی مربوط ترتیب کے مطابق مضمون کو لے کر چلیے۔ اشارات چونکہ مرتب اور غیرمکرر ہوتے ہیں، اس لیے ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔ کہانی میں کوئی ایسی ترکیب، کوئی ایسا محاورہ یا مقولہ، کوئی ایسا شعر اور مصرع ہر گز استعمال نہ کریں جس کا مفہوم اور مطلب آپ خود نہیں سمجھتے۔ کہانی نہ تو اتنی لمبی ہو کہ پوری کتاب بن جائے اور نہ ہی اتنی مختصر ہو کہ ایک پیراگراف لگے اور بات ہی مکمل نہ ہو۔ جاندار اور اچھی کہانی کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
نمبر ایک: جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی۔ نمبر دو: منظر کشی اور منظر نگاری۔ نمبر تین: مکالمہ اور ڈائیلاگ۔ نمبر چار: کہانی کا اچھا پلاٹ اور عمدہ خاکہ۔ جب کسی کہانی میں کسی منظر یا پس منظر کا ذکر آئے تو اس کو حقیقی اور واقعاتی مناظر سے قریب ترین کرکے ایسے بیان کریں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اسی جگہ محسوس کرے۔ کسی جگہ کی ایسی منظرنگاری کریں کہ جب پڑھنے والا کبھی اس جگہ جائے تو وہ محسوس کرے کہ یہی وہ جگہ ہے جس کو میں نے کہانی میں پڑھا تھا۔
اسی طرح آپ کہانی کے کسی کردار سے بلوائیں تو وہ ایسے بولے جیسے اصل میں بات کررہا ہو، یعنی جذبات، دلی کیفیات اور احساسات کے موقع پر انسانی احساسات، قلبی واردات برمحل اور برجستہ بات کریں۔ اسی طرح آپ دو یا دو سے زائد افرا دکے مابین مکالمہ کروائیں تو مکالموں کی بندش بالکل حقیقی گفتگو کی طرح ہو۔ نقل مطابقِ اصل معلوم ہورہی ہو۔ بعض اوقات ایک کہانی کی تہہ میں اور پس منظر میں ایک اور کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا موقع ہو تو ان دونوں میں ربط، تسلسل اور روانی برقرار رہنی چاہیے۔ تسلسل اور ربط ٹوٹنا نہ چاہیے۔
ابتدا میں چھوٹے چھوٹے سماجی اور اخلاقی موضوعات پر کہانیاں لکھنے کی کوشش کریں۔ پھر رفتہ رفتہ ہر موضوع پر لکھتے چلے جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ شروع شروع میں ازخود طبع زاد کہانی لکھنا اور کہانی کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے خاکے کی مدد سے کہانی لکھنے کی مشق کریں۔ مطالعے، محنت، مستقل مزاجی سے لکھیں او رکسی استاذ سے اصلاح لیتے رہیں۔ جب چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مشق ہوجائے، جب الفاظ کا درست استعمال آجائے۔ ضرب الامثال اور محاورات سے مزین جملے بنانے آجائیں۔ منظر کشی اور جذبات نگاری میں قلم رواں ہوجائے تو پھر طبع زاد کہانیاں لکھنے کا آغاز کریں۔
: رپورتاژ
رپورتاژ صحافتی صنف ہے اسے بطور ادبی صنف صرف اردو ادب میں برتا گیا۔ لفظ (Reportagee) لاطینی اور فرانسیسی زبانوں کے خاندان سے ہے جو انگریزی میں (Report)رپورٹ کے ہم معنی ہے۔ رپورٹ سے مراد تو سیدھی سادی تصویر پیش کرنے کے ہیں۔ لیکن اگر اس رپورٹ میں ادبی اسلوب، تخیل کی آمیزش اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی لمس بھی عطا کیا جائے تو یہ صحافت سے الگ ہو کر ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ادبی اصطلاح میں رپورتاژ ایک ایسی چلتی پھرتی تصویر کشی ہے جس میں خود مصنف کی ذات، اسلوب، قوتِ متخیلہ، تخلیقی توانائی اور معروضی صداقت موجود ہوتی ہے۔ اکثر سفر ناموں کو بھی رپورتاژ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن سفر نامے کے لیے سفر کی ضرور ت ہوتی ہے لیکن رپورتاژ میں ایسا ضروری نہیں۔ مصنف چشم ِ تخیل کے ذریعے ہی رپورتاژ تخلیق کر سکتا ہے۔
تعریف
مختصر یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں خارجیت اور داخلیت کا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوتی ہیں اور دونوں ہی اس صنف کے معیار کا تعین کرنے کی ذمّہ دار ہوتی ہیں ۔ رپورتاژ صرف چشم دید واقعات پرلکھاجاسکتا ہے۔ سنے سنانے واقعات پرلکھی گئی کوئی تخلیق ،افسانہ ،ناول یا ڈراما تو ہوسکتی ہے۔ رپورتاژ نہیں۔
تاریخ
رپورتاژ دورجدید کی پیداوار ہے۔ رپورتاژ اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے۔ برّصغیر کی تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں سے جوخون کی ہولی کھیلی۔ پاکستان داخل ہونے والی مسلمانوں کی گاڑیاں کی گاڑیاں تباہ کی گئیں۔ مسلمان عورتوں اوربچوں پرجو طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تو اس جامع اور ہمہ گیر صنف نثر نے اپنے اندر ان ہنگامی اورخون آشام موضوعات کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ اس وقت جورپورتاژ لکھے گئے ان میں جمناداس کا " خدادیکھتا ہے " شاہداحمد دہلوی کا " دہلی کی بپتا " اور تاجور سامری کا "جب بندھن ٹوٹے " مشہور ہیں ۔ جدید دور میں رپورتاژ کو جن چیزوں نے ترقی و خوشحالی بخشی ،ان میں زمانے کے انتشار،معاشی وسیاسی کشمکش، جنگ اور سیلاب کی تباہ کاریاں،سپرپاورز کے مابین بڑھتی ہوئی جدید اسلحے کی دوڑ اور سٹاروار جیسے پروگرام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ رپورتاژ کاکینوس جنگ اورفسادات تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے علاوہ ادبی تقاریب ،تہذیبی جلسوں اورسیر و سیاحت پر بھی بڑے خوبصورت رپورتاژ لکھے گئے۔
اردو رپوتاژ
اردو ادب کی پہلی باقاعدہ رپورثاژ کرشن چندر کی ”پودے“ ہے اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس صنف کو آگے بڑھایا ۔1947 کے واقعات نے رپورتاژ نگاری کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ فسادات پر لکھی جانے والی رپورتاژ ادبی شہکار ثابت ہوئیں۔ ان میں محمود ہاشمی کی رپورتاژ ”کشمیر ادا س ہے“ قدرت اللہ شہاب کی کاوش ”اے بنی اسرائیل“ ابراہیم جلیس کی ”دو ملک ایک کہانی“ رامانند ساگر کی ”اور انسان مر گیا “ اور جمنا داس اختر کی ”اور خدا دیکھتا رہا “ ایسی رپورتاژیں ہیں جو سیدھے سادے سچے واقعات پر دلگزار تبصرہ ہیں۔ ان واقعات میں صداقت اور افسانوی انداز دونوں موجود ہیں۔ اس کارآمد صفِ ادب کو تقسیم ہند کے واقعے کو بہت بھر پور طریقے سے پیش کرنے میں مدد دی۔ رپورتاژ فرانسیسی کا لفظ ہے ۔انگریزی زبان میں اس کے لیے رپورٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس صنف میں لکھنے والا نہ صرف کسی اہم واقعہ یا حالات، کسی سفر کا حال، میلے، ٹھیلے، حادثہ یا کسی جنگ کے محاذ کی رپورٹ بیان کرتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کی جزئیات و تفصیلات میں اپنے نقطۂ نظر اور تخیل کی آمیزش بھی کرتا ہے یعنی کسی حادثے، مقام اور واقعہ کودیکھ کر جو مصنف کے دل و دماغ پرگزرتی ہے اسے بعینہ رقم کردیتا ہے(صداقت اور خلوض کی ضرورت)۔ رپوتاژ کاتعلق ماضی اور مستقبل کی بجائے حال سے ہوتا ہے۔ مصنّف چشم دیدواقعات و مشاہدات کو اپنی داخلی کیفیات کے ساتھ شامل کرکے پیش کرتا ہے۔ رپورتاژ کے مصنّف کی آنکھ کیمرے کی آنکھ کی مانند ہوتی ہے۔ لیکن کیمرے کی تصویر میں مصنّف کی تصویر جیسا جذبہ، خلوص، جوش و شوق اور سوز و ساز نہیں ہوتا۔ مفہوم یہ ہے کہ رپورتاژ ایک ایسے پودے کی مانند ہے، جس کی جڑوں کو صرف اور صرف سچائی، خلوص اور اندرونی جذبے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ارد رپوتاژ نگار
ادبی اور تہذیبی جلسوں پر یادیں (ظہیر سجاد)،
صبح ہوتی ہے ( کرشن چندر)،
خزاں کے پھول ( عادل رشید )،
بمبئی سے بھوپال تک (عصمت چغتائی)
مشہور ہیں سیر و سیاحت پر جو رپورتژ سامنے آئے ان میں
اور زمین اور پانچ ستارے (خواجہ احمد عباس)
الف لیلی کے دیس میں (ظفر پیامی)
پاکستان میں چند روز (ظ انصاری)
برسبیل لندن (محمود نظامی)
قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ اردو میں رپورتاژ لکھنے والوں میں حمید نظامی، عنایت اللہ، حمید اختر، اے حمید، فخر ہمایون، مستنصر حسین تارڑ اور ممتاز مفتی و غیر ہ مشہور ہے۔
: مثنوی۔۔۔۔۔۔مختصر تاریخ
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
تاریخ
رباعی کی طرح عربی شاعری میں مثنوی کا وجود بھی نہیں تھا اور یہ خاص ایران کی ایجاد ہے اور فارسی شاعری سے ہی ہندوستان میں آئی۔ رودکی کی مثنوی کلیلہ و دمنہ کا شمار فارسی کی قدیم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے اور ان کے بعد بہت سے فارسی شعرا نے مثنویاں لکھیں لیکن دو مثنویاں ایسی ہیں جو دنیائے ادب میں زندہ و جاوید سمجھی جاتی ہیں، ایک فردوسی کی شہرہ آفاق مثنوی شاہنامہ اور دوسری مولانا رومی کی مثنوی معنوی۔ ان کے علاوہ نظامی گنجوی کا خمسہ، جو پانچ مثنویوں کا مجموعہ ہے اور امیر خسرو کا خمسہ، جو نظامی گجنوی کی مثنویوں کے جواب میں ہے، بھی مشہور مثنویاں ہیں۔ ان کے علاوہ سعدی شیرازی اور مولانا جامی بھی فارسی مثنوی کے مشہور شاعر ہیں۔ علامہ اقبال نے خوبصورت فارسی مثنویاں لکھی ہیں جیسے جاوید نامہ، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی و دیگر۔
اردو میں مثنوی کی ابتدا دکن سے ہوئی اور اس دور میں کثرت سے مثنویاں لکھی گئیں۔ دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔[حوالہ درکار ہے] اس قدیم درو کے دیگر مثنوی گو شعرا میں رسمی، نصرتی، سراج دکنی، ملا وجہی، محمد قلی قطب شاہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس کے بعد کے دور میں مشہور اردو مثنوی گو شعرا میں میر اثر، میر حسن، میر تقی میر، جرأت، دیا شنکر نسیم، نواب مرزا شوق، مومن خان مومن اور مرزا غالب وغیرہ شامل ہیں۔
جدید دور کے شعرا نے بھی اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے، گو اب اس کا چلن کم ہو گیا۔ اس دور کے شعرا میںالطاف حسین حالی، داغ، امیر مینائی، اقبال، حفیظ جالندھری، محسن کاکوری اور شوق قدوائی وغیرہ شامل ہیں۔
خصوصیات
مثنوی کی ہیت تو متعین ہے ہی جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایک معیاری اور اچھی مثنوی کے لیے کئی ایک چیزیں ضروری ہیں، جیسے
پیٹرن یا خاص ترتیب – قدیم مثنوی کا آغاز ہمیشہ حمد و نعت و منقبت سے ہوتا تھا، اس کے بعد عموماً بادشاہ کی تعریف یا علم و حکمت و دانائی کی تعریف۔ وجہ تالیف بھی عموماً بیان کی جاتی تھی اور اس کے بعد اصل قصہ یا داستان شروع ہوتی تھی لیکن جدید شعرا نے اس سے انحراف بھی کیا ہے جیسے علامہ اقبال۔
سلاست و زبان و بیان – مثنوی میں عموماً ثقیل الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ چونکہ ہر شعر میں قافیہ بدلنا ضروری ہوتا ہے اس لیے شاعر کو ایک طرح سے سہولت مہیا ہوتی ہے کہ بہتر سے بہتر اور رواں و سلیس شعر کہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی ایک مثنویوں کے اشعار ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں جیسے میر حسن کی مثنوی "سحر البیان" کا یہ شعر
برس پندرہ کا یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
یا نواب مرزا شوق کی ایک مثنوی کا یہ شعر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اور کسی مثنوی کا یہ شعر
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
کردار نگاری – ایک اچھی کہانی کی طرح، ایک اچھی مثنوی میں کردار نگاری انتہائی اہم درجہ رکھتی ہے۔ تاریخی مثنویوں تو اچھی کردار نگاری کے بغیر بے جان ہیں۔
ربط و تسلسل
حسنِ ترتیب
وغیرہ
مشہور اردو مثنویاں
یوں تو تقریباً سبھی مشہور اردو شعرا نے مثنویاں کہی ہیں جسیا کہ اوپر تحریر ہے لیکن میر حسن کی مثنوی "سحر البیان" کو دو صدیاں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود اردو میں بہترین مثنوی سمجھا جاتا ہے۔ اس مثنوی میں عشق و محبت کا ایک عام اور سادہ سا قصہ بیان ہوا ہے جس میں کئی ایک مافوق الفطرت واقعات درج ہیں لیکن سادہ و سلیس زبان، جذبات نگاری، مصوری و منظر نگاری اور تہذیب و ثقافت و معاشرت کے خوبصورت اظہار نے اس کو یہ درجۂ جلیلہ عطا کیا ہے۔
مقبولیت کے لحاظ سے اس کے بعد پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی "گلزارِ نسیم" ہے جو اصل میں گل بکاؤلی کا قصہ ہے۔ اس مثنوی کی مقبولیت کی وجہ طرزِ ادا اور لکھنؤیت ہے۔
نواب مرزا شوق کی مثنوی "زہرِ عشق" بھی ایک مشہور لیکن بدنام مثنوی سمجھی جاتی ہے اور اس کی وجہ عریانی ہے۔
“