کام کا بوجھ کچھ ہلکا کرنے کے لئے اس نے ایک مشین خرید لی تھی۔اور یہ فیصلہ اس کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔اب نہ صرف اس کا وقت بچ رہا تھا اورمشقت کم ہو گئی تھی بلکہ فصل کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔
اپنی سال بھر کی ضرورتوں کا حساب لگانے کے بعد اُس سال کچھ اناج اس نے مارکیٹ میں فروخت بھی کردیا تھا۔ پھر بھی نئی فصل کے تیار ہوجانےتک اس کے پاس پرانا غلہ پڑاتھا جو خراب ہونے لگا تو اس نے کچھ ناداروں کو بلا کر دان کردیا۔اگلے سال انہی لوگوں کو لگا کر اس نے کھیت سے متصل بے کار پڑی زمین سے خود رو پیڑ پودے کٹوا ئے اور اس میں بوائی کردی۔
اپنے خالی وقت کو اس نے دوسری مشغولیات میں بانٹ لیا ۔سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینا اب اس کے لئے آسان تھا۔جلد ہی اس کا شمار معاشرے کے سر کردہ لوگوں میں ہونے لگا۔ گھر، کھیت، کیچڑ، جنگل، تالاب کے گرد گھومنے والی زندگی میں اب گویا نئی ترجیحات نے جگہ بنا لی تھی۔صحت تو خیر اس کی پہلے بھی بہت اچھی تھی اب چونکہ جسمانی محنت نہ کے برابر تھی اس کا ڈیل ڈول مزید نکھر گیا۔یہ سب مشین کی بدولت ممکن ہو پارہا تھا جو کسی نعمتِ غیر مترقبہ کی طرح آ کراس کی کایا پلٹ رہی تھی۔خون پسینے سے سینچے ہوئے ان تین دیو قامت پیڑوں کو کاٹ بیچنے کا دکھ اسے ضرور ہواتھا جن سے مشین کی قیمت ادا کی گئی تھی لیکن اب وہ پوری طرح مطمئن تھا ۔مشین اپنی قیمت سے زیادہ قیمتی تھی۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا کہ ایک دن اچانک مشین چلتے چلتے رک گئی۔ پچھلے سالوں کا تجربہ استعمال میں لاتے ہوئے اس نے بہتیرا کوشش کی کہ کیل پُرزے کس کر اسے ٹھیک کر لے لیکنناکام رہا۔اس سے پہلے جب بھی کبھی اس میں مرمت کی ضرورت پیش آئی تھی آسانی سے ہو گئی۔ لیکن اس بار وہ سارے حربے اور ارد گرد کے سبھی مستری آزما چکا تھا۔دس دنوں کے انتظار کے بعد شہر سے پہنچنے والا انجینئر بھی ہار مان کر جا چکا تھا۔
کھیتی کا موسم جارہاتھا اس لئے فی الحال اسے اپنے آپ پر ہی تکیہ کرنا تھا۔سٹور سے پرانے اوزار نکال کر وہ کھیت کی طرف چل پڑا۔اس روز اسے احساس ہوا کہ بڑھاپے نے اس کے جسم پر حق جمانا شروع کر دیا تھا۔
کام شروع کرنے سے پہلے اس نے سوچا کہ پہلے مشین کو کھیت سے باہر ہٹا دے ۔اس نے مشین بمشکل کاندھے پر اٹھا ئی اور کھیت کے اس حصے کی جانب چل دیا جہاں کچھ کباڑ رکھا تھا۔
“کہاں جا رہے ہو؟” یہ آواز مشین کی تھی۔لیکن وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر گیا۔
“میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو” اب کی بار مشین کا ایک بڑا سا پرزہ زور سے اس کی کمر پر آ کر بجا۔وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
“تمھیں کھیت سے باہر رکھنے جارہاہوں”
“اچھا تو جب تک میں کام کی تھی ساتھ چمٹائے رکھا ۔اور اب کام کی نہیں رہی تو مجھ سے چھٹکارا چاہتے ہو”
“ہاں ایسا ہی سمجھو” ۔
“لیکن میں تمھیں چھٹکارا دوں تب نا!” مشین کے دو پُرزے لڑھکتے ہوئے اس کی گردن کے گرد حمائل ہو گئے۔
“کیا مطلب” وہ کچھ سہما لیکن آگے بڑھتا گیا
“مطلب یہ کہ اب تم مجھے اپنے کاندھے سے اتار نہیں سکتے”
“اوہم م م ۔۔۔دیکھتے ہیں” اس نے پوارا زور لگا کر اس بوجھ کو پھینکنے کی کوشش کی۔
لیکن مشین نے اس کا اوپری دھڑ جکڑ لیا۔اس نے اپنے بازووں میں پوری ہمت جٹا کر پھر کوشش کی کہ اس آفت کو اپنے جسم سے الگ کر سکے لیکن اس بار مشین کی پکڑ اورزیادہ مضبوطط بلکہ درد ناک تھی ۔
ایک درخت کے منڈ کا سہارا لینا چاہا لیکن سوکھا ہوا پیڑ اندر سے سڑ بھی چکا تھا۔ اچھا یہ ہوا کہ وہ اس کے اوپر آگرنے کی بجائے ہاتھ چھوتے ہی دھڑام سے دوسری طرف جا گرا۔
“چلتے جاؤ” مشین نے گرفت کچھ ڈھیلی چھوڑتے ہوئے حکم صادر کیا
مشین کا وزن ہر لمحے بڑھ رہاتھا اور وہ مسلسل چلتا جارہاتھا۔کھیت کھلیان، گاؤں، چراہ گاہ، تالاب، جنگل، پہاڑ، دریا، نالے سب پیچھے چھوٹ گئے لیکن وہ چلتا جارہاتھا۔